حضرت سعید بن عامر
Table of Contents
عظمتوں کی مسند پر بیٹھنے والےوہ حمص کا گورنر جسے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے گورنر بنایا اور جس کی حالت یہ تھی کہ سارا مال اللہ کے راستے میں خرچ کر دیتا اور جب حمص والوں نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے اپنے گورنر کی شکایت کی تو عقدہ کھلا کہ حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ تو عظمتوں کی مسند کا شہسوار ہے، اللہ اکبر کبیرا
کبھی ہمارے حکمران یوں بھی تھے اور ان کے گورنر بھی ایسے تھے کہ تقویٰ کی انتہا کو پہنچے ہوئے اور پھر شاگرد بھی سیدالاولین و الاخرین صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوں ؟ اللہ اللہ
سیدالاولین و الاخرین صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے صحابہ ہی آسمان پر چکمتے ستاروں کی مانند ہیں جیسے آسمان پر ستارے چھوٹے و بڑے اور دور و نزدیک دکھائی دیتے لیکن ہیں سبھی روشن یہی حال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے کہ ہیں سبھی فضیلت والے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پاچکنے والے، الحمدللہ
انہی فضیلت والے خیرالقرون کے ایک ایسے ستارے کی زندگی کے چند درخشاں پہلو جو ہمیں سوچنے پر مجبور کردے کہ واقعی صحابہ عظمتوں کی مسندوں پر بیٹھنے والی ہستیاں تھیں اور انکا واقعہ جب بھی پڑھا آنکھوں نے اشک بہانے شروع کر دیئے اور خاص طور پر صحابہ اور اسلاف کے واقعات عجیب کیفیت پیدا کردیتے ہیں
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جناب حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کوشام میں حمص کا گورنر مقرر فرمایا۔انہوں نے اس کے جواب میں فرمایا۔‘اے عمر رضی اللہ عنہ! اللہ کا واسطہ ہے،مجھے اس آزمائش میں نہ ڈالئے ‘‘۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر خفا ہو کر فرمایا۔‘‘بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم نے خلافت کا بار تنہا میری گردن پر ڈال دیا اور خود اس سے الگ تھلگ ہونے کی کوشش کر رہے ہو،خدا کی قسم میں چھوڑنے والا نہیں ‘‘۔‘‘کیا ہم تمھارے لئے کچھ معاوضہ مقرر نہ کردیں؟ـ‘‘
اس پر حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا۔‘‘امیر المومنین ! میں معاوضہ لے کر کیا کروں گا۔بیت المال سے جو کچھ ملتا ہے وہ بھی میری ضرورت سے زیادہ ہے۔یہ کہا اور حمص کی طرف چل دئے۔
کچھ عرصے بعد اہلیان حمص میں سے قابل اعتماد افراد پر مشتمل ایک وفد امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
آپ نے وفد کو حکم دیا۔
‘تم لوگ مجھے ان افراد کے نام لکھ کر دو جو تم میں مفلس و نادار ہیں تاکہ میں ان کی مالی مدد کرسکوں ۔وفد نے آپ کی خدمت میں ایک دستاویز پیش کی ۔
آپ کیا دیکھتے ہیں کہ اس فہرست میں حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کا نام بھی درج ہے ۔
آپ نے دریافت فرمایاـ‘‘کون سعید بن عامر ؟
انہوں نے بتایاـ‘‘ہمارا گورنر۔‘‘فرمایاـ‘‘آپ کا گورنر مفلس ہےـ
انہوں نے کہا جی ہاں خدا کی قسم ! کئی کئی دن ان کے چولہے میں آگ نہیں جلتی ۔
یہ سننا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بے اختیار رو پڑے اور اتنے روئے کہ آپ کی ڈاڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی۔
آپ اٹھے اور ہزار دینار لئے اور ان کو ایک تھیلی میں بھر کر فرمایاـ
‘‘اس سے میرا سلام کہنا اور یہ پیغام دینا کہ امیر المومنین نے یہ تھیلی تمھارے لئے بھیجی ہے تا کہ اس سے تم اپنی ضروریات کو پورا کر سکو۔‘‘
