حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو وفات بخشی۔ پھر آپؐ کے بعد آپؐ کی ازواجِ مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ (متفق علیہ)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول
Table of Contents
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں مسجد میں قیام فرماتے تھے، اور آپؐ کا یہ معمول عمر بھر رہا۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد آپؐ کا وہ معمول ہے جو مدینہ طیبہ میں رہا، کیوں کہ رمضان کے روزوں کا حکم مدینہ طیبہ میں آیا تھا۔ دوسرے یہ کہ مکہ میں اُس وقت تک سرے سے کوئی مسجد ہی نہ تھی اور مسجد حرام (خانہ کعبہ) میں اعتکاف کرنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔
اسی لیے اس سے مراد یہی ہے کہ قیام مدینہ طیبہ میں آخر وقت تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول رہا کہ آپؐ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ (کتاب الصوم، جولائی 1980ء۔ ص 267،268)
اعتکاف کا فقہی حکم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سال اپنے زمانۂ قیام مدینہ میں اعتکاف نہیں کیا جس سے اس بات کی دلیل ملتی ہے کہ اعتکاف کرنا فرض اور واجب نہیں ہے۔ اگر فرض اور واجب ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک سال بھی اعتکاف نہ چھوڑتے۔ اگرچہ اعتکاف ایک بہت بڑی نیکی ہے اور ایک ایسی سنت ہے جس پر عمل کیا جانا چاہیے (اور آپؐ برابر سالہا سال اسی پر عمل پیرا رہے) لیکن ایک سال آپؐ نے اعتکاف نہیں فرمایا تاکہ فرض و واجب یا سنت میں فرق واضح ہوجائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کی بنا پر فقہا کے درمیان اعتکاف کی نوعیت میں اختلاف ہوا ہے۔ بعض اس کو واجب قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اعتکاف کیا ہے۔
اگر ایک سال نہیں کیا تو دوسرے سال آپؐ نے دس دن مزید اعتکاف میں بیٹھ کر اس کی قضا ادا کی۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سنت ہے اور سنت مؤکدہ ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مستحب ہے اور ایسا مستحب کہ اس پر عمل کیا جانا چاہیے۔ اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جو مختلف عمل ہیں، فقہا نے یہ آرا ان کو دیکھ کر اختیار کی ہیں اور سب اپنی اپنی جگہ وزن رکھتی ہیں۔
(کتاب الصوم، نومبر2000ء۔ ص 288،289)
معتکف میں کب داخل ہونا چاہیے
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تھے تو فجر کی نماز پڑھ کر اپنے معتکف (اعتکاف کی جگہ) میں داخل ہوجاتے تھے۔ (ابودائود، ابن ماجہ)
معتکف سے مراد وہ جگہ ہے جو آدمی مسجد میں اپنے اعتکاف کے لیے بنالے۔ مسجد میں ایک پردہ سا لٹکا کر اپنے لیے خلوت پیدا کرلی جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کر اپنے معتکف میں داخل ہوجاتے تھے۔
امام اوزاعیؒ اور امام ثوریؒ وغیرہ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ اعتکاف کی ابتدا فجر کے وقت سے ہوتی ہے۔ بعض دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف کی ابتدا مغرب کے وقت سے ہوتی ہے، یعنی اگر 21 تاریخ سے اعتکاف میں بیٹھنا چاہے تو وہ 20 تاریخ کو مغرب کی نماز کے بعد اعتکاف میں بیٹھ جائے گا۔ اَئمہ اربعہ اسی بات کے قائل ہیں اور وہ اپنی دلیل دوسری احادیث سے لاتے ہیں۔ لیکن جو فقہا اسی بات کے قائل ہیں کہ اعتکاف کا وقت 20 تاریخ کی فجر سے شروع ہوتا ہے وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔
(کتاب الصوم، نومبر2000ء، ص 290۔291)
《اعتکاف کیا ہے》
اِعْتَکَفَ عربی زبان میں کسی مکان میں بند ہونے کو کہتے ہیں۔(مصباح اللغات ص ۵۷۰)
اور شریعت کی اصطلاح میں اعتکاف کہتے ہیں: “مسجد میں ٹھہر نا روزے اور اعتکاف کی نیت کے ساتھ ” (ہدایہ۱/۲۱۱)
《اعتکاف کی قسمیں》
اعتکا ف کی تین قسمیں ہیں۔
۱۔ واجب اعتکا ف
۲۔ سنّت مؤ کدہ اعتکا ف
۳۔ مستحب اور نفل اعتکا ف
۱۔ واجب اعتکا ف
اگر کسی نے اعتکا ف کی نذر مانی تو وہ اعتکا ف واجب ہو گیا۔
اب نذر کی دو قسمیں ہیں۔
۱۔ نذر مطلق: مثلاً اس طرح نذر کرے کہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے دس دن یا سات دن ۔۔۔۔ اعتکاف کروں گا۔
۲۔ نذر معلّق: کوئی یہ شرط لگائے کہ اگر میر ا فلاں کام ہو گیا تو میں اللہ تعالیٰ کے لئے دس دن ۔۔۔۔۔ اعتکاف کروں گا۔
تو اب نذر کی دونوں صورتوں میں اعتکاف واجب ہو گیا ۔ اب اس اعتکاف کے ساتھ روزہ بھی لازم ہو گیا اگرچہ یہ نیت کرے کہ روزہ نہ رکھوں گا اسی وجہ سے فقہا ء نے مسئلہ لکھا ہے کہ:
کوئی شخص رات کے اعتکاف کی نیت کرے تو وہ لغو سمجھی جائے گی کیونکہ رات روزہ کا محل نہیں ہاں اگر رات دن دونوں کی نیت کرے یا صرف دن کی نیت کرے تو پھر رات ضمناً داخل ہو جائے گی اور رات کو بھی اعتکاف کرنا ضروری ہو گا۔
۲۔ سنّت مؤکدہ اعتکاف
رمضان کے آخری دس دن کا اعتکا ف سنّت مؤکدہ علی الکفایہ ہے یعنی محلہ یا بستی میں بعض لوگوں کے کر لینے سے سب کے ذمہ سے ادا ہو جاتا ہے اور اگر کوئی بھی نہ کرے تو سب گناہگار ہوں گے۔
۳۔ مستحب اور نفل اعتکاف
مستحب اور نفل اعتکاف کے لئے کوئی مقدار اور وقت متعین نہیں ۔تھوڑی دیر کے لئے بھی نفل اعتکاف ہو سکتا ہے جب مسجد میں داخل ہو ساتھ ساتھ اعتکاف کی نیت بھی کر لے تو جب تک مسجد میں رہے گا اعتکاف کا ثواب بھی ملتا رہے گا۔
نیت دل میں ہوتی ہے۔ دل میں یہ عزم کر لے کہ جب تک میں مسجد کے اندر ہو ں اعتکاف کی نیت کرتا ہوں زبا ن سے نیت کرنا فرض اور ضروری نہیں اصل نیت دل کے ارادے کا نام ہے ۔ ہاں زبان سے بھی کہہ لے تو بہتر ہے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے اس طرح داخل ہو کہ دایاں پاؤں پہلے مسجد میں رکھے اور دعا پڑھے۔
