امام احمد رضا اور ایک نوجوان کا واقعہ
Table of Contents
رات کا وقت تھا اور عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں خاموشی چھا چکی تھی۔ چند لوگ ابھی بھی امام احمد رضاسے مختلف سوالات کر رہے تھے۔ امام رضا احمد ایک نہایت دانا اور باخبر بزرگ تھے، جنہیں نہ صرف دینی علوم میں عبور حاصل تھا بلکہ دنیاوی امور میں بھی مہارت تھی۔ لوگ بلا جھجھک اپنے مسائل ان کے سامنے پیش کرتے اور رہنمائی حاصل کرتے۔
نماز کے بعد شجاع احمد، جو ایک نوجوان تھا، نے ہمت کی اور امام احمد رضا صاحب کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ اس کے دل میں بہت ساری باتیں تھیں جن کا جواب اسے چاہیے تھا۔ اس نے امام صاحب کو سلام کیا اور امام صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، “وعلیکم السلام، بیٹا۔ کیا بات ہے؟ کچھ کہنا چاہتے ہو؟”
شجاع احمد نے کچھ توقف کے بعد آہستہ آہستہ بولنا شروع کیا، “امام صاحب، کبھی کبھی میں چاہتا ہوں کہ… بہت دور چلا جاؤں… کہیں بہت دور، کسی گمنام جنگل میں، سب پریشانیوں سے دور… سب لوگوں سے دور۔” وہ رک گیا اور امام صاحب کی طرف دیکھا جو اس کی بات غور سے سن رہے تھے۔
امام احمد رضا صاحب نے سر ہلا کر کہا، “جی بیٹا، آگے بولیں، میں سن رہا ہوں۔”
شجاع نے گہری سانس لی اور دوبارہ شروع کیا، “مجھ سے لگی ہوئی امیدوں سے دور… لوگوں کی جھوٹی ہنسی اور رونے سے دور… پیسوں اور نام کمانے کے لالچ سے دور۔”
امام احمد رضا صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا، “سمجھ گیا بیٹا، تمہیں بہت سی پریشانیاں محسوس ہو رہی ہیں۔”
شجاع نے سر ہلاتے ہوئے کہا، “جی امام صاحب، کبھی کبھی لگتا ہے کہ… کسی جنگلی قبیلے کا حصہ بن جاؤں، اور ساری زندگی وہاں گزار دوں… جہاں صرف پیٹ بھرنے اور زندگی بچانے کی فکر ہو، نہ کہ گاڑی، بنگلہ اور پیسے کے لیے۔”
امام احمد رضا صاحب نے غور سے شجاع کی بات سنی اور کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر انہوں نے کہا، “بیٹا، تمہاری باتیں سن کر مجھے ایک کہانی یاد آ گئی۔ شاید یہ کہانی تمہاری دل کی حالت کو سمجھنے میں مدد کرے۔”
انہوں نے شجاع کو ایک کہانی سنانی شروع کی:
“ایک بار ایک ننھا پودا تھا جو ایک جنگل میں اگنے لگا۔ شروع میں وہ بہت خوش تھا کیونکہ اسے کھلی ہوا، تازہ پانی اور دھوپ ملتی تھی۔ لیکن جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا، اس کے ساتھ مشکلات بھی بڑھتی گئیں۔ کبھی طوفان آتے، کبھی جانور اسے نقصان پہنچاتے، اور کبھی دھوپ کی کمی کی وجہ سے اسے مشکل ہوتی۔
ایک دن پودے نے فیصلہ کیا کہ وہ اس مشکل زندگی سے تنگ آ چکا ہے اور اسے ایک ایسی جگہ جانا چاہیے جہاں کوئی پریشانی نہ ہو۔ وہ اپنی جڑیں اکھاڑ کر چلنے لگا۔ لیکن جیسے ہی وہ چلنے لگا، اس نے دیکھا کہ اس کے قدم اٹھانے کے ساتھ ہی اس کے ارد گرد کی مٹی گرنے لگی اور اس کے ساتھ موجود دوسرے پودے اور درخت بھی متاثر ہونے لگے۔
پودے نے سوچا کہ وہ تو خود بھی اس زمین کا حصہ ہے اور اگر وہ یہاں سے چلا گیا تو نہ صرف وہ خود کمزور ہو جائے گا بلکہ اس کے ساتھ موجود دوسرے پودے بھی متاثر ہوں گے۔ اس نے واپس اپنی جڑیں مضبوطی سے زمین میں گاڑ دیں اور یہ سمجھ لیا کہ مشکلات کا سامنا کرنا ہی زندگی کا حصہ ہے۔
پودے نے پھر سے اپنی جڑیں مضبوط کیں اور مشکلات کا سامنا کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک مضبوط درخت بن گیا جو نہ صرف خود مضبوط تھا بلکہ دوسروں کو بھی سایہ اور سہارا دینے لگا۔”