یہ وفد حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنیہ کے ہاں تھیلی لے کر آیا۔
آپ نے دیکھا کہ اس میں تو دینار ہیں تھیلی کو اپنے سے دور ہٹا کر بس یہ کہنے لگے ـ
’’ انا للہ وانا الیہ راجعون ‘‘ گویا کوئی بپتا نازل ہو گئی یا کوئی ناگوار واقعہ پیش آگیا۔
یہ کیفیت دیکھ کر آپ کی بیوی گھبرائی ہوئی اٹھی اور کہنے لگی ـ
‘‘میرے سر کے تاج! کیا سانحہ رونما ہوگیا ہے!کیا امیر المومنین وفات پا گئے؟
آپ نے فرمایا ـ نہیں ،
بلکہ یہ بات کہیں زیادہ اہم ہے۔
اس نے پوچھا ـکیا کسی معرکہ جہاد میں مسلمانوں کو کوئی صدمہ پہنچا؟
آپ نے فرمایاـ اس سے بھی بڑی بات۔
اس نے عرض کی ـبھلا اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی ہے؟
فرمایا: ‘‘میرے ہاں دنیا در آئی تاکہ میری آخرت بگاڑ دے ۔میرے گھر فتنہ ابھر آیا۔‘‘
اس نے عرض کیـا‘‘کیوں نہ آپ اس فتنہ سے گلو خلاصی کرلیں ۔اسے دیناروں کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔
انہوں نے فرمایا:‘‘کیا اس سلسلہ میں میری مدد کرو گی؟‘‘ عرض کی :جی ہاں ،کیوں نہیں۔
آپ نے دینار متعدد تھلییوں میں بند کئے اور غریب مسلمانوں میں تقسیم کر دیے۔
اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دیار شام تشریف لائے۔ مقصد یہ تھا کہ اس علاقہ کے حالات معلوم کر سکیں۔ان دنون حمص کا نام کویفہ پڑ گیا تھا جو لفظ کوفہ کی تصغیر ہے۔یہ نام اس لئے مشہور ہوا کہ یہاں کہ لوگ عمال حکومت کے خلاف شکوہ شکایت کرنے میں اہل کوفہ سے بہت حد تک مشابہت رکھتے تھے۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری حمص میں ہوئی تو یہاں کے لوگ آپ کو سلام کرنے کی خاطر حاضر ہوئے۔
آپ نے دریافت فرمایا: ‘‘تم نے اپنے امیر کو کیسا پایا؟‘‘
انہوں نے اس کی شکایت میں زبان کھولی اور ان کے طرز عمل کے بارے میں چار باتیں کہیں،جو ایک دوسری سے بڑھ چڑھ کر تھیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے گورنر اور شکایت کرنے والوں کو ایک ساتھ طلب کیا اور اللہ تعالٰی سے دعا کی حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کے بارے وہ میرے گمان کو جھوٹا نہ ہونے دے۔
مجھے اس پر بہت اعتماد تھا۔‘‘جب یہ لوگ اور ان کا گورنر بوقت صبح میرے پاس آئے تو میں نے دریافت کہ تمہیں اپنے گورنر سے کیا گلہ ہے؟
انہوں نے بتایا کہ یہ دن چڑھے تک گھر سے نہیں نکلتے ۔ اس پر میں نے پوچھا سعید! تم اس سلسلے میں کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘
حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ چند لمحے خاموش رہے ،پھر کہا: ‘‘بخدا میں اس سلسلہ میں کچھ کہنا نا پسند کرتا تھا،لیکن اب اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں کہ میں حقیقت حال صاف صاف بیان کر دوں۔
صورت حال یہ ہے کہ گھر میں میرے پاس کوئی خادم نہیں۔میں صبح سویرے اٹھتا ہوں اور اہل خانہ کے لئے آٹا گوندھتا ہوں۔پھر تھوڑی دیر تک انتظار کرتا ہوں تاکہ آٹے میں خمیر پیدا ہوجائے بعد ازاں ان کے لئے روٹی پکاتا ہوں۔پھر وضو کر کے لوگوں کی خدمت کے لئے گھر سے نکل کھڑا ہوتا ہوں۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا ‘‘کہ تمھیں ان کے خلاف اور کیا شکایت ہے؟‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ رات کے وقت کسی کی نہیں سنتے۔میں نے کہا :سعید! اس اعتراض کا تمہارے پاس کیا جواب ہے؟
فرمایا بخدا، میں اس امر کا اظہار بھی نا پسند کرتاہوں ۔
مختصرا یہ عرض ہے کہ میں نے دن ان کے لئے وقف کر رکھا ہے اور رات اللہ عزوجل کی عبادت کے لئے۔‘‘
میں نے پوچھا : ‘‘آپ کو ان کے خلاف اور کیا شکایت ہے؟‘‘