بِسْمِ اللّٰہِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ اَللّٰہُمَّ افْتَحْ لِیْ ٓ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ
(پیارے نبی ﷺ کی پیارے سنتیں ص۵)
اس کے ساتھ ساتھ اعتکاف کی بھی دعا پڑھ لے۔
نَوَیْتُ الْاِعْتِکَافَ مَا دُمْتُِ فیْ ھٰذَا الْمَسْجِدِ
اعتکاف کے فضائل》》
(۱) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا جو ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے اعتکاف کرے گا۔ اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔
(کنز العمال ۸/۲۴۴)
(۲) حضرت ابن عباسؓ نے فر مایا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اعتکاف کرنے والا ایک تو تمام گناہوں سے محفوظ رہتا ہے دوسرے اس کے لئے وہ تمام نیکی کرنے والے کی نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں جسے وہ اعتکاف کی وجہ سے نہیں کر سکتا۔ (کنز العمال ۸/۲۴۴)
(۳) حضرت حسین بن علیؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو رمضان کے کسی ایک عشرہ کا اعتکاف کرے گا گویا اس نے دو حج اور دو عمرے کئے۔
(کنز العمال ۸/۲۴۳)
(۴) حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اس قبر والے (حضور ﷺ) سے سنا کہ جو شخص اپنے بھائی کے کسی کام میں چلے اور کوشش کرے اس کے لئے یہ دس برس کے اعتکاف سے افضل ہے اور جو شخص ایک دن کا اعتکاف بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں آڑ فر ما دیتے ہیں جنکی مسافت آسمان اور زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ ہے۔ (کنز العمال ۸/۲۴۴)
(۵) حضرت عائشہؓ اور حضرت انسؓ روایت فرماتے ہیں ۔ کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے دودھ دوہنے کی مقدار بھی (نفلی) اعتکاف کیا اس نے ایک جان (غلام) کو آزاد کیا۔
(۶) ایک روایت میں ہے کہ جو شخص مغرب سے عشاء تک مسجد جماعت میں اعتکاف کرے اور سوائے نماز کے اور تلاوت قرآن کے اور گفتگو نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں محل بنا دیں گے۔ ( شمائل کبرٰی ۸/۱۹۴)
(۷) حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ کچھ لوگ مسجد کے کھونٹے (میخیں) ہوتے ہیں۔ ( کہ ہر وقت مسجد میں بیٹھے عبادت میں مصروف ہوتے ہیں) ایسے لوگوں کے فرشتے ہم نشین ہوتے ہیں اگر یہ مسجد سے چلے جاتے ہیں۔ تو فرشتے انکو تلاش کرتے ہیں اگر یہ بیمار ہوتے ہیں تو فرشتے انکی بیمار پرسی کرتے ہیں اور اگر انکو کوئی ضرورت پیش ہوتی ہے تو یہ فرشتے انکی مدد کرتے ہیں۔( شمائل کبرٰی ۸/۱۹۵)
(۸) حضرت عطاء خراسانی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں۔ کہ معتکف کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اللہ کے در پر آ پڑا ہو اور یہ کہہ رہا ہو کہ یا اللہ! جب تک آپ میری مغفرت نہیں کریں گے میں یہاں سے لوٹ کر نہیں جاؤں گا۔ (بدائع الصنائع ۲/۲۷۳)
(۹) حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص فساد کے زمانہ میں میری ایک سنت پر عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو سو (100) شہیدوں کا اجر عطا فرمائیں گے۔ ملّا علی قاری رحمۃاللہ علیہ نے مرقات میں لکھا ہے کہ فساد زمانہ سے مراد وہ زمانہ ہے کہ جب بدعات، جہالت اور نافرمانی غالب ہو اور اعتکاف بھی حضور ﷺ کی دائمی سنت ہے لہٰذا جو شخص اس پر عمل کریگا انشاء اللہ اس کو یہ مذکورہ ثواب حاصل ہوگا۔
حضور ﷺ کا اعتکاف》》
آپ ﷺ نے عشرہ اُولیٰ کا بھی اعتکاف کیا
حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے پہلے عشرہ کا اعتکاف فرمایا پھر دوسرے کا اس کے بعد تیسرے عشرہ کا بھی اعتکاف کیا۔ (شمائل کبرٰی ۸/۱۶۸)
آپ ﷺ نے بیس دن کا بھی اعتکاف کیا
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ ہر رمضان میں ایک عشرہ کا اعتکاف کیا کرتے تھے اور جس سال آپ ﷺ کی وفات ہوئی اس سال آپ ﷺ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ (بخاری ۱/۲۷۴)
آپ ﷺ نے پورے ماہِ رمضان کا بھی اعتکاف کیا
حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے رمضان المبارک کے پہلے عشرہ کابھی اعتکاف فرمایا پھر ترکی خیمہ سے جس میں اعتکا ف فر مارہے تھے۔ سر باہر نکال کر ارشاد فرمایا۔ میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف شب قدر کی تلاش میں اور اس کے اہتمام کی وجہ سے کیا تھا پھر اسی وجہ سے دوسرے عشرہ میں بھی کیا پھر مجھے کسی بتانے والے (فرشتے) نے بتایا کہ وہ رات اخیر عشرہ میں ہے
۔ لہٰذاجو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کر رہے ہیں وہ اخیر عشرہ میں بھی اعتکاف کریں میں نے اپنے آپ کو اس رات کی صبح میں کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا۔لہٰذا اب اسے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
راوی کہتے ہیں کہ اس رات بارش ہوئی اور مسجد (نبوی)چھپر کی تھی وہ ٹپکی اور میں نے اپنی آنکھوں سے حضور ﷺ کی مبارک پیشانی میں کیچڑ کا اثر اکیس (۲۱) کی صبح کو دیکھا۔ (مشکوٰۃ ص ۱۸۲)
اگر کسی سال آپ ﷺ اعتکاف نہ کر سکتے تو
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ مقیم ہوتے تو رمضان کے عشرہ اخیرہ کا ضرور اعتکاف فرماتے۔ اگر مسافر ہوتے تو آئندہ سال بیس (۲۰) دن کا اعتکاف فرماتے۔
فائدہ: حالت اقامت یعنی جب مدینہ منورہ میں قیام فرما ہوتے تب تو اعتکاف کبھی ترک ہی نہ فرماتے ہاں اگر سفر میں ہوتے ، جیسا کہ آپ ﷺ نے فتح مکہ کے موقعہ پر رمضان المبارک میں سفر کیا تو اس صورت میں آپ ﷺ کا اعتکاف چھوٹ جاتا تو آئندہ اسکی تلافی فرماتے اور بیس (۲۰) دن کا اعتکاف فرماتے۔ (شمائل کبرٰی ۸/۱۷۰)
ازواج مطہرات کا اعتکاف کرنا》》
