1.کیا واقعی حضرت امامِ مہدی رضی اللہ عنہ نام سے ایک
شخصیت کی آمد ہونی ہے اور منکرِین امام مہدی کون ہیں ؟
Table of Contents
ہمیشہ یہ سوال کسی بھی موضوع کی جان ہوا کرتی ہے کہ کیا جس ہستی کےبارے میں ہم بات کر رہے ہیں یا کسی بھی چیز کےبارے میں بات کر رہے ہیں آیا وہ موجود ہےبھی، اسکا کوئی وجود ہے بھی یانہیں ۔تو حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کی بات کریں تو انکی خبر نبیِ پاک ﷺ نے دی ہے تو ان کے وجود اور انکی آمد کا انکار کسی صورت ممکن ہی نہیں بلکہ ہوسکتا ہے کہ انکی آمد انتہائی قریب ہے ۔
شعیہ وسنی مکتبہِ فکر سے تعلق رکھنے والے کچھ اسکالز ایسےبھی گزرے ہیں جو سرے سے امام مہدی کی آمد کے ہی انکاری ہیں انکے مطابق حضرت امامِ مہدی جیسی ہستی کا وجود ہی نہیں اور نہ ان روایات میں حقیقت ہے۔ یاد رکھیے گا یہ لوگ منکرِ حدیث ہیں یعنی احادیث مبارکہ کا انکار کرنے والے تو ایسے لوگوں کی باتوں پہ دھیان نہیں دینا۔احادیث مبارکہ کی روء سے دیکھا جائے تو حضرت مہدی کی آمد یوں برحق ہے کہ جیسے ایک دن مرنا اور مر کر زندہ ہونا برحق ہے۔ جیسے قیامت برحق ہے جیسے جنت دوزخ اور ابدی زندگی کا تصور برحق ہے۔ حدیث مبارکہ میں جیساکہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر دنیا کی عمر کا صرف ایک دن باقی رہا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو اتنا لمبا کر دے گا کہ میرے خاندان کے ایک فرد کی حکومت قائم ہو، اور پھر وہ دیلم پہاڑ اور شہر قسطنطنیہ پر قابض ہو جائے.” سنن ابنِ ماجہ، جلد چہارم، حدیث مبارکہ 2779
2. حضرت امامِ مہدی کون ہیں؟
حضرحضرت امامِ مہدی کا اصل نام حضورپاک ﷺ کے فرمان کے مطابق میرے نام یعنی نبی پاک کے نام پہ ہوگا۔ یعنی احمد یا پھر محمد۔ مہدی ان کا نام نہیں بلکہ لقب ہے اور اسی لقب کی شہرت کے سبب آپ کو “مہدی” کے نام سے ذیادہ جانا جاتا ہے۔
3.حضرت حضرت امامِ رضی اللہ عنہ کی بات کریں تو انکی خبر نبیِ پاک ﷺ نے دی ہے تو ان کے وجود اور انکی آمد کا انکار کسی صورت ممکن ہی نہیں بلکہ ہوسکتا ہے کہ انکی آمد انتہائی قریب ہے ۔ مہدی کا رسول اللہ ﷺ سے کیا رشتہ ہوگا؟
سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ
“ہم ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھے، ہم نے مہدی کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ مہدی فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے”سنن ابنِ ماجہ، جلد پنجم، حدیث مبارکہ 4086
ایک دوسری حدیث مبارکہ ہے جس میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
“”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ہم عبدالمطلب کی اولاد ہیں، اور اہل جنت کے سردار ہیں، یعنی: میں، حمزہ، علی، جعفر، حسن، حسین اور مہدی” سنن ابنِ ماجہ، جلد پنجم، حدیث مبارکہ 4087
