حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا

مکّے کے سنگلاخ پہاڑوں کے عقب میں 85 کلومیٹر مشرق کی جانب طائف کی سرسبز و شاداب وادی سے ذرا آگے بنی ہوازن کا علاقہ تھا جہاں قبیلہ بنی سعد آباد تھا۔ عرب کا یہ قدیم قبیلہ اپنی فصاحت و بلاغت اور شیریں کلامی کی بنا پر حجاز میں معروف تھا۔ 

یہ لوگ نہ صرف خود فصیح و بلیغ عربی بولتے بلکہ اس زبان کے محافظ اور معلّم بھی تھے۔ اسی خُوبی کی بنا پر عرب کے صاحبِ حیثیت شہری اپنے بچّوں کو ذہنی و جسمانی تربیت اور خالص عربی زبان سیکھنے کی غرض سے ایک خاص مدّت تک اس قبیلے کی خواتین کے حوالے کر دیا کرتے۔ 

یہ رواج اس وقت اس قدر مستحکم تھا کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد دیہات کی غریب عورتیں خود ہی شہر میں آتیں اور جو بچے اس مدت میں پیدا ہوئے ہوتے انہیں ان کے ماں باپ کی مرضی سے ساتھ لے جاتیں۔ سرور کائنات حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس کائنات میں رونق افروز ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سات روز آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے دودھ پلایا۔

 والدہ ماجدہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے چچا ابو لہب کی باندی ثویبہ(اس وقت آزاد ہوچکی تھیں) نے دودھ پلایا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اُن دِنوں ہمارا علاقہ شدید ترین قحط اور خشک سالی کا شکار تھا۔ وہ مئی کا ایک سخت گرم دِن تھا کہ جب ہمارے قبیلے سے خواتین کا ایک قافلہ نوزائیدہ بچّوں کے حصول کے لیے مکّے کی جانب روانہ ہوا۔ اس قافلے میں شامل خواتین میں سے ایک مَیں بھی تھی۔ میرے ساتھ میرا خاوند حارث دُودھ پیتا بچّہ عبداللہ اور میری خستہ حال اور کمزور اونٹنی بھی ساتھ تھی۔ 

میری گدھی نقاہت اور کمزوری کے سبب نہایت سُست رفتاری سے سفر طے کر رہی تھی جس کی بنا پر قافلے کی سب خواتین مجھ سے عاجز تھیں۔ چنانچہ وہ سب مجھ سے پہلے مکّہ پہنچ گئیں۔ اُنھیں سب سے پہلے حرمِ کعبہ کے متولّی اور مکّے کے سردار، عبدالمطلب کے گھر لے جایا گیا لیکن انھوں نے جب بچّے کے یتیم ہونے کا سُنا تو خاطر خواہ انعام و اکرام نہ ملنے کے اندیشے کے پیشِ نظر بچّہ لینے سے انکار کر دیا۔

 یہاں تک کہ جب میری سواری مکّہ پہنچی تو ہمارے قبیلے کی تمام خواتین بچّے حاصل کر چُکی تھیں۔ میں ہوکر واپس جانے ہی والی تھی کہ معلوم ہوا سردار قریش عبدالمطلب کا ایک یتیم پوتا اس دنیا میں آچکا ہے۔

خاوند سے مشورہ کیا کہ اس بچے کا باپ تو دنیا میں ہے نہیں کہ جو اس بچے کی پرورش کے عوض ہماری  مالی مدد کرے البتہ اس کے دادا کی شرافت اور عالی نسبی سے یہ توقع ہے کہ خدا اس بچہ کے طفیل ہماری بہتری کی صورت کردے۔ شوہر نے کہا خالی ہاتھ جانا اچھا معلوم نہیں ہوتا کچھ مضائقہ نہیں کہ اس بچے کو ساتھ لے لیں۔ انہیں کیا خبر تھی کہ یہ بچہ دین و دنیا کا سردار ہے اور اسے دودھ پلا کر وہ ابدی سعادت و عظمت حاصل کرنے والی ہیں۔

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرتی ہیں جب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آئی تو میں نے دیکھا کہ جس کمرہ میں آپؐ  تشریف فرما تھے وہ کمرہ چمک رہا تھا