ایک موقعہ پر حضرت عائشہؓ نے اعتکاف کی اجازت چاہی کہ میں بھی اعتکاف کروں چنانچہ ان کو اجازت مل گئی ان کے لئے مسجد (نبوی) میں ایک قبہ بنا دیا گیا۔ حفصہؓ نے سنا تو (انھوں نے بھی اعتکاف کا ارادہ کیا) ان کے لئے بھی قبہ بنا دیا گیا۔ حضرت زینبؓ نے ارادہ کیا تو ان کے لئے دوسرا قبہ بنا دیا گیا۔ (بخاری ۱/۲۷۳)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ رمضان کے اخیر عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ کی وفات ہو گئی۔ اس کے بعد آپ ﷺ کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔ (بخاری ۱/۲۷۱)
فائدہ: حضور ﷺ اور ابو بکرؓ کے اور عمرؓ کے دور خلافت کی ابتداء میں عورتیں بھی مسجد میں آ کر نماز پڑھتی تھیں بعد میں عمرؓ نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیا۔ اس پر کچھ عورتیں شکایت لیکر حضرت عائشہؓ کے پاس گئیں۔ کہ ہم حضور ﷺ کے زمانہ میں مسجد میں نماز پڑھتی تھیں تو عمرؓ کون ہوتے ہیں ہمیں روکنے والے۔
اس پر حضرت عائشہؓ نے جواب دیا کہ اگر آج حضور ﷺ زندہ ہوتے تو وہ بھی عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے منع فرماتے۔تو حضور ﷺ کے زمانہ میں ازواج مطہرات بھی مسجد نبوی میں آپﷺ کے ساتھ اعتکاف کرتی تھیں۔ اور ان کے لئے الگ الگ خیمے مسجد میں لگا دیے جاتے تھے۔آج بھی عورتوں کے لئے بھی سنت ہے کہ وہ اعتکاف کریں مگر ان کے اعتکاف کی جگہ گھر کی مسجد ہے۔
گھر میں مسجد بنانا مستحب ہے》》
گھر کی مسجد سے مراد وہ جگہ ہے جہاں گھر میں عورت نماز پڑھتی ہے۔ اور فقہاء نے لکھا ہے کہ یہ مستحب ہے کہ گھر میں ایک کمرہ مسجد بنا دیا جائے اس کو عبادت، ذکر و تلاوت ، اعتکاف کے لئے خاص کردیا جائے۔عورت نماز وہاں پڑھے اور مرد بھی سنت اور نوافل گھر میں اس جگہ ادا کریں تا کہ نماز کی برکت گھروں کو بھی حاصل ہو۔ مگر گھر کے کمرے کو مسجد بنا دینے سے وہ شرعی مسجد نہیں بن جاتی۔ اس کو جب چاہیں تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔
اگر گھر میں کوئی جگہ مسجد نہیں بنائی تو عورت کوئی بھی جگہ گھر میں اعتکاف کے لئے مخصوص کر کے وہاں اعتکاف کرے۔ اس کو اتنا ہی ثوا ب ہو گا جیسا کہ مردوں کو مسجد میں اعتکاف کرنے کا ثواب ہوتا ہے۔
اعتکاف کی شرائط 》》
۱۔ جس مسجد میں اعتکاف کیا جائے اس میں پانچوں وقت نماز باجماعت ہوتی ہو۔اورمولانارشید احمد لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جماعت شرط نہیں۔بلکہ جس مسجد میں دو، تین وقت بھی نماز ہوتی ہے وہاں بھی اعتکاف جائز ہے۔
(احسن الفتاوٰی ۴/۵۱۷)
۲۔ اعتکاف کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنا۔ اگر ارادے کے بغیر ٹھہرا تو اعتکاف نہیں ہوگا۔
۳۔ عورت کا حیض و نفاس سے پاک ہونا اور مرد کا حالتِ جنابت سے پاک ہونا۔
۴۔ بالغ ہونا یا مرد ہونا اعتکاف کے لئے شرط نہیں ، نابالغ مگر سمجھدار اور عورت کا اعتکاف بھی درست ہے۔
(مسائل رفعت قاسمی، مسائل اعتکاف ص ۸)
اعتکاف کرنے کا طریقہ
جس کا اعتکاف کرنے کا ارادہ ہو وہ رمضان کی بیس (۲۰) تاریخ کا سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے اپنی ضروریات ،بستر ، کپڑوں وغیرہ کے ساتھ مسجد میں آ جائے اگر بیس تاریخ کا سورج غروب ہونے کے بعد کوئی آیا تو اس کا سنت اعتکاف ادا نہ ہو گا بلکہ وہ نفلی اعتکاف ہو گا۔
عورت اگر اعتکاف کرتی ہے تو وہ بھی بیس تاریخ کا سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے اعتکاف کی جگہ میں چلی جائے۔
- 《عورتو ں کے لئے خاص ہدایت》
عوررت اگر اعتکاف کرتی ہے تو گھر کی مسجد میں کرے۔ یعنی اس جگہ جس کو گھر میں عبادت کے لئے خاص کیا گیا ہے۔ اگر کسی جگہ کو گھر میں عبادت کے لئے خاص نہیں کیا گیا تو پھر کسی جگہ بھی اعتکا ف کر سکتی ہے۔مگر بہتر یہ کہ وہ پورے کمرے کو اعتکاف کے لئے خاص کرے۔اگر کمرے کا ایک حصہ اعتکاف کے لئے خاص کیا تو اس میں مشقت ہو گی۔
کیونکہ معتکف(اعتکاف کرنے والا ) اگر بغیر کسی شرعی اور طبعی حاجت کے ایک سیکنڈ کے لئے بھی اعتکاف کی جگہ سے نکلا تو اس کا اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے۔ اگر پورا کمرہ اعتکاف کے لئے خاص کر لے تو اس میں آسانی ہو گی۔ پو رے کمرے میں جہا ں چا ہے ذکر و عبادت ، تلاوت وغیرہ کر سکے گی۔
مگر عورت کے اعتکاف کے لئے شوہر سے اجازت لینا ضروی ہے ۔ اور اسی طرح عورت کا حیض و نفاس سے پاک ہونا بھی ضروری ہے البتہ استحاضہ کی حالت میں ہو تو عورت اعتکاف کر سکتی ہے ۔
اعتکاف کے لئے الگ کپڑا باندھنا ضروری نہیں البتہ بہتر ہے اور سنت سے ثابت بھی ہے۔ کہ اس میں یکسوئی نصیب ہوتی ہے۔ اور اپنی مرضی سے آدمی اعمال اور عبادات کر سکتا ہے۔
اعتکاف کا رکن اور فر ض مسجد کے اندر ٹھہرنا ہے اس لئے وہی شخص اعتکاف میں بیٹھے جو مسجد میں بیٹھنے کی پابندی کر سکے اگر بغیر شرعی اور طبعی حاجت کے ایک سیکنڈ بھی مسجد سے باہر نکلا۔تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اعتکاف کرنے والے نوجوان لڑکے ہوتے ہیں۔وہ اپنی مرضی سے مسجد میں آتے ہیں اور اپنی مرضی سے مسجد سے باہر نکلتے ہیں اور وضو کرنے کے بعد بھی دیر تک دوستوں سے گپ شپ لگا تے رہتے ہیں۔حالانکہ وضو سے فارغ ہونے کے بعد ایک سیکنڈ بھی ٹھہرا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
اس سے معلوم ہو ا کہ آج کل مسجدوں میں جو اعتکاف ہو رہاہے ان میں اکثر لوگو ں کا اعتکاف نہیں ہوتا۔اسلئے ضروری ہے کہ اعتکاف میں ان لوگوں کو بٹھا یا جائے جو مسجد میں ٹھہرنے کی پابندی کر سکیں۔
عورت گھر میں اگر اعتکاف بیٹھی ہے تو وہ بھی اس کی پابندی کرے کہ بغیر شرعی اور طبعی ضرورت کے اعتکاف کے کمرے اور اعتکاف کی جگہ سے نہ نکلے۔ اگر نکلی خواہ ایک سیکنڈ کے لئے ہی ہو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔
اعتکاف اصل میں اسی پابندی کا نام ہے۔ چوبیس گھنٹے عبادت کرنا کوئی ضروری نہیں، جتنی ہمت ہو عبادت کرے ،پھر آرام کر لے مگر یہ ضروری ہے کہ اعتکاف کے دوران فضول باتوں ، غیبت ، چغلی اور جھوٹ وغیرہ سے پرہیز کرے جتنا ہو سکے اپنا وقت نماز، تلاوت، ذکر و عبادت ، دینی کتابوں کے مطالعے اور دعاؤں میں گزارے
۔لوگوں سے زیادہ اختلاط نہ کرے جب دوست اور ساتھی ساتھ بیٹھیں گے تو شروع میں تو جائز باتیں ہوں گی۔ مگر آہستہ آہستہ غیبت اور لایعنی باتوں میں مشغول ہو جائیں گے اور آج کل ویسے بھی ہماری مجالس غیبت اور فضول باتوں سے خالی نہیں ہوتیں اس لئے اگر کوئی دینی مجلس ہو ،سبق کا سیکھنا سکھانا ہو تو وہ بہت بہتر ہے ورنہ تنہا ئی اختیار کر کے اپنا وقت ذکر و عبادت میں خرچ کیا جائے۔
اعتکاف کرنے والے کو تکبیر تحریمہ کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔اس کے علاوہ تہجد، اشراق، چاشت، اوابین، صلوٰۃ التسبیح، تحیۃ الوضو اور تحیۃ المسجد کا بھی خوب اہتمام کرے۔
جس شخص کے ذمیّ گزشتہ نمازیں قضا باقی ہیں وہ زیادہ نوافل پڑھنے کے بجائے اپنا وقت قضا نمازوں میں گزارے۔ تاکہ موت سے پہلے پہلے فرائض ، واجبات ذمےّ سے ساقط ہو جائیں۔
اخیر عشرہ سارے کا سارا ہی بہت قیمتی ہے مگر اس کی طاق راتوں کی فضیلت بہت زیادہ ہے لہٰذا طاق راتوں کو زیادہ سے زیادہ زندہ کرنے کی کوشش کرے۔ان میں عبادات اور دعا میں خوب کوشش کرے اور کثرت سے شب قدر کی یہ دعا پڑھتا رہے۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ:
“اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے مجھے معاف فرما لے”
موقعہ ہو تو مسجد کی خدمت اور صفائی کرنے کو سعادت سمجھے مگر مسجد سے باہر قدم نہ رکھے اگر ایک سیکنڈ کے لئے بھی باہر نکل گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا اس لئے اندر اندر مسجد کی خدمت کر سکتا ہے۔
کوشش کرے کہ اس کے کسی عمل سے کسی نمازی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ مثلاً اگر کوئی نمازی نماز پڑھ رہا ہو تو اونچی آواز میں دعا یا تلاوت نہ کرے۔ اپنی قیمتی اشیاء کو سامنے نہ چھوڑے۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اعتکاف کرنے والے موبائل فون پر لوگوں سے مسجد کے اندر گپ شپ لگاتے رہتے ہیں یہ مسجد کے اندر گناہ ہے۔اسی طرح مسجد کے اندر موبائل فون پر گیم (Game) کھیلنا بھی گناہ ہے۔مسجد صر ف اللہ کی عبادت کے لئے ہے۔
البتہ سخت ضرورت ہو، کو ئی چیز منگوانی ہو ، گھر کے لئے کوئی چیز خریدنی ہو ،تو موبائل فون پر بتا سکتے ہیں۔اسی طرح کوئی عالمِ دین مسجد میں بیٹھ کر موبائل فون پر مسائل بتاتا ہے تو وہ بھی جائز ہے۔ مگر دنیاوی باتیں کرنا گناہ ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ مسجد میں بیٹھ کر دنیا وی باتیں کرنے سے نیکیاں اس طرح مٹ جاتی ہیں۔ جس طرح آگ خشک لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔
اعتکاف کرنے والوں کو چاہیے کہ سونے کے لئے ایسے وقت کا انتخاب کریں کہ جو نمازیوں کے مسجد میں آنے کا وقت نہ ہو۔ ورنہ لوگ یہ بد گمانی کریں گے کہ اعتکاف والے ہر وقت مسجد میں سوئے رہتے ہیں۔ لہٰذا لوگوں کو یہ موقع بھی نہ دینا چائیے۔ مسجد میں سوئیں تو موٹا کپڑا بچھا کر سوئیں اور اپنی قیمتی اشیاء مثلاً موبائل فون ، پیسوں کی خود حفاظت کر کے سوئیں تا کہ آپکی وجہ سے کو ئی دوسرا شخص گناہگار نہ ہو جائے۔
مسجد میں اگر اما م صاحب عالمِ دین ہو ں تو اس کو اپنی سعادت سمجھیں۔اور ان سے روزانہ تھوڑا وقت لے کر دین سیکھیں۔تاکہ ان دس دنوں میں کم از کم نماز ، کلمے وغیرہ تو ٹھیک ہو جائیں۔ اور اگر دین دار، سمجھ دار ساتھی ہوں تو جماعت کی تر تیب بنا کر روزانہ اجتماعی تعلیم فضائل اعمال ، فضائل صدقات اور حیات صحابہ سے ہو اور اس کے بعد کھانے پینے ، سونے جاگنے کی سنّتوں کے مذاکرے کریں
مسجد کی حد》》
مسجد وہ حصہ ہے جسے بانیِ مسجد نے مسجد قرار دیکر وقف کیا ہو۔لہٰذا بعض مقامات کو ہم تو مسجد کہتے ہیں مگر وہ شرعاً مسجد نہیں ہو تے ۔ مثلاً وضو خانہ، غسل خانہ، استنجا خانہ ، امام کا حجرہ وغیر ہ ان پر مسجد کے احکام جاری نہ ہو ں گے۔ لہٰذا اگر معتکِف ان جگہوں میں بغیر کسی شرعی حاجت کے چلا گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
عام طور پر مسجد کی سیڑھیاں بھی مسجد سے باہر ہوتی ہیں ۔ جن کے ذریعے اوپر منزل پر جاتے ہیں لہٰذاان سیڑھیوں پر بھی بغیر شرعی حاجت کے گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ ہاں وہ سیڑھیا ں اگر مسجد کے اندر ہو ں تو پھر ان سیڑھیوں پر جانا اور ان کے ذریعے اوپر والی منزل پر بھی جا ناجائز ہے۔
بعض مساجد میں امام کا حجرہ اور بچوں کے پڑھنے کی جگہ بھی مسجد سے باہر ہوتی ہے۔ وہا ں جانے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اسی طرح بعض مساجد میں سامان رکھنے کے سٹور اور گودام بھی مسجد سے باہر ہوتے ہیں وہاں جانے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
بعض مساجد کے صحن میں جو حوض بنا ہوتا ہے وہ بھی مسجد سے خارج ہوتا ہے
وہاں جانے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔اسی طرح بعض مساجد میں کُلّی وغیرہ کرنے کے لئے جوتوں کی جگہوں پر واش بیسن لگے ہوتے ہیں ۔ وہ مسجد سے عموماً باہر ہوتے ہیں ۔ وہاں جاکر کُلّی کرنے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
اسی طرح معتکف نے افطاری کی، کھانا کھایا، تو صرف ہاتھ دھونے اور کُلّی کرنے کے لیے وضو خانے نہیں جا سکتا۔ گیا تو اعتکاف ٹو ٹ جائے گا۔ ہا ں وضو کرنے جائے تو ساتھ میں ہاتھ بھی دہل جائیں گے اور کُلّی بھی ہو جائے گی ۔
معتکف کو پیش آنے والی حاجتیں》》
ان حاجتوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔
۱۔ حاجت شرعیہ
۲۔ حاجت طبعیہ
۳۔ حاجت ضروریہ
۱۔ حاجت شرعیہ
جن امور کی ادائیگی شرعاً فرض و واجب ہو اور اعتکاف کی جگہ میں معتکِف انھیں ادا نہ کر سکتا ہو ان کو حاجتِ شرعیہ کہتے ہیں مثلاً جمعہ کی نماز۔
مسئلہ: معتکِف کی مسجد میں جمعہ کی نماز نہ ہوتی ہو تو اس کو جامع مسجد میں اتنی دیر پہلے جانا چاہےۂ کہ خطبہ شروع ہو نے سے پہلے وہا ں دو رکعت نفل تحیۃ المسجد اور چار سنت اطمینان سے پڑھ لے پھر جمعہ کے فر ضوں کے بعد چھ رکعت سنت اور نفل پڑھ کر اپنی اعتکاف والی مسجد آ جائے۔
مسئلہ: جمعہ کی سنتیں پڑھ کر اگر جامع مسجد میں کچھ دیر ٹھہر گیا تو جائز ہے لیکن بہتر نہیں۔ اسی طرح اگر جامع مسجد میں جانے کے بعد بقیہ اعتکاف وہیں پورا کر لے تو یہ جائز تو ہے مگر بہتر نہیں بلکہ مکروہ ہے۔ (مسائل اعتکاف ص ۶)
معتکف کے لئے اذان》》
۱۔ اگر کوئی مؤذن اعتکاف میں بیٹھا ہو اور اسے اذان دینے کے لئے مسجد سے باہر جانا پڑے تو اس کے لئے بھی باہر نکلنا جائز ہے۔ مگر اذان کے بعد نہ ٹھہرے۔
۲۔ اگر کوئی مؤذن باقاعدہ مؤذن تو نہیں ہے لیکن کسی وقت کی اذان دینا چاہتا ہے تو اس کے لئے بھی اذان کی غرض سے باہر نکلنا جائز ہے۔
۳۔ مسجد کے مینارہ کا دروازہ اگر مسجد کے اندر ہو تو معتکِف کے لئے مینارہ پر چڑھنا مطلقاً جائز ہے کیونکہ وہ مسجد ہی کا حصہ ہے البتہ اگر دروازہ باہر ہو تو اذان کی ضرورت کے سوا اس پر چڑھنا معتکف کے لئے جائز نہیں۔ (احکامِ اعتکاف ص ۴۱)
۲۔ حاجتِ طبعیہ
ایسے امور جن کے کرنے کے لئے انسان مجبور ہے اور وہ مسجد میں نہیں ہو سکتے ان کو حاجت طبعیہ کہتے ہیں جیسے پیشاب ، پاخانہ ، استنجاء، غسلِ جنابت وغیرہ ۔
مسئلہ: طبعی ضرورت کے لئے جب معتکف مسجد سے باہر چلا جائے تو حتی الامکان ایسی جگہ رفع حاجت کرے جو قریب ہے یا خود معتکِف کا گھر دور ہے اورکسی بے تکلف دوست کا گھر قریب ہے یا خود معتکفِ کے دو گھر ہیں ایک قریب دوسرا دور ، یا مسجد کے قریب سرکاری بیت الخلاء ہے ،یا مسجد کے قریب بیت الخلاء بنا ہوا ہے تو ان میں سے جو بیت الخلاء بھی مسجد سے قریب ہو اس میں رفع حاجت کرنی ہو گی البتہ قریب والی جگہ سے طبیعت مانوس نہ ہو، جس کی وجہ سے رفع حاجت پوری نہ ہوتی ہو ، خوا ہ بتقاضائے طبیعت یا دوسرے آدمی کو تکلیف ہوتی ہو، پردہ کرانا پڑتا ہے یا کوئی اور دشواری ہے تو دور جگہ جہاں پر دشواری نہ ہو چلاجانا جائز ہے۔
مسئلہ:معتکف کو حاجتِ طبعیہ سے فارغ ہوتے ہی مسجد میں آ جانا چاہیے۔ بلا وجہ گھر میں رہنا جائز نہیں۔
مسئلہ:معتکف کی ریح (ہوا) خارج ہونے لگے اگر ممکن ہو سکے تو اس کو مسجد سے باہر جا کر خارج کرے۔ اگر بلا اختیار مسجد ہی میں خارج ہو جائے تو بھی مضائقہ نہیں معذور ہے۔
مسئلہ:جب معتکف حاجت شرعیہ اور حاجت طبعیہ کے لئے جائے تو اپنی عادت کے مطابق چال سے چلے، جلدی چلنا ضروری نہیں ، بلکہ ذرا ہلکی آہستہ چال سے چلنا اس کے لئے بہتر ہے تا کہ چلتے ہوئے سلام کرنے اور جواب دینے میں آسانی ہو ۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جس کو اس کا معتکف ہونا معلوم نہیں وہ اس کو رُکانا چاہتا ہے، یا خود اس کو جواب دینا ہوتا ہے تو ایسی صورت میں ٹھہرے بغیر یہ کام ہو سکتے ہیں تیز چال میں ٹھہر جانے یا کسی کے روک لینے کا اندیشہ ہے اور ایک منٹ بھی ٹھہر جائے تو اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے۔ اس لئے ہلکی چال بہتر ہے۔ ورنہ ہر چال چلنا جائز ہے۔
مسئلہ:وضو کرنے کی ایک جگہ قریب ہے اور دوسری جگہ ذرا دور ہے تو قریب والی جگہ بہتر ہے اگر کوئی دشواری ہو تو دور بھی جا سکتا ہے اسی طرح پیشاب خانے، استنجاء خانے اور غسل خانے کا حکم ہے کہ جب تک قریب ترین جگہ پر ضرورت پوری ہوتی ہوتو بلا ضرورت دور نہ جائے۔ ( مسائلِ اعتکاف ص ۴۹)
مسئلہ:وضو کرنے کے بعد اگر کوئی شخص کسی سے بات کرنے کے لئے رکا یا موبائل فون پر بات کرنے لگا یا نسوار ڈالنے ، سگریٹ پینے کے لئے رکا تو ایک لمحہ کے لئے رکنے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
معتکف کا غسل》》
معتکف کو غسل جنابت کے لئے مسجد سے باہر جانا جائز ہے۔اور غسل جنابت کے سوا کسی اور غسل کے لئے مسجد سے نکلنا جائز نہیں۔جمعہ کے غسل یا ٹھنڈک کی غرض سے غسل کرنے کے لئے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں۔اس غرض سے مسجد سے باہر نکلے گا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ ( احکامِ اعتکاف ص ۳۹)
وضو کے بعد معتکف مسواک، منجن وغیر ہ کر سکتا ہے لیکن اگر صرف مسواک یا منجن کے لئے مسجد سے نکلا تو اعتکا ف ٹوٹ جائے گا۔ (شمائل کبرٰی ۸ /۲۰۰)
۳۔ حاجتِ ضروریہ
معتکف کو اچانک کوئی ایسی شدید ضرورت پیش آ جائے جس کی وجہ سے اسے اعتکاف کی جگہ چھوڑنا پڑ جائے تو ایسی باتوں کو حاجتِ ضروریہ کہتے ہیں۔
مثلاً مسجد گرنے لگے ۔ اور معتکف کو دب جانے کا خطرہ ہو جائے یا ظالم حاکم گرفتار کرنے آ جائے یا ایسی شہادت دینا ضروری ہو گیا ہو جو شرعاً معتکف کے ذمیّ واجب ہے کہ مدعی کا حق اسکی شہادت پر موقوف ہے دوسرا کوئی گواہ نہیں ہے اگر معتکف گواہی نہ دے تو مدعی کا حق فوت ہو جائے گا ۔ یا کوئی آدمی یا بچہ پانی میں ڈوب رہا ہے یا آگ میں گر پڑ ا ہے یا خطرہ ہے یا سخت بیمار ہو گیا یا گھر والوں میں سے کسی کی جان، مال ، آبرو کا خطرہ ہے یا جنازہ آ گیا ہے۔ اور جنازہ کی نماز کوئی بھی پڑھانے والا نہیں یا جہاد کا حکم ہو گیا، اور جہاد میں شریک ہونا فرض عین ہو گیا یا کسی نے زبردستی ہاتھ پکڑ کر مسجد سے نکال دیا یا جماعت کے نمازی سب چلے گے اب مسجد میں جماعت کا انتظام نہ رہا اس قسم کی سب حاجتیں حاجاتِ ضروریہ کہلاتی ہیں۔اکثر صورتوں میں اعتکاف ترک کرنا فرض اور واجب ہو جاتا ہے۔ اور اعتکاف چھوڑنے کا گناہ بھی نہیں ہوتا ۔ رہا اعتکاف چھوڑ دینا تو اس کی قضا کرنا ہو گی۔
