حضرت عثمان بن عفان ؓ
Table of Contents
عنوان: خلافت کیلئے انتخاب
خلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب ؓ نے قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعدچھ حض
رات کے نام تجویزکرتے ہوئے (جن میں اقرباء پروری کے شا ئبہ سے بچنے کیلئے اپنے بیٹے عبداللہ ٗنیزاپنے بہنوئی حضرت سعیدبن زیدؓ کوشامل نہیں کیاتھا) یہ وصیت کی تھی کہ یہی چھ افرادباہم مشاورت کے بعدآپس میں سے ہی کسی کومنصبِ خلافت کیلئے منتخب کرلیں …‘‘وہ چھ افرادیہ تھے:
۱۔حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ۔ ۲۔حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۔
۳۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ۔۴۔حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ۔۵۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ ۔۶۔حضرت زبیربن العوام رضی اللہ عنہ۔
نیزاس موقع پریہ تاکیدبھی فرمائی کہ ان چھ حضرات میں سے کسی ایک کے انتخاب کایہ کام زیادہ سے زیادہ تین دن کی مدت میں بہرصورت طے پاجائے،تاکہ معاملہ طول نہ پکڑ نے پائے…اوریوں منافقین اورخفیہ دشمنوں کوکسی سازش کاموقع نہ مل سکے۔
چنانچہ حضرت عمربن خطاب ؓ کی شہادت کے فوری بعدان چھ حضرات میں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے اپنی دستبرداری کااعلان کردیا،البتہ اس عزم کا اظہار کیاکہ وہ اس سنگین ترین معاملے کی مسلسل خودنگرانی کرتے رہیں گے (۱)لہٰذااب انہوں نے مسلسل ان پانچ افرادکے ساتھ ملاقاتوں کاسلسلہ شروع کیا
…توابتداء میں ہی حضرت سعدبن ابی وقاص ؓ نے منصبِ خلافت کی عظیم ذمہ داری قبول کرنے سے معذرت کرلی…پھررفتہ رفتہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ نے اورپھرحضرت زبیربن العوام ؓ نے بھی معذرت کااظہارکیا…جس پرعبدالرحمن بن عوف ؓ مسلسل حضرت عثمان بن عفان ؓ اورحضرت علی بن ابی طالب ؓ سے ملاقاتیں کرتے رہے،لیکن ان دونوں حضرات کی جانب سے کوئی واضح جواب نہ مل سکا… حضرت عمربن الخطاب ؓ کی طرف سے مقررکردہ تین دن کی مہلت تیزی کے ساتھ اختتام پذیرہورہی تھی
…تب آخرعبدالرحمن بن عوف ؓ نے مہاجرین وانصارمیں سے اکابرصحابہ کارجحان معلوم کرنے کی غرض سے بارباران کی جانب رجوع کیا،تب اکثریت کارجحان حضرت عثمان بن عفان ؓ کی جانب نظرآیا،جس پرآخریکم محرم سن ۲۴ہجری مسجدنبوی میں نمازکے وقت جب تمام اکابرِصحابہ جمع تھے،حضرت عثمان بن عفان ؓ نیزحضرت علی بن ابی طالب ؓ بھی موجودتھے
، تب حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے معاملے کی نزاکت کی جانب توجہ دلاتے ہوئے مسلمانوں کیلئے جلدازجلدکسی خلیفہ کے انتخاب کی ضرورت واہمیت کے بارے میں مختصرتقریرکی،اس بارے میں حضرت عمربن خطاب ؓ کی اس تاکیدی وصیت کاحوالہ بھی دیاکہ ’’یہ اہم ترین معاملہ فقط تین دن کی مدت کے اندرطے پاجاناچاہئے‘‘۔
اورپھراس سلسلے میں اپنی بھرپورکوشش اورجدوجہدکا ٗ نیزاکابرِ صحابہ کے ساتھ اپنی طویل ملاقاتوں اورمسلسل مشاورت کاتذکرہ بھی کیا،اورپھرفرمایاکہ’’ اس تمامترکوشش اورتگ ودوکے نتیجے کے طورپرجوصورتِ حال سامنے آئی ہے وہ یہ کہ اکثریت کارجحان حضرت عثمان بن عفان ؓ(ؓ )کی جانب ہے…‘‘
یہ کہنے کے بعدحضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اپنی جگہ سے اٹھے اورحضرت عثمان بن عفان ؓ کے سامنے پہنچ کر ان کے ہاتھ پربیعت کی،اورپھرحضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ودیگرتمام مسلمانوں نے بھی بیعت کی…یوں حضرت عثمان بن عفان ؓ کومسلمانوں کے خلیفۂ سوم کی حیثیت سے منتخب کیاگیا۔
کارنامے اورخدمات: توسیعِ مسجدِ نبوی
مدینہ شہرکی آبادی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے نمازیوں کیلئے مسجدِ نبوی ناکافی پڑنے لگی تھی،جس پرحضرت عثمان بن عفان ؓ نے اس کی توسیع کافیصلہ کیا۔چنانچہ یہ کام مسلسل دس ماہ جاری رہا،اس دوران حضرت عثمانؓ اس مقدس کام کی بذاتِ خودنگرانی کرتے رہے اورشب وروزمصروف رہے،آخراینٹ ٗچونے ٗاورپتھرکی یہ نہایت خوشنما اور مستحکم عمارت تیارہوگئی۔