ان دو احادیث مبارکہ سے دو باتیں تو واضح ہوگئیں کہ جناب حضرت امامِ مہدی آلِ رسول اللہ ﷺ یعنی آلِ بیت و سادات میں سے ہونگے اور حضرت فاطمہ بنتِ محمدﷺ کی اولاد مبارکہ سے ہوں گے۔یعنی حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کا شجرہ خاندانِ رسول اللہ سے جا کر ملتا ہے۔اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی کے پیارے خاندان کو بھی کیا خوبصورتی سے ایک موتیوں کی مالا کی طرح جوڑا ہے یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی نسبت سے بھی دیکھیں تو خاندانِ حضرت عبدالمطلب سے جاملتا ہے اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت سے جوڑیں تو بھی آپ کا شجرہ نسب حضرت عبدالمطلب سے جاملتا ہے۔
4. حضرتِ امامِ مہدی رضی اللہ عنہ کی پیدائش کہاں ہوگی اور کیا امامِ مہدی پیدا ہو چکے ہیں؟
حضرتِ امامِ مہدی رضی اللہ عنہ کی پیدائش انکے نانا سرورِ کونین حضرت محمدﷺ کے شہرِ روشن مدینہ منورہ میں ہوگی اور مدینہ منورہ میں ہی آپ اپنی زندگی بسر کریں گے جبکہ دُنیا کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر اس بات کا قوی امکان ہے کہ حضرت امامِ مہدی رضی اللہ عنہ دُنیا میں تشریف لاچکے ہیں۔(واللہ علم) امامِ مہدی ایک عام انسان کی طرح جنم لیکر اپنی عمر تک پہنچیں گے اور مسلمانوں کی قیادت سنبھالیں گے تو موجودہ حالات میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
5. کیا حضرت امامِ مہدی صدیوں پہلے پیدا ہوچکے ہیں اور کسی غار میں موجود ہیں؟
نہیں امام مہدی سینکڑوں سال پہلے پیدا نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ کسی غار میں روپوش ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ کے طے کردہ نظام کے مطابق وہ اپنے وقتِ مقررہ پر پیدا ہوں گےاور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اللہ پاک سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ حضرت امام مہدی کی پیدائش ہوچکی ہوگی، وہ حضرت فاطمۃ الزہرائؓ کی نسل سےہونگے،نجیب الطرفین سید ہونگے، ان کا نام نامی محمد اور والد کا نام عبداللہ ہوگا اور بعض جگہ انکی والدہ کا نام بھی آمنہ آیا ہے۔آپکی کنیت جنابِ رسول اللہ ﷺ کی کنیت پر ہوگی یعنی “ابوالقاسم”۔ حضرت امام مہدی عام انسان کی طرح ہی پیدا ہوکر، پھر لڑکپن سےجوانی میں قدم رکھیں گے اور عمر کے ایک حصے میں پہنچ کر سامنے آئیں گے بعض مقامات پر جب مسلمان مہدی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پہ بیعت کریں گے اس وقت انکی عمر قریباً 40 سال ہوگی۔
6.کیا حضرت امامِ مہدی رضی اللہ عنہ اس وقت دُنیا میں موجود ہیں؟
اس بات کا حقیقی علم تو اللہ پاک کو ہے لیکن بعض جگہ حضرت امام مہدی کی بیعت کے وقت عمر چالیس سال بیان کی گئی ہے گوکہ اسکےعمر بارے کوئی مستند روایت موجود نہیں لیکن 40سال کی عمر کو ہم عام طور پر ایک ایسی عمر سمجھتے ہیں کہ اس میں کسی شخص کے کاندھے پر قیادت کی ذمہ داری رکھی جاسکتی ہے جیسا کہ اللہ پاک کے آخری نبیِ پاکﷺ کو نبوت مبارک 40سال کی عمر میں ملی تو کہا جا سکتا ہے کہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ بھی گوکہ نبوت تو نہیں لیکن اللہ پاک کی جانب سے مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ داری بھی40سال کی عمر میں مل سکتی ہے۔ اس ضمن میں دیکھیں تو حضرت امام مہدی کا زمانہ کوئی ذیادہ دور نہیں ہے اور چالیس سال کا عرصہ ہم کم ذیادہ بھی کرلیں تو اس بات کا قوی طور پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ حضرت امامِ مہدی اس وقت دُنیا میں موجود ہیں ہمارے درمیان ہیں لیکن اس کا حقیقی اور مستند علم صرف اللہ پاک کی ذات کو ہے۔
7. کیا حضرت امامِ مہدی نبی ہونگے یا نبوت کا دعویٰ کریں گے کیا ان پر ایمان لانا ہوگا؟
بالکل نہیں حضرت امامِ مہدی رضی اللہ عنہ نبی نہیں ہونگے، نہ ان پہ وحی نازل ہوگی،نہ ہی نبی جان کر ان پہ ایمان لانا ہوگا کیونکہ نبوت اور وحی کا سلسلہ جنابِ رسول اللہﷺ پر ختم ہوچکا ہے ہاں اللہ پاک انکی صحبت اور انکی سپہ سالاری عطا کرے تو کیا ہی بات ہوگی کیونکہ انکی اطاعت اور انکے ساتھ شامل ہونے کی بڑی فضیلتیں بیان ہوئی ہیں اور حضرت امام مہدی کی پیروی کرنا قرآن وسنت کےخلاف نہیں ہوگا بلکہ عین مطابق ہوگا جو آگےچل کر بیان کرونگا ان شاءاللہ۔ پھر دہرا دوں کہ حضرت امام مہدی آلِ رسولﷺ میں سے ہونگےلیکن خود نبی نہیں ہونگے نہ کبھی نبوت کا دعویٰ کرینگے اسلیے جو بھی دُنیا میں خود کو امامِ مہدی کہے اور ساتھ نبوت کا دعویٰ کریں تو سمجھ جائیے کہ وہ مردود کذاب اور لعنت کا مستحق ہے۔
8. کیا حضرت امامِ مہدی رضی اللہ کے آنے سے ہمارے عقائد پر کوئی فرق پڑے گا؟
نہیں اماِم مہدی کے آنے سے عقائد یا اسلامی تعلیمات پر نہ کوئی فرق پڑے گا نہ امامِ مہدی کسی ایسی تبدیلی کامطالبہ کریں گے ہاں انکی مکمل زندگی اور تعلیمات عین اسلام کے مطابق ہونگی اور وہ تمام بدعتوں اور غیر شرعی باتوں کو رد کریں گے۔
9. حضرت امامِ مہدی دجال سے پہلے تشریف لائیں گے یا بعد میں؟
حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ، دجال مردود کےخروج سے کافی سال پہلے تشریف لائیں گے اور مسلمانوں کی قیادت کریں گے۔ جیسا کہ اس حدیث مبارکہ میں ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت المقدس کی آبادی مدینہ کی ویرانی ہو گی، مدینہ کی ویرانی لڑائیوں اور فتنوں کا ظہور ہو گا، فتنوں کا ظہور قسطنطنیہ کی فتح ہو گی، اور قسطنطنیہ کی فتح دجال کا ظہور ہو گا پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس شخص یعنی معاذ بن جبل کی ران یا مونڈھے پر مارا جن سے آپ یہ بیان فرما رہے تھے، پھر فرمایا: یہ ایسے ہی یقینی ہے جیسے تمہارا یہاں ہونا یا بیٹھنا یقینی ہے” سنن ابی داؤد، جلد چہارم، حدیث مبارکہ 4294
تو حضرت مہدی دجال سے پہلے تشریف لائیں گے اور جنگیں ہونگی ۔ان شاءاللہ اگلے آنے والے حصوں میں انکے بارے میں تفصیل سےآگاہ کرونگا۔
9. اگر حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ اس وقت دُنیا میں موجود ہیں تو ہم انہیں کیوں نہیں پہچان سکتے جب کہ وہ اتنی بڑی ہستی ہیں جن کا مسلمان صدیوں سے انتظار کر رہے ہیں؟
