عظمیم کیمیا دان جابر بن حیان
جابر بن حیان 731ء میں طوس یاخراسان میں پیدا ہوا، اس کا باپ دوا سازی اور دوا فروشی سے گزر بسر کرتا تھا جو کہ حکومت سے بغاوت کی پاداش میں قید ہوا اور پھرقتل کر دیا گیا، جابر بن حیان اس وقت دودھ پیتا بچہ تھا،باپ کے قتل ہوجانے کی وجہ سے اس کی ماں پر دکھوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا،
Table of Contents
اس کو اپنے معصوم بچے کی پرورش اور تعلیم وتربیت کی فکردامن گیر ہوئی، تاہم جابرکے ذرا ہوش سنبھالتے ہی اس کی ماں نے اسکو بدوؤں کے ساتھ پرورش پانےلیے کوفہ کے مضافات میں بھیج دیا، جابر بن حیان جب جوان ہوا تو اس نے کوفے میں ہی سکونت اختیار کرلی،اس زمانے میں کوفے میں بھی علم اور درس و تدریس کابڑا چرچا تھا
، حصول علم جابر بن حیان کاشوق ہی نہیں بلکہ مقصد حیات بن گیا اور اس نے باقاعدہ پڑھنا شروع کردیا، اس وقت یونانی تعلیمات بھی عام تھیں، ان تعلیمات نےجابر پر گہرا اثر ڈالا، فارغ التحصیل ہوکرجابر نے ارد گرد نظر ڈالی تو لوگوں کو عام دھاتوں سے سونا بنانے کے خبط میں مبتلا پایا چنانچہ ماحول کے زیر اثر جابر بھی اسی راستے پرچل نکلا،
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اس نے تجربات شروع تو سونا بنانےکےلیے کئے اور کبھی سونا بنا بھی نہیں پایا لیکن اس کے باوجود اس نے تجربات ترک نہیں کئے، ہرتجربے کے بعد اسکا تجسس بڑھتا چلاگیا ، بطور کیما دان جابربن حیان کا ایمان تھا کہ علم کیما میں سب سے زیادہ اہم چیز تجربہ ہے، اس مطالعے یا علم کی کوئی حیثیت نہیں ہے جسکو تجربے سے ثابت نہ کیاجاسکے،
تجسس کا مادہ تو اس کوقدرت نے ودلعیت کیا ہی تھا، وہ کیما گری کی دھن میں طرح طرح کی دواؤں، دھاتوں اور کیماوی مادوں کے خواص معلوم کرنے کی کوشش میں لگ گیا، ہروقت وہ کسی نا کسی فکراورتجربات میں معصروف رہتا تھا اس کا گھر اچھی خاصی تجربہ گاہ بن گیا تھا، اسکو نا تو کسی نقصان کی پرواہ تھی اور نہ کسی تکلیف کی،
وہ سونا تو نا بناسکا لیکن بےشمار حقائق کا دریافت کنندہ اور کئ چیزوں کا موجد ضرور قرار پایا، یہاں تک کہ اس کی شہرت کی گونج عباسیوں کے پایہ تخت بغداد تک جاپہنچی، بغداد اس وقت علم کا بہت بڑا مرکز بن چکا تھا،یہ خلیفہ ھارون الرشید کی خلافت کا زمانہ تھا اور اسکا وزیرجعفربرمکی علم کا قدر دان تھا
، جعفربرمکی کی دعوت پرجابر بن حیان بغداد چلا گیا جہاں اس کی خوب پذیرائی ہوئی اور اسے انعام واکرام سے نوازا گیجابربن حیان نے بارہا گندھک اورپارےکو ملانےکا تجربہ کیا لیکن نتیجے میں ہمیشہ شنگرف ہی حاصل ہوتا تھا اس سے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ سونا عام گندھک سے نہیں بلکہ سرخ گندھک سے بنتا ہے جسکو اس نے” گوگردسرخ ” کا نام دیا،
ایک مرتبہ جابر نے اپنے ایک آلےمیں پھٹکڑی، بیراکس اورقلمی شورہ ڈال کرپکایا تو اس میں سے بھورے رنگ کے بخارات نکل کرآلے کے دوسرےحصے میں جمع ہوگے جو تانبے کا بنا ہواتھا حاصل شدہ مادہ اتنا تیز تھاکہ برتن گل کراس میں سےسیال ٹپکنے لگا،جابربن حیان نے اس سیال کو ایک چاندی کی کٹوری میں جمع کرنےکی کوشش کی تو اس میں بھی سوراخ ہوگے اب اس نے یہ سیال چمڑے کی تھیلی میں انڈیل دیا
، لیکن وہ بھی جل گی، اس نےمائع کوانگلی سےچھوکردیکھاتو انگلی جل گی اوروہ کئ دن شدید تکلیف میں مبتلا رہا اس مائع کےکاٹ اورجلا دینے کی صلاحیت کی وجہ سےجابربن حیان نے اس کا نام” تیزاب” تیزآب یعنی تیزپانی تجویز کیا چونکہ اس میں قلمی شورے کی تیزی کاعنصرغالب تھا چنانچہ اس نے اسکوقلمی شورےکا تیزاب قرار دیا.جس نے سواۓ سونے اورشیشےکے ہرچیز کوجلا دیا
، اس نے گندھک شورے، بیراکس اور نوشادرکی مدد سے شورے کےعلاوہ گندھک کا تیزاب اور ایکوریجیا بنایا، اس نے سونےکوپگھلانے والا تیزاب، عمل قلماؤ کاطریقہ ایجاد کیا، اس کےعلاوہ اس نے تین قسم کے نمکیات دریافت کئے، اس نےفولاد بنانے،لوہے کوزنگ سےبچانے، لوہے پر وارنش کرنیکا طریقہ ایجاد کیا، موم جامہ بنایا، چمڑے کورنگنےکاطریقہ دریافت کیا اوربالوں کو رنگنے کےلیے خضاب تیارکیا
، زمانہ اپنی چال چلتا رہا اورجابربن حیان دنیا ومافیہا سےبے خبر اپنی تجربہ گاہ میں بیٹھا بھٹی میں کوئلے جھونکتا رہا، طرح طرح کے کیماوی مرکبات کو پکاتا رہا جن میں سےخارج ہونے والے زہریلے دھوئیں سےاسکی بینائی متاثر ہوتی رہی، تیزابوں کے اس کھیل میں اسکی انگلیاں فگار رہتی تھیں، کہتے ہیں 815ء میں طوس کےمقام پر اسکا انتقال ہوا لیکن کیا واقعی وہ مرگیا؟ یا اپنی تجربہ گاہ میں بیٹھے بیٹھے وہ زمانے سےجیت گیا اورآنے والی نسلوں کو روشنی کا پتہ دے گیا —