 میں نے حضرت آمنہ سے پوچھا کیا آپ نےاس کمرہ میں بہت سے چراغ جلا رکھے ہیں تو حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا نہیں بلکہ یہ ساری روشنی میرے لخت جگر کی ہے حلیمہ سعدیہؓ فرماتی ہیں میں اندر گئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کو دیکھا کہ آپ سیدھے لیٹے ہوۓ سو رہے ہیں اور اپنی مبارک ننھی انگلیاں چوس رہےہیں

 میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن جمال دیکھا تو فریفتہ ہو گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میرے بال بال میں رچ گئی۔ پھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سرانور مبارک کے پاس بیٹھ گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگانے کے لیے ہاتھ بڑھایا

تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھیں کھولیں اور مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے۔ میں نے دیکھا کہ اس نور بھرے منہ سے ایک ایسا نور نکلا جو آسمان تک پہنچ گیا پھر میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا کر بہت پیار کیا پھر آپ کو لے کر واپس چلنے لگی تو عبدالمطلب نے زاد راہ کے لیے کچھ دینا چاہا تو میں نے کہا اس بچے کو پا لینے کے بعد اب مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔

 حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب میں اس کو گود میں لے کر باہر نکلی اور اپنی سواری پر بیٹھی تو میری کمزور سواری میں بجلی جیسی طاقت پیدا ہو گئی کہ وہ بڑی بڑی توانا اونٹنیوں کو پیچھے چھوڑنے لگی سب حیران رہ گۓ کہ حلیمہ سعدیہؓ کی سواری میں یہ طاقت کیسے آ گئی؟ چونکہ ان دنوں عرب میں قحط اور خشک سالی تھی اس وجہ سے جانوروں کے تھنوں میں دودھ سوکھ گیا تھا۔

 خود عورتوں کو بھی دودھ بڑی مشکل سے اترتا تھا اور ان کے بچے بھوک سے بلبلاتے تھے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ اپنا بھی ایک شیرخوار بچہ تھا یہ بھی بھوکا پیاسا ہروقت روتا رہتا تھا حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جس دن میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو گود میں لیا ہماری حالت یکسر بدل گئی۔ 

میری خشک چھاتیوں میں دودھ اتر آیا آج پہلی مرتبہ میرے بچے نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ل شکم سیر ہو کر دُودھ پیا اس کے باوجود دُودھ کم نہ ہوا۔ شوہر کی نظر اونٹنی پر پڑی تو اُس کے سوکھے تَھن دُودھ سے لب ریز تھے۔ جب مکہ سے چلنے لگے تو ہمارا مریل گدھا جو سارے قافلے سے پیچھے چلتا تھا۔

 بہت تیز رفتاری سے چلتا ہوا سارے قافلے سے آگے چلنے لگا۔ میرا خاوند اور قافلے کے دوسرے لوگ بار بار کہتے کہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا خوش قسمت ہے کہ ایسا سعادت مند بچہ اسے مل گیا ہے۔ جب ہم گھر پہنچے تو میرے گھر پر اللہ کی برکتوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے ہمارا پورا علاقہ قحط زدہ تھا اور لوگ بدحال تھے لیکن میرے مال مویشی دُودھ اور چارے سے آسودہ حال تھے۔ 

جب  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک دو برس ہوئی تو حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ کو ساتھ لے کر حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئیں۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہوئیں اور اپنے پیارے بیٹے کو بہت بہت پیار کیا۔ 

ماں کا بچے کو اب جدا کرنے کو جی نہ چاہتا تھا

اُس زمانے میں مکّہ بیماری کی زَد میں تھا لہٰذا ہم نے بے حد اصرار کر کے اُنہیں دوبارہ اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت مانگی سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے صورتحال کو سمجھتے ہوئے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی بات مان لی اور یوں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر سے واپس اپنے قبیلے میں لے کر آگئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چوتھے یا پانچویں سال میں تھے کہ شق صدر کا واقعہ پیش آیا۔ 