امامِ مہدی رضی اللہ عنہ کی پیدائش کو حالات کی مناسبت سے دیکھا جائے تو یہ بات تصور کی جاسکتی ہے کہ مہدی رضی اللہ عنہ دُنیا میں تشریف لاچکے ہیں اور اس وقت وہ ایک عام انسان جیسی زندگی گزار رہے ہونگے۔
جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ”سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مہدی ہم اہل بیت میں سے ہو گا، اللہ تعالیٰ ایک رات میں اس کی اصلاح فرمائے گا۔” مسندِ احمد، جلد 12، حدیث مبارکہ 12925
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت امامِ مہدی وقت ظہور سے پہلے سے موجود ہونگے اور ایک عام شخص کی طرح لوگوں میں ہی رہ کر زندگی گزار رہے ہونگے چونکہ اس وقت انہیں ابھی اتنی بڑی ذمہ داری نہیں سونپی گئی تو ہم ان کو نہیں جان پا رہے لیکن جب اللہ پاک ان سے مسلم اُمہ کی قیادت اور دینِ اسلام کی باگ دوڑ کا کام لینا چاہینگے تو انہیں ایک ہی رات میں وہ ساری خوبیاں اور صلاحیتیں عطا کر دیں گے کہ وہ ایک عظیم ذمہ داری سنبھال
حضرت امامِ مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہور اس وقت ہوگا جب مسلم اُمہ شدید ترین مسائل میں گھری ہوگی جسے آج کا دور کہا جاسکتا ہے کیونکہ آج مسلم اُمہ ہر جانب شدید ترین مسائل اور افراتفری کا شکار ہے دُنیا بھر میں ہونے والی جنگیں اور قتل عام میں تقریباً مسلمانوں کا ہی لہو بہہ رہا ہے۔
مسلم اُمہ تتر بتر ہوچکی ہے اور اس وقت یوں لگ رہا ہےکہ مسلم اُمہ بالکل لاوارث ہے اور کوئی شخص ایسا نہیں جو مسلم اُمہ کو ایک بار پھر سے جوڑ کر متحد کردے۔ پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ عربوں میں اختلاف پیدا ہوجائیں گے اور قبیلوں میں بٹ جائیں گے، آج بھی کچھ حالات ایسے ہی ہیں جو ہمیں نظر نہیں آرہے لیکن عرب کے مقتدر حلقوں میں اقتدار کی جنگ جاری ہے۔
جس سال امام مہدی کا ظہور ہونا ہو گا، اس سال حج امیر کے بغیر ہوگا، منی میں کسی بات پر لوگوں کےدرمیان جھگڑا ہو جائے گا اور بات اس قدر بڑھ جائے گی اس کا انجام قتل و غارت گری پر ہوگا، بے دریغ خون بہایا جائے گا، حجاج کرام کو لوٹا جائےگا اور جمرۂ عقبہ کے پاس خوب خونریزی ہوگی حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے اور کوئی شخص ایسا نظر نہیں آرہا ہوگاکہ اس سب کو روکے. مسلم امہ شدید تشویش میں مبتلاء ہوجائے گی۔
اسی دوران پوری دنیا کے مسلم ممالک میں سے اپنے وقت کے سات بڑے بڑے علماء بغیر کسی سابقہ تیاری کے ہنگامی طور پر مکہ مکرمہ آ پہنچیں گے ان علماء کے ہاتھوں پر بھی لوگوں نےبیعت کر رکھی ہوگی اور یہ حضرت امامِ مہدی سے اچھی طرح واقف ہونگے۔ جب یہ حالاتِ دیکھیں گے تو انہیں اندازہ ہوجائےگا کہ یہ حالات امام مہدی کے ظہور کےہیں اور اسی امید پر وہ امام مہدی کو تلاش کریں گے تاکہ انکے ہاتھ پر بیعت کریں اور فتنوں کا خاتمہ کرکے اسلام کو تقویت بخشی جائے، ظلم کی چکی میں پستے مسلمانوں کو راحت ملے اور ایک اسلامی حکومت قائم کی جائے.
