بنگلہ دیش میں کیا ہوا۔
Table of Contents
گذشتہ بیس دنوں سے بنگلہ دیش کی اندرونی صورتحال عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی رہی ہے۔
بنگلہ دیش کی سیاست کو بھی مورثیت لاحق رہی ہے۔ شیخ مجیب کے بعد ان کی بیٹی شیخ حسینہ واجد اپنی مخالف بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اور خالدہ ضیاء کے مدمقابل رہی ہیں اور عنان اقتدار پر مسلسل فائز چلی آ رہی تھیں۔ خالدہ ضیاء کی آخری حکومت سنہ 2007 میں فوجی جرنیل نے مارشل لاء نافذ کر کے ختم کی۔
عبوری حکومت قائم ہوئی جس نے دو سال بعد انتخابات کرائے۔ انتخابات میں عوامی لیگ کی حسینہ واجد جیت گئیں اور خالدہ ضیاء کو کرپشن کیسز کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو کرپشن چارجز پر عدالتوں سے سترہ سال کی سزا ہوئی۔ خالدہ ضیاء کو سنہ 2019 میں طبی بنیادوں پر چھ ماہ کے لیے جیل سے باہر اپنے گھر پر سزا کاٹنے کی سہولت دی گئی اور تب سے اب تک وہ چھ ماہ کا پیریڈ چھ بار دیا جا چکا ہے۔ خالدہ ضیاء اپنے گھر پر نظر بند ہیں۔
شیخ حسینہ واجد نے سنہ 2009 سے اقتدار سنبھالنے کے بعد آج تلک مسلسل اقتدار پایا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی فوج نے تین بار مارشل لاء نافذ کیا اور تین بار سنہ 1980, 1996 اور 2011 میں منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوششیں کیں جو پکڑی گئیں۔ یعنی وہاں بھی فوج کا کردار “اہم” رہا ہے۔ حسینہ واجد نے بنگالی نظام کو معاشی بنیادوں پر قدرے مضبوط بنایا اور وہیں فوجی جرنیلوں کو بھی مراعات سے نوازا تاکہ اقتدار شاد باد رہ پائے۔ اس دوران سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کافی اضافہ کیا۔
بنگلہ دیش میں سرکاری نوکری کی تنخواہ زیادہ ہوتی ہے۔ اس واسطے ان نوکریوں کی اپنی خاص اہمیت ہے۔ لیکن ان نوکریوں کا ایک تہائی حصہ کوٹہ سسٹم کے تحت مخصوص حلقوں کو دے دیں جاتیں ہیں۔اور ایک تہائی حصہ ان خاندانوں کے واسطے رکھا گیا ہے جن کو بنگلہ دیشی ریاست “آزادی کی جنگ” کا ہیرو مانتی ہے۔ باقی بچی آدھی نوکریوں پر سفارش اور رشوت کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔
پچھلے چند سالوں سے عوام الناس میں ان نوکریوں کی بندربانٹ کو لے کر غصہ پلتا رہا ہے۔لوگوں کی اکثریت کا ماننا ہے کہ نوکریوں کا یہ نظام متعصبانہ ہے اور میرٹ کے سراسر خلاف ہے۔ لہذا یہ کوٹہ سسٹم ختم کر کے اوپن میرٹ پر نوکریاں دی جائیں۔آج سے ٹھیک پندرہ دن قبل طلباء تنظیموں نے اس سلسلے میں اپنے نو نکاتی مطالبات اٹھائے اور احتجاج شروع کیا۔ طلباء ریلی پر لاٹھی چارج کیا گیا، آنسو گیس کا استعمال ہوا جس سے اموات واقع ہوئیں۔
بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے امن و امان کی صورتحال کا سوموٹو نوٹس لیتے حکومت کو ان نکات پر طلباء کے ساتھ مذاکرات کرنے کا حکم دیا۔ حکومت نے حکم قبول کیا۔ مگر دوسری جانب ڈیڑھ ہوشیاری برتتے ہوئے پھر سے طلباء پر کریک ڈاؤن کر دیا۔ حسینہ واجد نے ٹی وی پر آ کر ایک مشتعل بیان دیا جس میں انہوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے طلباء کو سنہ 71 میں پاکستانی فوج کی مدد کرنے والے “رضاکاروں” سے تشبیہہ دیتے انہیں وطن دشمن قرار دے ڈالا۔اس بیان سے آگ ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی اور سارے ملک میں طلباء سڑکوں پر نکل آئے۔
اس صورتحال سے نپٹنے کو ایک بار پھر فورسز نے طلباء پر چڑھائی کی۔ اموات ہوئیں۔ اور معاملات اس حد تک چلے گئے کہ سارے ملک میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ موبائلز اور انٹرنیٹ سروسز جام کر دی گئیں۔ حسینہ واجد نے فورسز کی کمیٹی سے خطاب کرتے ایک بار پھر طلباء کو دہشتگرد اور وطن دشمن قرار دیا اور فوج کو ان سے سختی سے نپٹنے کی ہدایات جاری کیں۔ حکومت کے وزیر قانون انیس الحق نے پریس کانفرنس کرتے کہا” ابھی ہم تحمل دکھا رہے ہیں۔ ہماری برداشت کی بھی حد ہے۔”
ملگ گیر مظاہروں میں شدت اس حد تک پہنچی کہ تین سو طلباء جاں بحق ہوئے۔ ہزاروں زخمی ہوئے۔ سارے ملک کا نظام مفلوج ہو گیا۔ آج آرمی چیف نے حسینہ واجد سے استعفیٰ لے لیا ہے۔ ملک کا نظام فوج نے سنبھال لیا ہے۔ حسینہ واجد کو فوجی ہیلی کاپٹر میں بھارت کے شہر اگرتلہ بھیج دیا گیا ہے
جہاں وہ بھارتی ریاست کی مہمان ہوں گی۔ بنگلہ دیش میں ایک بار پھر مارشل لاء نافذ ہو چکا ہے۔ اب وہاں “جمہوریت” کب واپس آتی ہے ، آتی بھی ہے یا نہیں، یہ وقت بتائے گا۔ طلباء تنظیموں نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ طلباء کے مطالبات منظور ہوتے ہیں یا نہیں۔ اک نئی طرز کی فوجی حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے یا فوج عبوری حکومت سنبھال کر کچھ عرصے میں انتخابات کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ابھی اس بابت کچھ واضح نہیں۔
یہ سارا منظر نامہ جانا پہچانا لگتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ بھی کم و بیش اسی طرح کے واقعات سے بھری ہے۔