امام احمد رضا صاحب نے کہانی ختم کرتے ہوئے کہا، “بیٹا، زندگی میں مشکلات آتی ہیں، لیکن ان کا سامنا کرنا ہی ہمیں مضبوط بناتا ہے۔ اگر ہم ان سے بھاگیں گے تو نہ خود مضبوط ہو سکیں گے اور نہ ہی دوسروں کو سہارا دے سکیں گے۔ ہر شخص کی زندگی میں ایک ایسا موڑ آتا ہے جب اسے لگتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر بھاگ جانا چاہیے، لیکن اصل ہمت وہ ہے جو ان مشکلات کا سامنا کرنے میں ہے۔”
پھر امام احمد رضا صاحب نے قرآن کی ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ‘وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ’ (سورة البقرة، 2:45)
‘یعنی “اور (رنج و تکلیف میں) صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، اور بے شک نماز گراں ہے، مگر ان لوگوں پر (گراں نہیں) جو عجز کرنے والے ہیں۔”
شجاع نےامام صاحب کی باتوں کو غور سے سنا اور پھر سوال کیا، “امام صاحب، یہ جو آپ نے قرآن کی آیت کا حوالہ دیا ہے، کیا آپ مجھے اس کی تفصیل سے سمجھا سکتے ہیں؟”
امام احمد رضا صاحب مسکراتے ہوئے بولے، “بہت اچھا سوال ہے، شجاع۔ جب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ‘وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ’، اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا صبر اور نماز کے ذریعے کرنا چاہیے۔ اس آیت کو تفصیل سے سمجھتے ہیں:
**’وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ’:** اس حصے کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنی مشکلات کے وقت صبر اور نماز کے ذریعے اللہ سے مدد مانگنی چاہیے۔ صبر کا مطلب ہے کہ ہم اپنے دل کو مضبوط رکھیں اور مشکلات کا سامنا کریں بغیر کسی شکایت کے۔ نماز ایک ایسی عبادت ہے جو ہمیں اللہ سے جوڑتی ہے اور ہمیں سکون اور اطمینان دیتی ہے۔
**’وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ’:** یہاں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نماز اور صبر ایک بڑی چیز ہے، یعنی یہ ایک مشکل کام ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
**’إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ’:** اس کا مطلب ہے کہ یہ نماز اور صبر انہی لوگوں کے لیے آسان ہیں جو دل سے عاجزی اور خشوع کے ساتھ اللہ کی طرف جھکتے ہیں۔ خشوع کا مطلب ہے کہ دل سے اللہ کی عظمت اور اس کے سامنے عاجزی کا احساس کرنا۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ اگر ہم مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں تو ہمیں صبر اور نماز کے ذریعے اللہ سے مدد مانگنی چاہیے۔ نماز ہمیں سکون دیتی ہے اور صبر ہمیں مضبوط بناتا ہے۔ اور جب ہم دل سے اللہ کی طرف جھکتے ہیں اور اس کی عظمت کا احساس کرتے ہیں تو یہ دونوں چیزیں ہمارے لیے آسان ہو جاتی ہیں۔
بیٹا، صبر اور نماز کے ذریعے ہم نہ صرف اپنی مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں بلکہ اللہ کی مدد بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ یاد رکھو کہ جب بھی تمہیں کوئی پریشانی ہو، اللہ کی طرف رجوع کرو، صبر کرو اور نماز پڑھو۔”
شجاع نے امام احمد رضا صاحب کی باتوں کو غور سے سنا اور ان کی وضاحت سے بہت مطمئن ہوا۔ اس نے دل سے شکر گزار ہو کر اپنی زندگی میں نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ امام صاحب کی دانشمندانہ باتوں نے اس کے دل کو سکون دیا اور اسے مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیا۔