جب یہ علماء کرام اکھٹے ہو کر امام مہدی کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور علامات و اوصاف سے یہ کچھ زیادہ مشکل نہ ہو گا کیونکہ اللہ پاک انہیں عام لوگوں کے سامنے ظاہر ہونے سے پہلے وہ تمام اوصاف و صلاحیتیں عطا کردیں گے جو انہیں ایک ممتاز مقام عطاء کریں گی اور وہ مسلم امُہ کو اپنی قیادت کا شرف بخشیں گے۔
خیر جب علماءِ کرام انکی صفات سے انکو تلاش کرلیں گے تو انکے پاس مکہ مکرمہ پہنچیں گے اور ان سے تصدیق کریں گے کہ ” فلاں ابنِ فلاں ابنِ فلاں” ہیں
(اب آگے بڑھنے سے پہلے یہاں ایک اہم بات واضح کردوں کہ ایسے کئی اللہ کی لعنت کے مستحق کذاب اور فریبی لوگ جو خود کو مہدی رضی اللہ عنہ ظاہر کریں تو یہ بات ذہن نشین کرلیجئے کہ امام مہدی خود کبھی قیادت کے لیے پیش نہیں ہونگے کبھی خود کو خود ہی ظاہر نہیں کریں گے نہ ہی لوگوں میں اپنا چرچا کریں گے کہ میں امام مہدی ہوں بلکہ امامِ مہدی کو تلاش کیا جائے گا۔)
خیر جب حضرت امام مہدی فرمائیں گے کہ میں تو ایک انصاری ہوں تو امام مہدی وہاں سے چلے جائیں گے اور مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچیں گے. جب علماء کرام مدینہ پاک میں جا کر ان سے ملیں گے تو آپ تررد فرماتے ہوئے اور قیادت سے بچنے کی غرض سے واپس چھپ کر مدینہ سے مکہ مکرمہ آجائیں گے اور علماء کرام آپکے پیچھے پھر مکہ مکرمہ لوٹ آئیں گے۔
جب یہ علماء ان سے اپنی بیعت کی درخواست کریں گے، امام مہدی پہلے تو تردد کا اظہار کریں گے اور اس ذمہ داری سےبچنے کی کوشش کرینگےلیکن علماء کرام انتہائی بےچینی کی کیفیت میں بدستور امامِ مہدی کے تعاقب میں رہیں گے۔ بالاخر علماء کرام امام مہدی کو حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان پائیں گے تو آپ اپنا چہرہ مبارک کعبتہ اللہ کی دیوار مبارک سے رگڑ کر روتے ہوئے امتِ مسلمہ کی حالتِ زار پر رو رو کر اللہ پاک سے دُعا کررہے ہونگے۔
علماء کرام ایک بار پھر آپکو قیادت کی گزارش کریں گے اور اللہ کا واسطہ دیکر امتِ مسلمہ کے حالات اور مصائب سے آگاہ کریں گے۔ اسی دن عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد بیعت ہوگی اور حضرت امامِ مہدی خطبہ ارشاد فرمائیں گے اور مسلم اُمہ کو ایک عظیم قیادت نصیب ہوگی۔ آپ کی آمد کے بعد خوشحالی خوشی کا دور ہوگا، زمین عدل و انصاف سے بھر جائے گی۔ آسمان اپنی ساری رحمتیں اور بارش برسا دے گا، زمین اپنے خزانوں اور ہریالی کا منہ کھول دے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ جب آپ کی بیعت کی شہرت ہوگی تو مدینہ منورہ کی فوجیں مکہ معظمہ میں جمع ہوجائیں گی، شام، عراق اور یمن کے اہل اللہ اور اَبدال سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور بیعت کریں گے۔ ایک فوج حضرت امام مہدی سے لڑنے کے لئے آئے گی، جب وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک جنگل میں پہنچے گی اور ایک پہاڑ کے نیچے ٹھہرے گی تو سوائے دو آدمیوں کے سب کے سب زمین میں دھنس جائیں گے.