وہ بولے‘‘مہینہ میں ایک دن غفلت سے کام لیتے ہیں؟‘‘
میں نے دریافت کیا:‘‘سعید!یہ کیوں؟‘‘
حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المومنین !میرے پاس نہ تو کوئی خادم ہے نہ ان کپڑوں کے سوا میرے پاس کپڑوں کا کوئی جوڑا ہے۔اس وقت جو کپڑے میں نے پہن رکھے ہیں، مہینے میں ایک مرتبہ دھوتا ہوں۔پھر منتظر رہتا ہوں کہ یہ خشک ہوجائیں۔جب یہ خشک ہو جاتے ہیں تو میں انہیں کو پہن کر دن کے آخری حصے میں ان کا سامنا کرتا ہوں۔‘‘
پھر میں نے دریافت کیا: ‘‘کوئی اور شکایت؟
‘‘ انہوں نے کہا: ‘‘مجلس میں بیٹھے بیٹھے کبھی کبھی ان پر غشی طاری ہو جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اہل مجلس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔
میں نے پوچھا :‘‘سعید! یہ کیا بات ہے؟‘‘
حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا:‘‘میں نے حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا منظر بچشم خود دیکھا ہے ۔
میں اس وقت مشرک تھا ۔میں نے دیکھا کہ قریش اس کی بوٹیاں کاٹ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ۔
‘‘کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تمھاری جگہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں؟‘‘
حضرت خبیب رضی اللہ عنہ جواب میں کہتے ہیں:‘‘اللہ کی قسم!میں یہ ہر گز پسند نہیں کرتا کہ میں تو اپنے اہل و عیال میں اطمینان سے رہوں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم میں ایک کانٹا بھی چبھنے پائے جب بھی وہ دن مجھے یاد آتا ہے ،سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ میں نے اس دن ان کی کیوں مدد نہ کی۔ڈرتا ہوں کہ شاید اللہ تعالیی میرا یہ جرم معاف نہ کرے۔اس کے بعد مجھ پر غشی طاری ہو جاتی ہے۔
یہ سنا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
‘‘اللہ کا شکر ہے کہ جس نے حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کے بارے میں میرے حسن ظن کو غلط ثابت نہیں کیا۔‘‘اس کے بعد آپ نے ایک ہزار دینار بھیجے تاکہ ان سے اپنی ضروریات پوری کر لیں۔
جب یہ دینار حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے دیکھے تو کہہ اٹھی کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں آپ کی خدمات سے بے نیازی بخشی۔ہمارے لئے ضرورت کی اشیا خرید لیجئے اور گھر کے کام کاج کے لئے ایک خادم رکھ لیجئے۔
اس پر آپ نے بیوی سے فرمایا:‘‘میں تجھے وہ چیز نہ دوں جو اس سے بھی بہتر ہو؟‘‘
بیوی نے کہا:‘‘بھلا وہ کیا؟‘‘
‘‘یہ دینار ہم اس کو لوٹا دیں جو ہمارے پاس لایا ہے ۔ہم ان دیناروں سے کہیں زیادہ اس کے محتاج ہیں ۔
بیوی نے کہا :‘‘وہ کون؟
فرمایا‘‘کیوں نہ ہم اللہ تعالٰی کو قرض حسنہ دے دیں؟‘‘
بیوی نے عرض کی :‘‘آپ نے بجا ارشاد فرمایا
اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
آپ نے اسی مجلس میں دیناروںکو مختلف تھیلیوں میں رکھا اور اپنے اہل خانہ میں سے ایک شخص کو حکم دیاکہ جاؤ ،فلاں کی بیوی ،
فلاں کے یتیم بچوں اور فلاں خاندان کے مساکین اور فلاں قبیلہ کے محروموں میں تقسیم کر آو۔‘‘
اللہ تعالٰی نے حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کو سند رضا سے نوازا ۔آپ ان لوگوں میں سے تھے جو دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں۔چاہے خود گھاٹے میں رہیں۔ اللہ ان سے راضی اور وہ اپنے رب سے راضی!
اقتباس : حیات صحابہ کے درخشآں پہلو از عبدالرحمٰن رافت الباشا رحمہ اللّٰه
خیرالقرون
تذکرہ_خیرالقرون
فضائل_صحابہ
مدحت_صحابہ
عظمت_صحابہ
اک_تمنا_لاحاصل_سی