عُبید بن عُمیرؒ اور ایک لڑکی کا واقعہ
Table of Contents
ایک عورت تھی اُسکو اپنے حسن پر بڑا ناز تھا!*پورے علاقے میں اس کے حسن کا چرچا تھا عورتیں اسکا حسن دیکھنے کیلئے آتی تھی۔ ایک مرتبہ نہانے کہ بعد کپڑے بدل کر اپنے بال سنوار رہی تھی. آئینے کے سامنے کھڑی تھی اور اپنے آپ پہ بہت فریفتہ تھی کہ میں بہت حور پری ہوں.
خاوند کو جب دیکھا تو اُس نے بڑے ناز نخرے سے بات کی کہ ہے کوئی مرد ایسا جو مجھے دیکھے اور میری تمنا نہ کرے؟ تو خاوند نے کہا ہاں!ایک شحض ہے پوچھا کون ہے”عبید بن عمیر” یہ مسجد نبوی میں مدرس اور خطیب تھے۔*
تو میاں بیوی کا تعلق عجیب سا ہوتا ہے آگے سے کہنے لگی تو دے مجھے اجازت میں تجھے دیکھاتی ہوں وہ پھسلتا کیسے ہے، اُس نے کہا ٹھیک ہے میں اجازت دیتا ہوں . عورت کو اجازت مل گئی اور وہ نکلی، پھر مسجد کے دروازے پر آ کر کھڑی ہو گئی.
اب جب مولانا عُبید بن عُمیرؒ مسجدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے باہر نکلے تو عورت نے پہلے اس طریقے سے بات کہی جیسے کوئی مسئلہ پوچھنے کے لیے کھڑی ہو. تو مولانا کھڑے ہو گئے. اس دوران اس نے اپنے چہرے سے نقاب کو ہٹا دیا.
اُسکا خیال یہ تھا کہ جب وہ میرے حسن و جمال کو دیکھیں گے تو فریفتہ ہو جائیں گے، جسے ہی اس نے ایسا کیا تو اُنہوں نے نظر ہٹا دی !
وہ کہنے لگی آپ مجھے جانتے ہے؟فرمانے لگے نہیں میں تمہیں نہیں جانتا!کہنے لگی میں اپکے پاس اپکی حواہش پوری کرنے آئی ہو۔۔۔
عُبید بن عُمیرؒ نے فرمایا میں تُم سے کچھ پوچھتا ہوں ، اگر تُم نے ہاں میں جواب دیا تو پھر میں تمہارے اُس معاملے کی طرف توجہ کروں گا -عورت نے کہا آپ جو بھی پوچھیں گے میں اُس میں آپ کی ہاں میں ہاں ہی ملاوں گی “””
عُبید بن عُمیرؒ نے فرمایا مجھے یہ بتاؤ کہ جب ملک الموت تُمہاری رُوح قبض کرنے کے لیے آئے گا تو کیا تمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تُمہاری یہ ضرورت پُوری کی ہو ؟
عورت نے کہااللہ کی قسم ، نہیں عُبید بن عُمیرؒ نے فرمایادُرست کہااور پوچھا جب تمہیں قبر میں داخل کر دیا جائے گا اور پھر تمہیں سوال وجواب کے لیے بٹھایا جائے گا تو کیاتمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ “””
عورت نے کہا “”” اللہ کی قسم ، نہیں “””
عُبید بن عُمیرؒ نے فرمایا “”” دُرست کہا “””،
اور پھر پوچھا “”” جب لوگوں کو اُن کے اعمال نامے دیے جائیں گے ، اور تم جانتی نہیں ہو گی کہ تمہار ا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یا بائیں ہاتھ میں ،تو کیا تمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ “””
عورت نے کہا “”” اللہ کی قسم ، نہیں “””
عُبید بن عُمیرؒ نے فرمایا “”” دُرست کہا “””،
اور پوچھا “”” اور جب تم پل صراط سے گذرنے لگو گی اور تم نہ جانتی ہوگی کہ تم لڑکھڑاؤ گی یا ثابت قدمی سے گذر جاؤ گی ، تو کیاتمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ “””
عورت نے کہا “”” اللہ کی قسم ، نہیں “””
عُبید بن عُمیرؒ نے فرمایا “”” دُرست کہا “””،
اور پوچھا “”” اور جب اعمال تولنے کے لیے ترازو پر لائے جائیں گے اور تم نہ جانتی ہو گی کہ تمہارے نیک کاموں کا پلڑا بھاری ہو گا یا ہلکا ، تو کیا تمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ “””
عورت نے کہا “”” اللہ کی قسم ، نہیں “””
عُبید بن عُمیرؒ نے فرمایا “”” دُرست کہا “””،
اور پوچھا “”” اور جب تُم سوال و جواب کے لیے اللہ کے سامنے پیش کی جاؤ گی ، تو کیاتمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ “””
عورت نے کہا “”” اللہ کی قسم ، نہیں “””
عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا “”” دُرست کہا “””،
اورفرمایا “”” اے اللہ کی بندی ، اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے بچو ، اُس نے تُمہیں اپنی نعمتیں عطاء کی ہیں ، اور تمہارے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے “””
*”دیکھو! کیوں ایسے کام کے بارے میں سوچتی ہو جس سے تمہیں دنیا میں بھی ذلّت ملے گی اور آخرت میں بھی ذلّت ملے گی”*
اب یہ الفاظ انکے منہ سے اتنے درد سے نکلے وہ شرما گئی اور شوہر کے پاس واپس آ گئی.
تو اُس نے پوچھا “”” کیا کر کے آئی ہو؟ “””
عورت نے کہا”کیا مرد ہی نیک ہوتے ہیں؟ عورتیں نہیں نیک ہو سکتی! میں بھی نیک بنو گی”
*اُسکی زندگی بدل گئی اُسکے بعد روز وہ خاوند سے پوچھتی عشاء کے وقت کہ تمہیں میری ضرورت ہے؟ اگر کہتا ہاں تو وہ وقت خاوند کے ساتھ گزارتی اور اگر وہ کہتا نہیں تو جبّا پہن لیتی اور ساری رات مسلے پہ عبادت کرتی..*
اُسکا خاوند کہا کرتا تھا! ” پتا نہیں عبید بن عمیر نے ایک فقرہ بول کہ میری بیوی کو نیک کیسے بنا دیا “ایک وقت تھا کہ اس کے ناز و نخرے سے میں تنگ آجاتا تھا اور پھر جب بھی میں اسے دیکھا مسلے پر ہی دیکھا۔۔۔
شکار کرنے کو آئے شکار ہو کے چلے!
تو یہ کیفیتیں اُن کی اس لیے تھیں کہ پروردگار عالم نے اُن کے دلوں میں اک اثر ڈالا ہوا تھا، ایمان کامل اُن کے دلوں میں تھا اور یہ نہیں کے صرف بڑے لوگوں کو یہ حال تھا بچوں کا بھی یہی حال تھا.اس واقع کو علامہ ابن جوزیؒ نے نم الہوی میں نقل کیا ہے۔