امام مہدی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آئیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ مبارک کی زیارت کریں گے، پھر شام روانہ ہوں گے، دمشق پہنچ کر عیسائیوں سے ایک خونریز جنگ ہوگی۔ جس میں بہت سے مسلمان شہید ہو جائیں گے، بالآخر مسلمانوں کو فتح ہوگی، امام مہدی ملک کا انتظام سنبھال کر قسطنطنیہ فتح کرنے کے لئے سفر کریں گے۔
اب چلتے ہیں امام مہدی کے سفرِِ قسطنطنیہ کی جانب، گزشتہ حصے میں دو اہم سوال کافی ذیادہ پوچھے گئے ایک تو وہ جو ایک بڑی فوج جو مکہ اور مدینہ کی جانب حضرت مہدی سے جنگ کرنے چلیں گے اور ایک پہاڑ کے نیچے جنگل میں ٹھہریں گے اور زمین میں دھنس جائیں وہ کون ہونگے؟ دوسرا سوال کہ قسطنطنیہ تو آزاد ہے پھر قسطنطنیہ کو امام مہدی کیسے فتح کریں گے؟
یہ دو سوال نہایت اہم تھے اور انکی تفصیل میں جانا ضروری تھا اس لیے ہم خراسان کے لشکر، غزوہِ ہند، خروجِ دجال اور ظہورِ نبیُ المحترم حضرت عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام اور یاجوج ماجوج کے بارے میں بالترتیب جانیں گے ان شاءاللہ۔
پہلا سوال:
ایک تو وہ جوایک بڑی فوج جو مکہ اور مدینہ کی جانب حضرت مہدی سےجنگ کرنے چلیں گے اور ایک پہاڑ کے نیچے جنگل میں ٹھہریں گے اور زمین میں دھنس جائیں وہ کون ہونگے؟
اس وقت جب آپ کی شہرت اور بیعت کی خبر ساری دُنیا میں پھیل جائے گی تو ایک فوج اُٹھی گی جو حضرت امام مہدی سے جنگ کے لیے روانہ ہوگی ۔
یہ شخص حضرت مہدی سے لڑنے کے لیے فوج بھیجے گا جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جنگل میں پہنچے گی اور ایک پہاڑ کے نیچے ٹھہرے گی تو عین اس وقت یہ ساری فوج اللہ پاک کےحکم سے زمین میں دھنس جائےگی اور ان میں صرف دو افراد زندہ بچیں گے اور دوسرا شخص سارا قصہ حضرتِ امام مہدی کے گوش گزار کردے گا۔
اُس شخص کے پاس اس لشکر کے دھنس جانے کی جب خبر پہنچے گی تو ساری دُنیا سے نصاریٰ کی فوجیں اکٹھی ہونا شروع ہوجائیں گی اور مسلمانوں کے خلاف بڑی جنگ کی تیاری کریں گے۔ اس فوج میں 80 جھنڈے ہونگے (یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ 80 ممالک کی فوج ہوگی جیسے آجکی نیٹو فورسز بھی ہوسکتی ہیں) ان 80 جھنڈوں میں ہر جھنڈے کے ساتھ 12000 کی فوج ہوگی یعنی کل ملا کر مسلمانوں کے مقابلے میں 960000 کا لشکر میدان میں آئے گا۔
اس لشکر کی تیاری جاری ہوگی کہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ مکہ سے چل کر مدینہ تشریف لائیں گے اور وہاں سے روضہِ سرورِ کونین ﷺ کی زیارت کرکے شام کی طرف روانہ ہو جائینگےاور دمشق تک پہنچنے ہی ہونگے کہ دوسری طرف سےنصاریٰ کی فوج مقابلہ میں آجائےگی،حضرت مہدی رضی اللہ کی فوج تین حصوں میں بٹ جائے گی، ایک بدنصیب حصہ تو بھاگ جائے گا، ایک خوش قسمت حصہ شہید ہو جائے گا اور ایک حصہ کو فتح حاصل ہوگی۔
ہوگا کچھ یوں کہ حضرت مہدی رضی اللہ عنہ نصاریٰ کے ساتھ لڑنے کے لیے لشکر تیار کریں گے اور بہت سے مسلمان آپس میں قسم کھائیں گے فتح حاصل کیے بغیر پیچھے نہ ہٹیں گے، پس سارے مسلمان شہید ہو جائیں گے، صرف تھوڑے سے مسلمان بچیں گے، جنہیں لے کر حضرت مہدی رضی اللہ عنہ اپنے لشکر میں چلے جائیں گے.