اعتکاف کی قضا》》
جس دن میں اعتکاف ٹوٹا ہے صرف اسی دن کی قضا واجب ہو گی ۔ پورے دس دن کی قضا واجب نہیں۔
اس ایک دن کی قضا کا طریقہ یہ ہے کہ اگر اسی رمضان میں وقت باقی ہو تو اسی رمضان میں کسی دن غروب آفتاب سے اگلے دن غروب آفتاب تک قضا کی نیت سے اعتکاف کر لے اور اگر اس رمضان میں وقت باقی نہ ہو یا کسی وجہ سے اس میں اعتکاف ممکن نہ ہو تو رمضان کے علاوہ کسی بھی دن روزہ رکھ کر ایک دن کیلئے اعتکاف کیا جا سکتاہے۔
(احکامِ اعتکاف ص ۴۶)
اعتکاف کی قضا میں کچھ تفصیل ہے کہ:
اگر اعتکاف دن میں ٹوٹا ہو تو صرف دن دن کی قضا واجب ہو گی یعنی قضا کے لئے صبح صادق سے پہلے داخل ہو ، روزہ رکھے، اورا سی روز شام کو غروبِ آفتاب کے وقت نکل آئے۔
اور اگر اعتکاف رات کو ٹوٹا ہو تو رات اور دن دونوں کی قضا کرے یعنی قضا کے لئے شام کو غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد میں داخل ہو ، رات بھر وہاں رہے روزہ رکھے، اور اگلے دن غروبِ آفتاب کے بعد مسجد سے باہر نکلے۔(احکامِ اعتکاف ص ۴۷)
اعتکاف کی قضا کرنے میں کل اقوال تین ہیں۔
۱۔ اس کی قضا لازم نہیں کیونکہ یہ اعتکاف سنت ہے۔ اور سنت کی قضا نہیں ہوتی۔
۲۔ اس کی قضا لازم ہے پورے دس دن اعتکاف کرے گا۔کیونکہ اس نے اعتکاف کو شروع کر کے لازم کرلیا۔
۳۔ صرف اس دن کی قضا ہے جس دن اعتکاف ٹوٹا ۔ کیونکہ یہ اعتکاف سنت ہے اور ہر دن کا اعتکاف مستقل عبادت ہے۔ سنت شروع کرنے سے لازم ہوتے ہیں۔جس دن کا اعتکاف ٹوٹا وہ شروع کرنے سے لازم ہو گیا لہٰذا اس کی قضا لازم ہو گی۔ اور جو پہلے دن ہیں وہ ادا ہو گئے۔اور جو بعد والے دن ہیں۔ ان میں اعتکاف شروع نہیں کیا تو لازم بھی نہیں ہوا۔ مثلاً (24)رمضان کو اعتکاف ٹوٹا تو صرف (24) تاریخ کی قضا لازم ہے۔کیونکہ (23) تاریخ تک اعتکاف ہر دن مستقل عبادت ہے ۔ وہ ادا ہو گیا۔ (24) کے بعد شروع نہیں ہوا لہٰذا لازم بھی نہیں ہوا۔ تو صرف ایک دن کی قضا لازم ہے۔ راجح قول یہ تیسرا ہے۔ کہ صرف ایک دن کی قضا لازم ہے۔ (احسن الفتاوٰی ۴/۵۱۱)
اعتکاف کے مباحات 》》
بعض باتیں اعتکاف کی حالت میں مباح اور جائز ہیں ۔
ا۔ کھانا پینا
۲۔ سونا
۳۔ ضروری خریدو فروخت کرنا بشرطیکہ سودا (سامان)مسجد میں نہ لایا جائے اور خریدو فروخت ضروریاتِ زندگی کیلئے ہولیکن مسجد کو باقاعدہ تجارت گاہ بنانا جائز نہیں۔
۴۔ حجامت کرانابشرطیکہ بال مسجد میں نہ گریں ۔
۵۔ بات چیت کرنا لیکن فضول گوئی سے پرہیز ضروری ہے۔
۶۔ نکاح یا کوئی عقد کرنا۔
۷۔ کپڑے بدلنا، خوشبو لگانا، سر میں تیل لگانا۔
۸۔ مسجد میں کسی مریض کا معائنہ کرنا اور نسخہ لکھنا یا دوا بتا دینا۔
۹۔ قرآن کریم یا دینی علوم کی تعلیم دینا۔
۱۰۔ کپڑے دھونا اور کپڑے سینا البتہ کپڑے دہوتے وقت پانی مسجد سے باہر گر ے اور خود مسجد میں رہیں۔ یہی حکم برتن دہونے کا بھی ہے۔
(احکام اعتکاف ص ۴۸)
۱۱۔ ناخن کاٹنا، مونچھیں کاٹنا، خط بنانا جائز ہے لیکن بال ، ناخن وغیر ہ مسجد میں نہ گریں۔ (مسائلِ اعتکاف ص ۴۲)
۱۲۔ حسبِ ضرورت سامان مسجد میں رکھنا جائز ہے۔
۱۳۔ چارپائی بھی مسجد میں رکھ سکتاہے۔ (شمائل کبرٰی ۸/۲۰۱)
اعتکاف کے مکروہات》》
۱۔ بالکل خاموشی اختیار کرنا، کیونکہ شریعت میں بالکل خاموش رہنا کوئی عبادت نہیں ، اگر خاموشی کو عبادت سمجھ کر کرے گا تو بدعت کا گناہ ہو گا۔ البتہ اگر اس کو عبادت نہ سمجھے، لیکن گناہ سے اجتناب کی خاطر حتی الامکا ن خاموشی کا اہتمام کرے تو اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔
۲۔ فضول اور بلا ضرورت باتیں کرنا بھی مکروہ ہے۔ ضرورت کے مطابق تھوڑی بہت گفتگو تو جائز ہے، لیکن مسجد کو فضو ل گوئی کی جگہ بنانے سے پرہیز لازم ہے۔
۳۔ سامان تجارت مسجد میں لا کر بیچنا بھی مکروہ ہے۔
۴۔ اعتکاف کے لئے مسجد کی اتنی جگہ گھیر لینا جس سے دوسرے معتکفین یا نمازیوں کو تکلیف پہنچے (یہ مکروہ ہے)۔
۵۔ اجرت پر کتابت کرنا یا کپڑے سینا یا تعلیم دینا بھی معتکف کے لئے فقہاء نے مکروہ لکھا ہے۔ البتہ جو شخص اس کے بغیر ایام اعتکاف کی روزی بھی کما نہ سکتا ہو اس کیلئے بیع پر قیاس کر کے گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ ( احکامِ اعتکاف ص ۴۹)
اعتکاف کے ممنوعات》》
درج ذیل باتیں اعتکاف میں ممنوع اور حرام ہیں ۔
ا۔ بیوی سے تعلقات رکھنا، شہوت سے اس کو چھونا بھی حرام ہے۔
۲۔ بعض باتیں ویسے بھی حرام ہیں مگر مسجد میں اور اعتکاف کی حالت میں انکو کرنا اور بھی سخت حرام ہے۔
مثلاً غیبت کرنا، چغلی کرنا، لڑنااورلڑانا، جھوٹ بولنا اور جھوٹی قسمیں کھانا، بہتان لگانا، کسی مسلمان کو ناحق ایذا پہنچانا، کسی کے عیب تلاش کرنا ، کسی کو رسوا کرنا، تکبر اور غرور کی باتیں کرنا، ریا کاری کرناوغیرہ۔ (مسائلِ اعتکاف ص ۴۲)
اعتکاف کے مفسدات》》
یعنی اعتکاف کو فاسد کرنے والی چیزیں۔
بعض باتوں سے اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے۔
ا۔ معتکف اگر مسجد سے یا عورت اپنی اعتکاف کی جگہ سے حاجتِ شرعیہ اور حاجتِِ طبعیہ کے بغیر نکلے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
۲۔ اگر بھول کر نکل جائے تب بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
۳۔ کسی نے زبردستی باہر نکا ل دیا تب بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے مگر اس صورت میں گناہگار نہ ہو گا۔ بعد میں قضا کر لے۔
۴۔ اگر میت کے نہلانے، کفن دینے، جنازہ پڑھنے گیا تب بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ ( مسائلِ اعتکاف ص ۶۶)
۵۔ مریض کی عیادت کے لئے نکلا خواہ بیٹا، بیوی کیوں نہ ہو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔
۶۔ کسی کے بارے میں گواہی دینا ضروری تھا اس کے لئے مجبورًا نکلا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔
۷۔ اگر روزہ کسی وجہ سے فاسد ہو گیا تو اعتکاف بھی فاسد ہو جائے گا۔
۸۔ اپنی بیماری کے علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس گیا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔
۹۔ پا خانہ، پیشاب کے لئے نکلا فارغ ہونے کے بعد ٹھہر گیا ،رک کر کسی سے باتیں کرنے لگا تو اعتکاف فاسد ہو گیا۔
۱۰۔ بال اور حجامت بنوانے کے لئے نکلا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔
۱۱۔ جمعہ کے غسل کے لئے جو مستحب ہے مسجد سے باہر غسل خانہ میں جانے سے اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔
۱۲۔ منجن یا مسواک کرنے ( کلی کرنے) کے لئے نکلا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔
۱۳۔ بیڑی ، سگریٹ پینے (اسی طرح نسوار ڈالنے) کے لئے مسجد سے باہر نکلا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔ اور مسجد میں ان چیزوں کا استعمال جائز نہیں۔
۱۴۔ گاؤں میں جہاں جمعہ واجب نہیں اگر اس مسجد سے معتکف جمعہ پڑھنے کے لئے نکلا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔ (شمائلِ کبرٰی ۸/۲۰۰)
۱۵۔ اعتکاف کی حالت میں بیوی سے صحبت کی تو اس سے بھی اعتکاف فاسد ہو گیا۔
۱۶۔ بیوی سے صرف بوس و کنار بھی حالت اعتکاف میں ناجائز ہے۔ اگر اس سے اِنزال ہو گیا تو اعتکاف بھی ٹوٹ گیا۔
۱۷۔ کوئی شخص احاطۂ مسجد کے کسی حصے کو مسجد سمجھ کر چلا گیا (مثلاً امام کے کمرہ میں گیا حالانکہ وہ تو عام طور پر مسجد سے باہر ہوتا ہے اس نے اس کو مسجد کا حصہ سمجھا اور اندر چلا گیا ) حالانکہ در حقیقت وہ حصہ مسجد میں شامل نہیں تھا تو اس سے بھی اعتکاف فا سد ہو گیا۔
(احکامِ اعتکاف ص ۴۴)
۱۸۔ کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کے لئے مسجد سے نکلا تو اعتکاف فاسد ہو گیا۔
(احسن الفتاوٰی ۴/۵۱۰)
۱۹۔ اگر معتکف امام مسجد ہے اور نماز جنازہ پڑ ھانے کے لئے نکلا تو اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے۔
البتہ اگر ابتداء میں نماز جنازہ کے لئے نکلنے کی شرط رکھی جائے تو اس صورت میں نمازِ جنازہ کا پڑھنا یا پڑھانا مفسدِ اعتکاف نہیں لیکن بغیر شرط کے نمازِ جنازہ پڑھنے یا پڑھانے کے لیے نکلنا فسادِ اعتکاف کا ذریعہ ہے۔ (فتاوٰی حقانیہ ۴/۱۹۹)
(مگر اس صورت میں یہ نذر اور واجب اعتکاف ہو گا سنّت نہ ہو گا:مرتّب)
۲۰۔ عورت کو اگر اعتکاف کے دوران حیض (ماہواری) آ جائے تو اعتکاف ختم ہو جائے گا پاک ہونے کے بعد روزہ رکھ کر ایک دن کی اعتکاف کی قضا کر لے۔
(خیر الفتاوٰی ۴/۱۴۳)
۲۱۔ معتکف دوسری مسجد میں تراویح پڑھانے نہیں جا سکتا۔
مگر اعتکاف بیٹھتے وقت یوں نیت کر لے کہ ’’میں اللہ تعالیٰ کے لئے آخری عشرہ کے اعتکاف کی نذر مانتا ہوں البتہ تراویح میں قرآن سنانے کے لئے جایا کروں گا‘‘ پھر تراویح کے وقت کے بالکل قریب جائے اور فارغ ہوتے ہی اعتکاف والی مسجد میں آ جایا کرے راستہ میں آتے جاتے کسی جگہ کھڑا نہ ہو۔ (خیر الفتاوٰی۴/۱۴۱)
( مگر اس صورت میںیہ نذر اور واجب اعتکاف ہو گا سنّت نہ ہوگا:مرتّب)
۲۲۔ اگر وضو سے قبل وضو خانہ پر بیٹھ کر صابن سے ہا تھ منہ دھو ئے تو اس سے اعتکاف فا سد ہو جائے گا ۔
۲۳۔ اسی طر ح اگرو ضو کے بعد وضو خانہ پر کھڑ ے ہو کر رومال سے وضو کا پانی خشک کیا تو اعتکاف فا سد ہو جا ئے گا ۔ (احسن الفتا ویٰ ۴/۵۱۷)
۲۴۔ اگر عورت اعتکا ف میں ہے اور در س دینے کیلئے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جائے تو اعتکاف ٹو ٹ جائے گا۔
ہا ں اگر اعتکا ف بیٹھنے سے پہلے زبان سے نیت کی تصر یح کر لی جائے (کہ میں اللہ کیلئے اعتکا ف کی نیت کر تی ہوں بشر طیکہ میں دوران اعتکاف درس دینے کیلئے جاؤ ں گی تو جانا جائز ہے )۔ (خیر الفتاویٰ ۴/۱۳۴)
( مگراس صورت میں یہ نذر اعتکا ف ہو گا سنّت نہ ہو گا: مرتّب )
۲۵۔ جو مسجد کئی منزلہ ہو اس کی او پر منز ل میں اعتکا ف ہو سکتا ہے اور کسی اور ایک منز ل میں اعتکا ف کی غر ض سے بیٹھ جانے کے بعد اس کی دو سری منزل پر بھی معتکف جا سکتا ہے ، بشر طیکہ آنے جانے کا زینہ (سیٹر ھی ) مسجد کے اند ر ہی ہو ، حدود مسجد سے باہر نہ ہو ، اگر مسجد کی حدو د سے دو چا ر سیٹر ھیا ں بھی باہر ہو جاتی ہو ں تو بھی جائز نہیں ہے ۔
ہاں اگر زینہ مسجد سے باہر ہو کر جاتا ہو اوراوپر جانا ضروری ہو تو اس کی ایک صورت یہ ہے کہ اعتکاف میں بیٹھنے کے وقت جب اعتکاف کی نیت کرے اسی وقت نیت میں یہ شرط لگالے کہ میں فلاں زینہ سے اوپر جایا کروں گا تو یہ شرط کر لینے سے زینہ سے اوپر جانا جا ئز ہو جائے گا ) (مسائلِ اعتکاف ص۵۲)
(مگر یہ نذر اعتکاف ہو گا سنت نہ ہو گا:مرتّب)
۲۶۔اعتکا ف سے اگر بغیر شرعی وطبعی حاجت کے مسجد سے نکلا اور ایک پاؤں مسجد سے نکالا اور ایک پاؤں مسجد کے اندر ہے تو اعتکاف نہیں ٹوٹتا اگر دونوں پاؤں مسجد سے نکالے تو تب اعتکاف ٹوٹے گا ۔(فتاوٰی محمودیہ ۷/۲۹۷)
۲۷۔اگر مسجد میں پانی ٹھنڈا ہے اور سردی زیادہ ہے اور اگر پانی سے وضو کرنے کیلئے گھر جاتا ہے تو دیکھا جائے گا کہ :
اگر سرد پانی سے وضو کرنے میں زیادہ دقّت ہوتی ہے اورمرض لاحق ہونے کا یا مرض بڑھ جانے کا اندیشہ ہو تو جا سکتا ہے ۔(فتاوٰی محمودیہ ۷/۲۹۷)
اگر زیاد ہ مشقت نہیں مرض کا بھی اندیشہ نہیں پھر گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔
۲۸۔کوئی طالب علم اعتکاف میں بیٹھا تو علم حاصل کرنے مسجد سے باہر نہیں جا سکتا، گیا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔
۲۹۔اعتکاف کے دوران کوئی ووٹ ڈالنے گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔
(فتاوٰی محمودیہ ۱۳/۱۵۸)
