اولاد سے حُسنِ سلوک
Table of Contents
اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اوراپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنھیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔(القرآن)
اسلام جیسے متوازن نظام اور دین نے اگر والدین کے حقوق مقرر کیے ہیں تواولاد کے بھی کیے ہیں اولاد کے بھی حقوق ہیں اور وہ کیا حقوق ہیں۔اس سلسلے میں والدین پر اولاد کی طرف سے کیا فرائض عائد ہوتے ہیں۔ اولاد کے حقوق والدین کے فرائض ہیں کہ والدین نے ان کو پورا کرنا ہے وہ ان کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کریم نے والدین کی بنیادی ذمہ داری اورتوجہ جس بات کی طرف دلائی وہ اپنے آپ کو اور اولاد کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اوراس کی سزا سے بچانا ہے۔ اس انداز میں ان کی تربیت کریں کہ وہ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ سکیں۔
اسلام سے پہلے جاہلی معاشرے میں جو صرف عرب میں نہیں بلکہ پوری دنیا کے اندر تھا، اولاد کے حقوق مقرر نہیں تھے۔ اولاد کو بے جا اور غیر ضروری سختی کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ عرب میں کچھ لوگ ایسے تھے جو اولاد بالخصوص لڑکیوں کو قتل کر دیتے تھے ،عام طور پر مشہور تو یہی ہے کہ لڑکیوں کو قتل کرتے تھے یا زندہ گاڑتے تھے لیکن بعض جگہ لڑکے بھی اس کے ساتھ شامل ہوتے تھے اس کی وجہ غربت اور افلاس کا حقیقی خطرہ وخدشہ تھا۔ جس کے بارے قرآن کریم نے کہا:
وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ
مفلسی اور بھوک کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔
دوسری جگہ فرمایا:
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَہُمْ سَفَہًا بِغَیْرِ عِلْمٍ
ان لوگوں نے بڑا نقصان اٹھایا جنھوں نے جاہلیت، حماقت اورنادانی کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل کر دیا۔
حدیث پاک میں رسول اللہؐ سے سوال ہوا کہ
(اَیُّ الذَّنْبِ اَکْبَرُ)
اللہ کے رسول! آپ ہمیں نیکیوں اوربرائیوں کی پہچان کراتے ہیں یہ بتلائیے کہ برائیوں میں بڑی برائی کون سی ہے؟ ارشاد ہوا
(اَنْ تَدْعُوَ لِلّٰہِ نِدًّا وَھُوَخَلَقَکَ)
انسان کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ وہ اس اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنائے جس نے اسے پیدا کیا ہے پھر پوچھا:
اس سب سے بڑے گناہ کے بعد دوسرے نمبر پر جو سب سے بڑا گناہ ہے وہ کون سا ہے؟ فرمایا:
اپنے بچے کو اپنے ہاتھ سے مار ڈالنا اوراس لیے مارنا کہ یہ بڑا ہو گا تواسے ساتھ بٹھا کر کھلانا پڑے گا۔
قتل بذات خود ایک جرم ہے، قتلِ اولاد اورپھر اس وجہ سے کہ مجھے اسے کھلانا پڑے گا یہ بہت بڑا جرم ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے کہ یہ جرم لڑکیوں کے بارے میں زیادہ کیا جاتا تھا کہ ان کو کھلانے اورایک نام نہاد غیرت کا مسئلہ بھی کہ یہ بڑی ہو گی تواس کے لیے رشتہ تلاش کرنا پڑے گا ان کو کسی کے حوالے کرنا پڑے گا اس سے پہلے ہی انہیں ختم کر دیاجائے۔ارشاد باری ہے:
جاہلیت کے دور کا انسان لڑکی کی پیدائش کی خبر سنتے ہی دوسروں سے منہ چھپانے لگتا تھا کہ یہ لڑکی کاباپ ہے کیا یہ کسی خاتون کا بیٹا نہیں تھا کیا اس کی ماں کسی کے گھر پیدا نہیں ہوئی تھی؟ اگر نہ ہوتی تو یہ دنیا میں کہاں سے آتا لیکن انسان جب انسانیت کو بھولتا ہے توعقل کو بھی فراموش کر دیتا ہے کوئی چیز اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔ لڑکی کی پیدائش منحوس سمجھی جاتی، اسے برا سمجھا جاتا اوراسے زندہ درگور کیاجاتا تھا۔ قرآن کریم نے کہا:
زندہ گاڑی جانے والی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تجھے کس جرم کی سزا ملی، ظاہر ہے جرم بے گناہی کی ملی ، اسے بغیر کسی جرم کے گاڑا گیا اور اس کی جوابدہی کرنا ہوگی۔
اسلام نے بتایا کہ لڑکیوں کو گاڑنے یا حقیقتاً یا محاورۃ زندہ درگور کرنے کی بجائے ان کی عزت اور اچھی دیکھ بھال کرو۔
نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے:
جس کی بیٹی ہو وہ اسے گاڑنے اورمارنے کی بجائے اس کی اچھی تربیت کرے اس بچی کی توہین اوربے عزتی نہ کرے ۔ اس کے ساتھ شفقت اورمہربانی کا برتاو کرے، اس کے ساتھ بے پرواہی اورتوہین آمیز سلوک نہ کریاوربیٹے کو اس پر ظاہری ترجیح نہ دے، دل کے معاملے تودل کے ہوتے ہیں لیکن ظاہری سلوک میں فرق نہیں آنا چاہیے۔ خاص طور پر وہ جن کو دو تین بیٹیوں کے بعد اللہ تعالیٰ بیٹا عطافرمائے وہ ہر معاملے مثلاً کھلانے، پلانے، پہنانے، سیروتفریح اورمحبت وپیار کرنے میں ان بے چاریوں کو پیچھے ڈالتے ہیں اوربیٹے کو آگے کرتے ہیں ۔ اس لیے فرمایا کہ بیٹے کو اس پر ظاہری ترجیح نہ دے اس طرح کی ترجیح دے کہ اس کا دل نہ دکھائے۔
مسلم شریف میں روایت ہے :
فرمایا کہ جو شخص اپنی دوبیٹیوں کی ان کی بلوغت تک اچھی پرورش کرے۔ آپؐ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملا کر فرمایا کہ وہ قیامت کے میدان میں اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ اکٹھے ہوں گے۔
اس کو قیامت کے میدان میں رسول اللہؐ کا قرب، آپ کا ساتھ اورمعیت حاصل ہو گی، جسے یہ قرب ملا وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کے غضب اورغصے سے محفوظ رہے گا اور بہترین درجات حاصل کرے گا۔
کسی نے عرض کیا کہ آپ نے دو کی شرط لگائی ہے اگر اللہ تعالیٰ کسی کو ایک ہی بیٹی دے توپھر کیا ہوگا؟ فرمایا: ایک ہو تو پھر بھی اسی طرح ہے۔
ایک شخص آیا اور کہنے لگا جی! میری کچھ پراپرٹی ہے میری ملکیت میں کچھ غلام ہیں یا کوئی چیز ہے وہ میں اپنی اولاد میں سے ایک کو دینا چاہتا ہوں جس سے مجھے زیادہ محبت ہے یا جومیرے نزدیک میرا زیادہ تابع فرمان ہے اس کا میں آپ کو گواہ بنانا چاہتا ہوں۔ اس نے سوچا کہ رسول اکرمؐ سے بہتر گواہ اور کون ہو سکتا ہے آپ گواہ ہوں گے کہ میں نے اس کو دے دیا ہے بعد میں میری اولاد کوئی جھگڑا کھڑا نہیں کر سکے گی، باقی بچے کہہ نہیں سکیں گے کہ اس کو کیوں ملا اورہمیں کیوں نہیں ملا۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا:
میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا، یہ ظلم ہے کہ تم باقی اولاد کو نظر انداز کر کے ایک کو نواز رہے ہو ۔ اس لیے میں ظلم پر گواہی نہیں دوں گا۔
اسی عدل وانصاف کا تقاضا ہے کہ اسلام نے وراثت میں لڑکیوں کو ان کا حصہ دلوایا۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت ہے کہ چونکہ براہ راست ان پر معاش کی ذمہ داری نہیں، اس لیے جس پر ذمہ داری زیادہ ہے اس کو زیادہ حصہ دیا گیا، لیکن نصف حصہ بھی اس وقت ملا جب دنیا میں عورت کو کوئی حصہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ آج جو تہذیب وتمدن کے علمبردار بنے ہوئے ہیں یہ تو اس کے سینکڑوں سال بعد ہوئے ہیں اوران کو ہوش نہیں آیا کہ ان کا بھی کوئی حق ہوتا ہے یہ تو عورت کا حق ملکیت بنیادی طور پر تسلیم ہی نہیں کرتے تھے کوئی سو ڈیڑھ سو برس پہلے تک یہی کیفیت ہوتی تھی۔
بچے سے پیار بھی اس کا حق ہے ایک تو ہے دینے دلانے میں ظاہری عدل وانصاف کرنا اس کے ساتھ یہ ہے کہ حسن سلوک ،پیار اور شفقت بچے کا حق ہے۔
ایک اعرابی آپؐ کی خدمت میں تھا اس کا بچہ آیا تو اس نے اس سے پیار کیا بچی آئی تو اس کو پیار نہیں کیا۔آپؐ نے فرمایا:
تونے انصاف سے کام نہیں لیا،ایک بچے کو پیار کیا تو دوسرے کوبھی کر نا چاہیے تھا بچے کو پیار کیا توبچی کو بھی کرنا چاہیے تھا۔ شفقت اورپیار بچے اوربچی دونوں کا حق ہے۔
ایک دفعہ ایک اور اعرابی آپؐ کے پاس آیا اس نے آپ کی مجلس میں دیکھا کہ آپ اورصحابہ) بیٹھے ہوئے ہیں بچے آتے ہیں توآپ ان سے پیار کرتے ہیں چومتے ہیں، یہ دیکھ کر اس بدّو نے حیرت سے کہا:
آپ اپنے بچوں کو چومتے بھی ہو، ہم تو ایسا نہیں کرتے، یہ بھی ایک شان سمجھی جاتی تھی۔نبی اکرمؐ نے عجیب بات ارشاد فرمائی:
اگر اللہ تعالیٰ نے تیرے دل سے شفقت کو نکال لیاہے تومیں کیا کرسکتا ہوں میں تیرے دل میں کیسے شفقت ڈال سکتا ہوں۔
اسی طرح بخاری شریف میں آتا ہے ایک موقع پر آپؐ نے سیدنا حسنؓ کوبوسہ دیا وہاں اقرع بن حابس ایک بدو سردار بیٹھے تھے ، اس نے کہا کہ میرے دوچار نہیں، دس بیٹے ہیں لیکن میں نے آج تک ان میں سے کسی کو نہیں چوما، کسی کو پیار نہیں کیا، سردار کا کیا کام ہے بچوں سے پیارکرنا۔
نبی رحمتؐ نے نظر اٹھا کر دیکھا اور ارشاد فرمایا:
یا درکھو! اگر تم مہربانی نہیں کرو گے تو تم پر بھی مہربانی نہیں کی جائے گی۔ مہربانی اس پر ہوتی ہے جو خود مہربان ہو۔
سیدہ عائشہؓ نے بیان کیا کہ ایک عورت سوال کرتی ہوئی میرے پاس آئی فرماتی ہیں کہ اس وقت میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہیں تھا۔ میں نے وہی اٹھا کر اسے دے دی۔ دوبیٹیاں اس کے ساتھ تھیں ،پتہ نہیں وہ کب کی بھوکی تھیں، میرے پاس ایک کھجور تھی وہ کس کس کو دیتی، اس عورت نے اسے دوحصوں میں تقسیم کیا خود کچھ نہیں لیا بلکہ دونوں بیٹیوں کو آدھا آدھا حصہ دے دیا، سیدہ عائشہؓ نے یہ واقعہ رسول اکرمؐ کی خدمت میں پیش کیا، بتایا کہ آپ کی غیر حاضری میں اس طرح ہوا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو اس طرح کے شفیق والدین ہوں، ان کی اولاد کیا ہوتی ہے کہ یہی بیٹیاں اس ماں کے لیے آگ سے پردہ اورحجاب بن جائیں گی، اس شفقت ، مہربانی اورادائے حقوق کی وجہ سے اس کو آگ سے بچائیں گی۔