اگلے دن پھر اس طرح کا قصہ ہو گا کہ مسلمان قسم کھا کر جائیں گے اور تھوڑے سے بچ کر آئیں گے، تیسرے دن بھی ایسا ہی ہو گا، آخر چوتھے دن یہ تھوڑے سے آدمی مقابلہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائیں گے، پھر کافروں کے دلوں میں لڑنے کا حوصلہ نہ رہے گا۔
اب حضرت مہدی علیہ الرضوان ملک کا انتظام سنبھالیں گے اور سب فوجیں روانہ کریں گے اور خود سارے کاموں سے نمٹ کر قسطنطنیہ فتح کرنے چلیں گے، جب دریائے روم کے کنارے پہنچیں گے، تو بنو اسحاق کے ستر ہزار آدمیوں کو کشتیوں پر سوار کر کے قسطنطنیہ شہر کو فتح کرنے کے حوالے سے ہدایات تجویز کریں گے، جب یہ لوگ شہر کی فصیل کے مقابل پہنچیں گے تو ”اللہ اکبر، اللہ اکبر“بآواز بلند کہیں گے، اس نام کی برکت سے شہرِ پناہ کی دیوار گر جائے گی اور مسلمان حملہ کرکے شہر کے اندر گھس جائیں گے اور کفار کو قتل کریں گے اور بہترین انصاف اور نظم و ضبط سے ملک کا بندوبست سنبھالیں گے۔
دوسرا سوال کہ قسطنطنیہ تو آزاد ہے پھر قسطنطنیہ کو امام مہدی کیسے فتح کریں گے؟
پہلے قسطنطنیہ کے بارے میں جانیں گے۔
قسطنطنیہ سن 330ء سے 395ء تک رومی سلطنت اور 395ء سے 1453ء تک بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت رہا اور 1453ء میں فتح َِقسطنطنیہ کے بعد سے 1923ء تک سلطنت عثمانیہ کا دار الخلافہ رہا۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد فاتح نے اس شہر کا نام اسلام بول رکھا مگر ترکوں کو اسلام بول بولنے میں مشکل ہوتی تھی تو وہ اسے استنبول کہتے تھے اس وجہ سے اس کا نام استنبول پڑا۔ شہر یورپ اور ایشیا کے سنگم پر شاخ زریں اور بحیرہ مرمرہ کے کنارے واقع ہے اور قرون وسطی میں یورپ کا سب سے بڑا اور امیر ترین شہر تھا۔ اس کا موجودہ نام استنبول ہے۔
اب یہ سمجھنے کے لیے کہ قسطنطنیہ یعنی موجود استنبول یعنی تُرکی کا حصہ کیسے فتح ہوگا اس پہ قبضہ کیسے ہوگا گریٹر اسرائیل کے بارے میں جانیں گے؟
پوری تفصیل تو ان شاءاللہ “گریٹر اسرائیل” کے حصے میں لکھوں گا لیکن کچھ قسطنطنیہ تک کا آگاہ کردیتا ہوں. اسرائیل فلسطین کے کافی حصے کو، اسکے ساتھ لبنان، شام، اردن،عراق، کویت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اومان، یمن، تُرکی کا ایک بڑا حصہ، دریائے نیل کے مشرقی علاقے کو اسرائیل اپنا علاقہ کہتا ہے اور اس حصے کو پانے کے لیے دُنیا بھر میں جنگیں کروائی جارہی ہیں.
ان تمام ممالک میں ان کےلیے ایک ہی خطرہ تھا اور وہ تھا عراق جسے امریکہ نے اپنے ناجائز بچے اسرائیل کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے نام پر برباد کرڈالا۔ شام اور یمن میں جنگ چل رہی ہے.