۳۰۔کوئی ماسٹر صاحب اعتکاف میں بیٹھے اور ٹیوشن پڑھانے کیلئے مسجد سے نکلے تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا ۔(فتاوٰی محمودیہ ۱۳/۱۵۴)
اعتکاف کے متفرق مسائل 》》
ا۔ اگر شوہر بیوی کو اعتکاف کی اجازت دے چکا تو پھر اس کے بعد اس کو منع کرنے کا اختیار نہیں اور اگر منع کرے تو ممانعت صحیح نہیں ۔(عالمگیری ۲/۳۱)
۲۔ عورت اعتکاف کے دوران ضرورت کے وقت گھر کا کام کاج کر سکتی ہے، کھانا پکا سکتی ہے مگر اعتکاف کی جگہ سے باہر نہ نکلے ۔اور بہتر یہ ہے کہ اس کو یکسو کر دیں تا کہ وہ عبادت اور ذکر میں زیادہ سے زیادہ وقت گزار سکے ۔
۳۔ ایک جگہ عورت نے جب اعتکاف کیلئے متعیّن کر لی تو اب اس کو تبدیل نہیں کر سکتی ۔(جامع الفتاوٰی ۵ /۳۳۴)
۴۔ معتکف کو حالت اعتکاف میں مسجد کے اندر اجرت لیکر کوئی کام کرنا جائز نہیں ۔
۵۔ اسی طرح مسجد کے اندر اخبار بھی نہ پڑھے کیونکہ عموماً اخبار تصاویر سے خالی نہیں ہوتے ۔(مسائلِ اعتکاف ص۴۳)
۶۔ عورت نے اگر پورا کمرہ اعتکاف کیلئے متعیّن کر لیا تو کمرے میں جس جگہ چاہے ٹھہر سکتی ہے ۔اسی طرح مسجد کے اندر معتکف جہاں چا ہے ٹھہر سکتا ہے ۔
۷۔ اعتکاف والی عورت کے ساتھ کمرے میں گھر کے دوسرے افراد رہ سکتے ہیں، کھانا کھا سکتے ہیں۔ مگر دنیاوی اور فضول باتوں سے پرہیز کریں ۔
۸۔ نابالغ لڑکا سمجھ دار ہو نماز کو سمجھتا ہو اور صحیح طریقہ سے پڑھتا ہو تو معتکف ہو سکتا ہے۔ نفل اعتکاف ہو گا ،مسنون نہ ہو گا اگر نا سمجھ ہو تو نہیں بیٹھ سکتا کہ مسجد کی بے ادبی کا اندیشہ ہے۔(فتاوٰی رحیمیہ ۷/۲۸۰)
۹۔معتکف کیلئے اگر مسجد میں کھانے پینے کا انتظام ہو سکتا ہے تو اسے کھانے کیلئے گھر جانا جائز نہیں لیکن اگر کوئی شخص کھانا لانے والانہ ہو تو کھانالانے کیلئے معتکف باہر جا سکتا ہے لیکن کھانا مسجد میں لا کر ہی کھانا چاہئیے نیز ایسے شخص کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئیے کہ ایسے وقت مسجد سے نکلے جب اسے کھانا تیار مل جائے ،تا ہم اگر کچھ دیر کھانے کے انتظار میں ٹھہرنا پڑے تو مضائقہ نہیں ۔(احکامِ اعتکاف ص۴۰)
۱۰۔ بعض دیہاتوں میں تو یہ ظلم ہوتا ہے کہ کوئی شخص اعتکاف بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ہوتا اس سے سارا محلہ گنا ہگا ر ہوتا ہے ۔اور بعض جگہوں پر کوئی نہ ملے تو کسی کو اجرت دیکر اعتکاف میں بٹھاتے ہیں اس طرح نہ معتکف کو کوئی ثواب ہوتا ہے نہ بٹھانے والوں کو ۔۔اور اگر اس کو اجرت مسجد کے فنڈ سے دی ہے تو جن لوگوں نے مسجد کے فنڈ سے وہ روپیہ دیا ان پر لازم ہے کہ وہ اپنی جیب سے مسجد کے فنڈ میں وہ روپیہ جمع کریں ۔
۱۱۔ اگر کسی کو حالت اعتکاف میں احتلام ہو گیا تو ا س سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا ۔
(بدائع الصنائع ۲/۲۸۷)
(((((——— ایک ضروری مسئلہ کی وضاحت ——–)))))
گزشتہ اوراق میں تین مسائل گزرے دو مسائل خیر الفتاوٰی کے حوالہ سے اور ایک مسئلہ فتاوٰی حقانیہ کے حوالے سے جن کا حاصل یہ ہے کہ اگر اعتکاف میں بیٹھتے وقت کوئی شرط لگا لے تو پھر اعتکاف کے دوران باہر جانا جائز ہے ۔۔مثلاً کوئی قرآن سنانے کیلئے مسجد سے باہر دوسری مسجد جاتا ہے ۔۔اسی طرح کوئی معلمہ درس دینے کیلئے اعتکاف کے کمرے سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں جاتی ہے ۔۔اسی طرح امام جنازہ پڑھانے باہر جاتا ہے ۔
اسی طرح ایک مسئلہ( مسائل اعتکاف ص۵۲ )کا گزرا کہ مسجد کے اوپر منزل کو جانے والی کچھ سیڑھیاں مسجد کے باہر سے جاتی ہوں اور کوئی شخص معتکف ان کے ذریعے اوپر منزل پر جائے تو ان سب حضرات نے اگر اعتکاف میں بیٹھتے وقت ان باتوں کی نیت کی تھی تو ان کو ان کاموں کیلئے مسجد سے باہر جا نا جائز ہے ور نہ نہیں ۔
تو اس مسئلہ میں مفتی محمد تقی عثمانی صا حب دامت بر کا تھم کی رائے یہ ہے کہ یہ نذر اور واجب اعتکاف سے متعلق ہے رمضان کے سنت اعتکا ف سے نہیں ۔
یعنی اگر کوئی نذر کرے کہ میرے اوپر اللہ کیلئے دس دن یا پانچ دن کا عتکاف لا زم ہے بشر طیکہ میں اس میں جنا زہ پڑ ھانے جا ؤ ں گا یا در س دینے جاؤ ں گا یاتراویح پڑ ھانے جا ؤ ں گا ۔ تو اب یہ شخص اعتکاف کے دوران مذکو رہ کا موں کیلئے مسجد سے با ہر جاسکتا ہے بشر طیکہ اس نے نذر کے ساتھ ساتھ اِن مذکورہ کا مو ں کا استثنا ء بھی زبا ن سے کیا ہو صر ف نیت اور ارادہ کر نا کا فی نہیں ۔
اور رمضان کے سنت اعتکا ف کے ساتھ یہ مسئلہ متعلق نہیں یعنی اگرکو ئی شخص نیت کرتا ہے کہ آخری دس دن کا اعتکاف کرو ں گا اور یہ بھی نیت کر تا ہے کہ در س دینے بھی جاؤ ں گا ،تراویح پڑ ھانے بھی دوسر ی مسجد جاؤ ں گا تو ا س شخص کو مذکو رہ کا م کرنے کیلئے مسجد سے با ہر جانا جائز نہیں اگر جائے گا تو اس کا سنّت اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔
واجب اور منذور اعتکاف》》
اگر کسی شخص نے نذر کی اور زبا ن سے یہ کہا کہ:
“میں فلاں دن اعتکاف کر نے کی منت اور نذر ما نتا ہو ں” یا ” میں نے فلاں دن کا عتکا ف اپنے اوپر لا زم کر لیا ہے” یا ” میں اللہ تعالیٰ سے عہدکر تا ہو ں کا فلا ں دن کا اعتکا ف کر وں گا “یا” اللہ تعا لیٰ نے اگرفلاں بیمار کو تندرست کر دیا تو میں اتنے دن کا اعتکا ف کر و ں گا” ۔ تو ان تمام صورتو ں میں نذر صحیح ہو گئی اور اعتکا ف واجب ہو گیا ۔
اگر زبا ن سے نہیں کہا صرف دل میں نیت کی یایہ کہا کہ “میرا ارادہ ہے کہ فلا ں دن اعتکا ف کر و ں گا”تو اس سے نذر منعقد نہ ہو گی اور اعتکا ف واجب نہ ہو گا۔
اسی طر ح اگر کہا “ان شاء اللہ میں فلاں دن اعتکا ف کرو ں گا ۔ تو نذر لازم نہ ہو گی ۔
اگر ان شاء اللہ کے بغیر یہ کہا کہ میں فلا ں دن اعتکا ف کر و ں گا ۔ اور” سنت” یا” عہد” وغیرہ کا کوئی لفظ استعما ل نہیں کیاتو ظاہر یہ ہے کہ اس سے بھی نذر منعقد نہیں ہو ئی لیکن احتیا طاً اس کے مطابق عمل کر لے تو بہتر ہے ۔ (یعنی اعتکا ف کر لے )