حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ
Table of Contents
خلافت کیلئے انتخاب
رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دوران مسلمانوں کے تمام امورمخصوص اندازسے چل رہے تھے۔ پھرآپؐ کی اس جہانِ فانی سے رحلت کے نتیجے میں سبھی کچھ بدل کررہ گیا، ظاہرہے کہ ایسے میں امت کوکسی پاسبان ونگہبان کی اشداورفوری ضرورت تھی،تاکہ بیرونی دشمنوں ٗنیزاندرونی بدخواہوں ٗمنافقوں اورموقع پرستوں کوکسی سازش کاموقع نہ مل سکے۔
چنانچہ سن گیارہ ہجری میں بتاریخ ۱۲/ربیع الاول بروزپیر جب رسول اللہ ﷺ کے انتقال کا جاں گدازواقعہ پیش آیاتھااورآپؐ کی تجہیزوتکفین کے سلسلے میں ہی مشاورت کی غرض سے اکابرصحابہ میں سے متعددحضرات آپؐ کے گھرمیں موجودتھے، اس دوران کچھ لوگوں نے وہاں موجودحضرت عمربن خطاب ؓ کوآکراطلاع دی کہ ’’سقیفۂ بنی ساعدہ‘‘نامی مقام پربڑی تعدادمیں لوگ جمع ہیں اوروہاں یہ موضوع زیرِبحث ہے کہ اب رسول اللہ ﷺ کاخلیفہ اورجانشیں کون ہوگا…؟
یہ اطلاع ملنے پرحضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے اصرارکرتے ہوئے کہاکہ’’قبل اس کے کہ معاملہ نازک ہوجائے…ہمیں وہاں چلناچاہئے…‘‘
چنانچہ یہ حضرات وہاں پہنچے ، وہاں یہی موضوع زیرِبحث تھا،اورکسی بھی لمحے یہ معاملہ کوئی غلط رُخ اختیارکرسکتاتھا،صورتِ حال کی اس نزاکت کوبھانپتے ہوئے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کومخاطب کرتے ہوئے اس نازک موقع پر ’’فتنہ وافتراق‘‘سے بچنے ٗ اوراتفاق واتحادکوبہرصورت قائم رکھنے کی اہمیت وضرورت کے بارے میں مختصرگفتگوکی ۔ اس کے بعدحضرت عمربن خطاب ؓ ٗنیزحضرت ابوعبیدہ عامربن الجراح ؓ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’یقینایہی دوحضرات رسول اللہ ﷺ کی جانشینی کے قابل ہیں ، لہٰذا میرامشورہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ پرجلدازجلدبیعت کر لی جائے‘‘۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی یہ بات سُن کرحضرت ابوعبیدہ ؓ نے فرمایا’’ہم میں سے کس کادل اس بات کوگواراکرے گاکہ وہ شخص جسے خودرسول اللہ ﷺ نے ہماری امامت کیلئے منتخب فرمایاتھا،اس کے ہوتے ہوئے کسی اورکواس منصب کیلئے پسند کیا جائے؟
حضرت ابوعبیدہ ؓ کی زبانی یہ بات سنتے ہی حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اصرارکیا’’ابوبکر،اپناہاتھ بڑھائیے‘‘ جس پر حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی جانب اپناہاتھ بڑھایا،اورتب فوراًہی حضرت عمرؓ نے وہاں موجودلوگوں کومخاطب کرتے ہوئے بآوازِبلندیہ الفاظ کہے ’’لوگو!میں ابوبکرکے ہاتھ پربیعت کررہاہوں ،تم سب بھی انہی کے ہاتھ پربیعت کرلو، یہی رسول اللہ ﷺ کے جانشیں ہیں ‘‘۔(۱)
اس پروہاں موجودسبھی افرادنے بڑی تعدادمیں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ کبارِصحابہ کرام میں سے چندافراداس وقت وہاں موجودنہیں تھے ، جنہوں نے بعدمیں مسجدِنبوی میں بیعت کی۔ یوں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کوبالاتفاق رسول اللہ ﷺ کے جانشین اور’’خلیفۂ اول‘‘ کی حیثیت سے منتخب کرلیاگیا۔
خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے فوری بعدحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے مختصرخطبہ دیتے ہوئے فرمایا: (أیُّھَا النَّاس! اِنِّي وُلِّیْتُ عَلَیکُم وَلَستُ بِخَیرِکُم ، اِن أحسَنْتُ فَأعِینُونِي ، وَاِن أسَأتُ فَقَوِّمُونِي ، الصِّدقُ أَمَانَۃ ، وَالکَذِبُ خِیَانَۃ ، الضَّعِیفُ فِیکُم قَوِيٌّ عِندِي حَتّیٰ أُرجِعَ اِلَیہِ حَقَّہٗ ، وَالقَوِيُّ فِیکُم ضَعِیفٌ عِندِي حَتّیٰ آخُذَ مِنہُ حَقَّہٗ ، أطِیعُونِي مَا أطَعتُ اللّہَ وَ رَسُولَہٗ ، فَاِن عَصَیتُ اللّہَ وَ رَسُولَہٗ فَلَا طَاعَۃَ لِي عَلَیکُم)
ترجمہ:’’لوگو!میں تمہاراامیرمقررکیاگیاہوں ٗحالانکہ میں تم سے افضل نہیں ہوں ۔اگرمیں اچھے کام کروں توتم میری مددکرنا،غلطی کروں تواصلاح کرنا۔سچ امانت ہے،جبکہ جھوٹ خیانت ہے۔تم میں سے جوشخص کمزورہے ،وہ میرے نزدیک طاقتورہے جب تک میں اسے اس کاحق نہ دلادوں ۔اورتم میں سے جوکوئی طاقتورہے، میرے نزدیک وہ کمزورہے، تاوقتیکہ میں اس سے حقدارکاحق وصول نہ کرلوں ۔تم میری اطاعت کروجب تک میں اللہ اوراس کے رسول ؐکی اطاعت کروں ۔ اور اگرمجھ سے کوئی ایساعمل سرزدہوجس میں اللہ اور اس کے رسولؐکی نافرمانی کاپہلونکلتاہو، توتم پرمیری اطاعت واجب نہیں ہوگی۔ اللہ تم پررحم فرمائے‘‘۔
خلیفۂ اول کی اس اولین تقریر کے ایک ایک جملے میں رسول اللہ ﷺ کی پاکیزہ تعلیم وتربیت اوراخلاص وتقویٰ کی جھلک نمایاں نظرآتی ہے۔ نیزاس اولین تقریرمیں انہوں نے یہ وضاحت وصراحت کردی کہ ان کااندازِفکریہ ہے کہ ’’وہ خودکوعوام الناس سے ممتاز ومنفرد تصور نہیں کرتے‘‘۔ نیزان کااندازِحکمرانی یہ ہوگاکہ’’ سچ کی نشرواشاعت اورجھوٹ کاراستہ روکنے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی، اوریہ کہ ہرقیمت پرانصاف کابول بالاکیاجائے گا ٗ جبکہ ظلم وناانصافی کا مکمل سدِباب کیاجائے گا، نیزیہ کہ جب تک وہ خوداللہ عزوجل کی اطاعت وفرمانبرداری کے راستے پرگامزن رہیں گے ٗ عوام الناس پران کی اطاعت وفرمانبرداری محض اُسی وقت تک ضروری ولازمی ہوگی‘‘۔