کویت، اومان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات شاید جنگ کے بغیر اسرائیل کی جیب میں ہیں۔ نیل یعنی مصر کا علاقہ تو مصر میں اس وقت سیسی کی حکومت ہے جو کہ ایک بہترین مسلمان حکمران محمد مرسیؒ کا تختہ اُلٹ کر خود حکمران بنا۔ یہ جنرل سیسی امریکا کا پالتو ہے۔
اردن میں سیاسی دھماءچوکڑی مچا کر منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اپنی مرضی کا حکمران لا بٹھایا گیا۔ لبنان اسرائیل کے نشانے پر ہے.
تُرکی میں اب تک اسلام دشمن قوتوں حکمران تھیں جنہوں نے ترکی میں اسلام کا تصور ہی ختم کرکے ترکی کو ایک سیکولر اسٹیٹ بنادیا تھا اس کے حوالے میں نے ایک تحریر بھی لکھی تھی جس میں تُرکی میں ایک عظیم زلزلے کی داستان لکھی تھی جس رات تُرکی کے ایک فوجی اڈے میں اسلام کو نعوذ باللہ ختم کرنے کے لیے یہودی اور تُرکی کے اسلام دشمن جنرلز اور حکومت منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ یہ تحریر 2016 میں لکھی تھی پی ڈی ایف میں موجود ہے لنک تحریر کے آخر میں موجود ہے ڈاؤنلوڈ کرکے پڑھ سکتے ہیں۔
خیر اس وقت بھی جب ایک اچھے اور سچے مسلمان جناب طیب اردگان کی تُرکی پہ حکمرانی ہے تو آئے روز انکے خلاف کوئی نہ کوئی سازش سر اُٹھاتی رہتی ہے اس کی بڑی وجہ ان کی فوج میں موجود سیکولر سوچ رکھنے والے جنرل کی ہے جنہوں نے کچھ وقت قبل انکی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی تھی جس میں اسرائیل اور امریکہ کا ہاتھ سامنے آیا تھا اور وہ لوگ جو اس سازش میں شامل تھے ان کو آجکل امریکہ میں پناہ حاصل ہے۔ خیر اسوقت حالات کچھ اور ہیں لیکن گریٹر اسرائیل میں تُرکی کا بھی علاقہ شامل ہے جس کی طرف اسرائیل بڑھے گا آگے کیا ہوگا اللہ پاک ہی بہتر جانتے ہیں۔اس تُرکی تک اسرائیل پہنچے گا تو حضرت امام مہدی اسی قسطنطنیہ کو فتح کریں گے۔
آج یہ بات میں بڑے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ جو ممالک اسرائیل کی جیب میں ہیں ان کو پسِ پردہ پیغام پہنچایا گیا ہے کہ یا تو خود ہی جیب میں آجاؤ یا جنگ کے لیے تیار رہو۔
یہودیوں کا ماننا ہے کہ جب تک گریٹر اسرائیل کا قیام نہیں ہوگا تب تک ان کا مسیحا دجال نہیں آئے گا اس لیے یہودی گریٹر اسرائیل کا منصوبہ جلد از جلد پورا کرنا چاہتےہیں۔
اسی قسطنطنیہ کی فتح کے بعد دجال کا خروج ہوگا اور ہم پڑھتے سُنتے آئیں ہیں کہ دجال انتہائی غضب ناک ہوکر نکلے گا سارے رازوں کا مالک اللہ پاک ہے میری ناقص عقل یہی کہتی ہے کہ دجال حضرت امام مہدی کی تشریف آوری کے بعد پہ در پہ ہونے والی شکست کے سبب غضبناک ہوکر نکلے گااور قسطنطنیہ وہ آخری پڑاؤ ہوگا جو گریٹر اسرائیل کے ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے اسکی شکست اور گریٹر اسرائیل کا خواب ادھورا رہ جانا دجال کو غضبناک کرے گا جس کے بعد وہ باولے کتےکی طرح پاگل ہوکر باہر نکلے گا۔