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رضاعی بہن بھائیوں کے ساتھ گھر کے قریب ہی ایک جگہ کھیل رہے تھے کہ اچانک حضرت جبرائیل امین تشریف لائے۔ اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لِٹایا، سینہ چاک کیا، دِل باہر نکالا، اُسے سونے کے طشت میں آب زَم زَم سے دھویا اور پھر دوبارہ اپنے مقام پر رکھ کر سینہ بند کر دیا۔ 

جب بہن بھائیوں نے یہ منظر دیکھا تو چیختے چلّاتے گھر پہنچے اور ماں کو بتایا کہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مار دیا ہے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا اور اُن کے شوہر دوڑتے ہوئے وہاں پہنچے تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحیح سلامت بیٹھے ہیں لیکن آپ کا رنگ اُترا ہوا تھا۔ ابھی کچھ ہی دِن گزرے تھے کہ دو یہودی راہب حضرت حلیمہؓ کے پاس آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تفصیل پوچھنے لگے۔

 اُن میں سے ایک نے پوچھا کیا یہ بچّہ یتیم ہے؟ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کو اُن پر کچھ شک ہو گیا تھا چنانچہ جلدی سے بولیں نہیں۔ پھر اپنے شوہر کی جانب اشارہ کر کے کہا یہ اس بچّے کا باپ اور مَیں ماں ہوں۔ راہب بولا اگر یہ بچّہ یتیم ہوتا تو ہم اسے قتل کر ڈالتے۔ نعوذباللہ۔

 حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مَیں نے دیکھا کہ ایک بادل کا ٹکڑا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سایۂ فگن رہتا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر جاتے تو وہ بھی ٹھہر جاتا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تو وہ بھی چلنے لگتا۔ یہ چند معجزات ایسے تھے کہ جن کی بناء پر امّاں حلیمہؓ خوف زدہ ہو گئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے پیشِ نظر آپ کو والدہ کے حوالے کر آئیں۔ اُس وقت عُمرِ مبارک پانچ سال تھی۔ 

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرامؓ سے فرمایا کرتے کہ مَیں تم سب میں زیادہ فصیح ہوں اِس لیے کہ مَیں قریش سے ہوں اور میری زبان بنی سعد بن بکر کی زبان ہے جو عرب کے فصحاء مشہور تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ سے نکاح فرما چُکے تھے اس وقت حضرت حلیمہؓ ملاقات کے لیے تشریف لائیں۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور عزّت و احترام کے ساتھ حضرت خدیجہؓ سے ملوایا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی خستہ حالی دیکھتے ہوئے حال احوال معلوم کیا تو اُنہوں نے خشک سالی اور مویشیوں کے ہلاک ہونے کے بارے میں بتایا۔ اُمّ المومنین حضرت خدیجہؓ کو جب پتا چلا تو اُنہوں نے حضرت حلیمہؓ کو چالیس بکریاں اور سواری کے لیے ایک اونٹ عنایت کیا جو مال و متاع سے لدا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب سامان دے کر اپنی والدہ کو رُخصت کیا۔ ر

سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مسجدِ نبوی میں صحابۂ کرام کے ساتھ بیٹھے تھے۔ کسی نے اطلاع دی کہ ایک بوڑھی عورت ملاقات کی متمنّی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ 

جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بوڑھی عورت کے چہرے پر نظر پڑی تو تیزی سے اُٹھے اور ’’ میری ماں میری ماں‘‘ کہتے ہوئے اُن سے لپٹ گئے۔ پھر اُن کے لیے اپنی چادر بِچھائی اور اُنہیں عزّت و احترام سے بٹھایا۔ اُن کی خُوب خاطر مدارت کی اور بہت سے تحائف کے ساتھ رُخصت کیا  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت تک دروازے پر کھڑے رہے جب تک اُن کی سواری نظروں سے اوجھل نہ ہوگئی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرامؓ کے پوچھنے پر فرمایا یہ میری وہ ماں ہیں جنہوں نے مجھے دو سال تک دُودھ پلایا اور جن کے گھر مَیں نے 5 سال کی عُمر تک قیام کیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی اطلاع قبیلہ بنو سعد تک بھی پہنچ چکی تھی۔ امّاں حلیمہؓ اس خبر پر خوشی سے نہال تھیں اور ایّامِ رضاعت کے دَوران پیش آنے والے واقعات یاد کرتیں اور کہتیں مجھے تو پہلے ہی سے اِس بات کا یقین تھا کہ میری گود میں پلنے والا یہ مبارک بچّہ اللہ کا نہایت مقرّب و برگزیدہ بندہ ہے اور ضرور یہ کسی بہت بڑے منصب پر فائز ہوگا۔ 