حافظ ابن قیم نے کہا کہ بچوں کی خرابی اور آوارگی کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے والدین ان کے بارے میں ذمہ داری ادا نہیں کرتے۔ ٹھیک ہے کہ بچے دوسرے طریقے سے بھی بگڑ جاتے ہیں لیکن بنیادی اوربڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بچپن میں ان کے بارے میں ذمہ داری ادا نہیں کی جاتی۔ تربیت صرف زبانی نہیں کہ زبانی تلقین کردو، اسے کوئی نہیں مانتا ، اس کا کوئی اثر نہیں لیتا جب تک والدین اس کے لیے نمونہ نہ بنیں، بچے کو کہتا رہے، نماز فرض ہے، نماز پڑھنی چاہیے اورخود پڑھے نہیں، بچہ کیا سبق لے گا؟ کیسے سیکھے گا، کیا عمل کرے گا؟ بچے کو کہے کہ اپنے اخلاق، کردار درست کرو، خود اسے ٹی وی سینما اورگانے بجانے سے فرصت نہ ہو، بچہ کیا اثر لے گا جبکہ ارشاد باری ہے:
قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَ اَہْلِیْکُمْ نَارًا
اپنے آپ کو بھی بچانا ہے اوراولاد کو بھی بچانا ہے۔
دینی تربیت کا ایک بہت بڑا حصہ یہ ہے کہ اولاد کو نمازی بناو، اچھا کردار ، اچھا اخلاق اوراس کی بنیاد بچپن میں رکھو، جو اس کو نماز کی عادت ڈال دے۔
ارشاد ہوا کہ بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو، جب وہ سات سال کے ہوجائیں توانھیں حکماً پڑھاو۔ اوراگر دس برس کے ہو کر بھی نہ پڑھیں توپھر سختی کرو، سختی سے پڑھاو۔ بلکہ ایک روایت میں توآیا ہے :
جب دودھ کے دانت گر جائیں توان کو نماز پڑھنے کا حکم دو۔
اولاد پیدا ہوتے ہی والدین کی ذمہ داری شروع ہوجاتی ہے ، اذان دلوانا، گھٹی دینا اورعقیقہ وغیرہ، پھر جب بچہ بولنے لگے تواسے کلمہ سکھاو۔ گانے ،گیت، گالیاں اوربری زبان نہیں بلکہ کلمہ اسلام سے ابتداء کرو، اسے قرآن کریم کی تعلیم دلاو، پھر اپنی توفیق کے مطابق اس کی ضروریات پر خرچ کرو، اورپھر اس کو عام دنیاوی تربیت دو، جس سے وہ ایک اچھا انسان بنے اور معاشرے میں ایک کارآمد رکن بھی بنے یہ بھی اسلام کی تربیت ہے۔
جب بچہ پیدا ہو تو جونام تمھیں اچھا لگتا ہو، اس کا اچھا نام رکھو اوراسے ادب سکھاو، ادب میں ساری چیزیں آجاتی ہیں ادب یعنی زندگی بسر کرنے کی تربیت اورزندگی کا قرینہ سکھاو اس میں دنیاوی تعلیم بھی شامل ہے۔
ترمذی شریف کی روایت ہے :
فرمایا: والد اپنے بچے کو جو بہترین عطیہ دے سکتا ہے وہ اچھا ادب اوراچھی تربیت ہے۔
سیدنا عمرؓ فرماتے ہیں کہ اپنے بچوں کو دوسری چیزوں کے ساتھ تیراکی بھی سکھاو، اورتیراندازی بھی سکھاو، (یہ اس زمانے کی ضروریات ہیں) ان کو شہسواری سکھاو حتی کہ فرماتے ہیں ان کو اچھی شاعری، ضرب الامثال، اپنی عربی زبان کے محاورے بھی سکھاو، یہ دنیاوی تعلیم نہیں تواورکیا ہے خود سکھاو یا اس کے لیے سکول، ٹیوٹر، اتالیق اور استاد کا اہتمام کرو، ایک طرف آپ نے والدین سے کہا اور دوسری طرف بچوں سے کہا:
ایک روایت ہے رسول اللہؐ فرماتے ہیں:
میں تمہیں نوجوانوں، چھوٹوں اورنوعمر لڑکوں کے بارے میں حسن سلوک کی تاکید کرتا ہوں، ان سے اچھا سلوک کرو، ان کی عزت اوراحترام کرو اگر ان کی نفسیات کے مطابق طریقے اور سلیقے سے بات ہوتو ان کے دل نرم ہوتے ہیں سنوارے جا سکتے ہیں وہ ہدایت اوراچھی بات کو جلد قبول کر تے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ دل سخت ہوجاتے ہیں ،پھر آدمی ساری عمر کی پختہ عادتیں اور عقائد بدلنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ بچے اور نوجوان جلدی بدلتے ہیں بوڑھے اورپختہ عمر کے لوگ اتنی جلدی نہیں بدلتے۔ اس لیے آپ نے فرمایا: ان سے اچھا سلوک کروگے ، ان کی نفسیات کو سمجھو گے تویہ بہتر طریقے سے تمھارے ساتھ چلیں گے۔ جیسا کہ عرب میں یہ مشہور تھا کہ نوجوانوں سے بھی مشورہ لینا چاہیے وہ بھی کوئی جدید اور اچھی رائے دیں گے اس لیے کہ وہ موجودہ دور کو بھی بہتر سمجھتے ہیں۔
کھیل کود کے لیے ٹائم دینا بھی بچوں کا حق ہے:
سیدنا عمرؓکہا کرتے تھے (یہ جنریشن گیپ کی بات ہے) تمہارے بچے کسی اورزمانے یا کسی اورنسل میں پیدا ہوئے ہوں تو یہ کوئی طعنے اور گھبرانے کی بات نہیں جنریشن گیپ والی بچوں کی سوچ اور ہے اورہماری سوچ اور ہے۔
اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ ماحول یا جدید زمانے کو بہانہ بنا کر دین سے دور ہوجائیں کہ دین توپرانے زمانے کی بات ہے دین تو ہر زمانے کی بات ہے لیکن تعلیم، کلچر اورتہذیب کے اوضاع واطوار جو ہر زمانے میں بدلتے رہتے ہیں ان کو سمجھ کر جو ان میں سے جائز چیزیں ہیں ان کو کوئی قبول کرتا ہے کوئی لیتا ہے تو اسے لینے دینا چاہیے ، اس پر زیادہ قدغن نہیں ڈالنی چاہیے، اخلاقی اوردینی قدریں توہونی چاہئیں لیکن ان سے ہٹ کر یا ان کے اندر رہ کر کوئی تبدیلی آتی ہے تو اس کو قبول کرنا چاہیے۔ اس سے بڑوں کو کمپرومائز کرنا چاہیے اس لیے فرمایا کہ تمھاری اولاد کاکسی اورنسل یا اورزمانے سے تعلق ہے۔
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ شروع میں ہی انھیں اپنے جیسا بڑا اوربوڑھا نہ سمجھ لو کہ وہ بچپن کی بات نہ کر سکے یا جوانی کی کوئی جائز بات نہ کر سکے کہ یہ سنجیدہ ہونا چاہیے اوران کو کھیل کود کے قریب نہیں جانا چاہیے میں نے ایسے بڑے نیک والدین دیکھے ہیں کہ اگرچھوٹے بچے بات کرنا شروع کریں تو انہیں خاموش کرا دیا جاتا ہے یہ طریقہ درست نہیں۔ انہیں بھی اچھی بات کہنے کا موقعہ ملنا چاہیے۔
جب انسان مرتا ہے تواس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے عمل کی مہلت کب تک ہے؟ جب تک میرا آخری سانس باقی ہے اس کے بعد نہیں، اس سے پہلے پہلے جو میں نے کمالیا، وہ کمالیا۔ لیکن فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں جو بعد میں بھی اس کو فائدہ دیتی رہتی ہیں:
1۔ صدقہ جاریہ:
کوئی ایسا صدقہ جس کا فائدہ لوگوں کوبعد میں ہوتا رہے اورمرنے والے کو بھی ہوتا رہے ،جسے صدقہ جاریہ کہتے ہیں۔
2۔ عِلْمٌ یُنْتَفَعُ بِہٖ:
اسی طرح علم، علم کی ایسی بات جو بعد میں بھی نفع دیتی رہے، کوئی شاگرد بنا گیا ہے کسی کو لکھا پڑھا گیا ہے علمی کام کیا ہے۔
3۔ وَلَدٌ صَالِحٌ یَدْعُوْ لَہ:
اولاد چھوڑ گیا ہے اولاد کی اولاد ہے جب تک وہ یاد رکھتی ہے اور مرنے والے کے لیے دعا کرتی ہے اس دعاء کا بھی فائدہ ہوتا ہے۔