جس بچّے کے دُنیا میں رونق اَفروز ہوتے ہی رحمتوں کا نزول شروع ہوگیا ہو وہ ضرور پوری دُنیا کے لیے رحمت ثابت ہوگا۔ اللہ کا شُکر ہے کہ آج میرا وہ یقین سچ ثابت ہوگیا اور اللہ نے میرے فرزند عزیز کو سب سے بُلند و بالا مقام سے نوازا لیکن ابھی تک مَیں نے حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعزازِ عظیم کے بارے میں دُوسروں کی زبانی سُنا ہے مگر اب مجھ سے صبر نہیں ہوتا۔ مَیں اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھوں گی جب تک خود اُن کی خدمتِ اقدسؐ میں حاضر ہو کر دینِ محمّدیؐ نہ اختیار کر لوں

چنانچہ اُنہوں نے اپنے بچّوں اور شوہر کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کا قصد کیا اور وہاں پہنچ کر سب مشرف بہ اسلام ہوگئے۔

 ان میں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی صاحب زادی حضرت شیماؓ بھی شامل تھیں۔ موّرخین لکھتے ہیں کہ حارث جب اپنے اہل و عیّال کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے مکّہ تشریف لائے تو اہلِ قریش نے اُنہیں دیکھ کر کہا اے حارث! کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارا بیٹا کیا کہتا ہے؟ اُنہوں نے پوچھا وہ کیا کہتے ہیں؟ کفّار نے کہا وہ ہمارے خداؤں کو بُرا کہتا ہے۔ ایک اللہ اور جنّت، دوزخ کی بات کرتا ہے۔

اس نے ہمارا اتحاد پارہ پارہ کر کے تفرقہ ڈال دیا ہے۔ حارث حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میرے بیٹے ! آپ کی قوم جو شکوہ کر رہی ہے کیا وہ سچ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ صرف وہ سچ ہے بلکہ روزِ قیامت آپ خود بھی دیکھیں گے۔

 حارث پر اِس گفتگو کا اِس قدر اَثر ہوا کہ فوراً کلمہ پڑھ لیا اور تبلیغِ دین میں مصروف ہوگئے۔ غزوہ حنین میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن شیما شیما کے خاوند گرفتار ہوئے تو آپ آئیں اور صحابہ کرام سے فرمایا مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہن ہوں۔ یہ سُن کر لوگ اُنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں اپنےسامنے دیکھ کر جلدی سے اُٹھے اپنی چادر زمین پر بِچھائی اور بہن کو اپنے پاس بِٹھا کر دیر تک بچپن کی یادیں تازہ کرتے رہے۔

یہ وہی بہن تھیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر وقت گود میں لیے پِھرتی رہتی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں مدینہ منوّرہ میں رہنے کی پیش کش کی لیکن اُنہوں نے اپنے گھر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں بہت سا مال اونٹ اور بھیڑ،م بکریاں تحفے میں دیں اور عزّت و احترام کے ساتھ گھر روانہ کر دیا۔

 رضاعی ماں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا سے مقدّس رشتے ہی کا احترام تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ حنین کے دَوران قید کیے گئے قبیلہ بنو ہوازن کے چھے ہزار قیدی رہا کر دیے اور بے شمار مالِ غنیمت واپس کر دیا۔ اِس لیے کہ وہ سب امّاں حلیمہؓ کے رشتے دار ہونے کے ناتے آپ کے بھی رضاعی رشتے دار تھے۔حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا  وہ جلیل القدر خاتون تھیں جن کو حاصل ہونے والی سعادت پر پوری تاریخ اسلام ہمیشہ رشک کرتی رہے گی۔

Leave a Comment