امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت

امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت

امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت

فارسی کے غلام ابو لولو مالک حضرت مغیرہ کے ذریعہ وصول کردہ زیادہ ٹیکس کے بارے میں حضرت عمر کے سامنے شکایت لایا۔ حضرت عمر نے حضرت مغیرہ کو خط لکھ کر ٹیکس کے بارے میں دریافت کیا۔ مغیرہ کا جواب اطمینان بخش تھا ، لیکن حضرت عمر کا خیال تھا کہ ابو لولو سے اس کی روزانہ کی آمدنی کی وجہ سے وصول کیا جانے والا ٹیکس معقول تھا۔ اس کے بعد حضرت عمر نے ابو لولو سے پوچھا ہے: “میں نے سنا ہے کہ آپ ونڈ ملز بناتے ہیں میرے لئے بھی ایک بنائیں۔” ابو لولو نے کہا ، “بے شک میں تمہارے لئے ایسی چکی بناؤں گا ، کہ ساری دنیا اسے یاد رکھے”۔

31 اکتوبر 644 کو ، ابو لولو نے اس وقت امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ -فارسی کے غلام ابو لولو مالک حضرت مغیرہ کے ذریعہ وصول کردہ زیادہ ٹیکس کے بارے میں امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ -فارسی کے غلام ابو لولو مالک حضرت مغیرہ کے ذریعہ وصول کردہ زیادہ ٹیکس کے بارے میں حضرت عمر کے سامنے شکایت لایا کے سامنے شکایت لایا پر حملہ کیا جب وہ صبح کی نماز کی امامت کررہا تھا ، اس نے پیٹ میں اور آخر میں ناف میں چھ بار چھرا گھونپا ، جو جان لیوا ثابت ہوا۔ حضرت عمر کو شدید خون بہہ رہا تھا جبکہ ابو لولو نے فرار ہونے کی کوشش کی ، لیکن ہر طرف سے لوگ اسے پکڑنے کے لئے پہنچ گئے۔ فرار ہونے کی کوششوں میں اس نے بارہ دیگر افراد کو زخمی کرنے کی اطلاع دی ہے ، جن میں سے چھ یا نو بعد میں اس کی شہادت ہوگئی ، اس سے پہلے کہ وہ خود کشی کرنے کے لئے اپنے ہی بلیڈ سے ٹکرا گیا۔

امیرالمومنین امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ -فارسی کے غلام ابو لولو مالک حضرت مغیرہ کے ذریعہ وصول کردہ زیادہ ٹیکس کے بارے میں حضرت عمر کے سامنے شکایت لایا قاتلانہ حملے میں خنجر گھونپنے سے شدید زخمی ہوئے مسجد سے امیرالمومنین امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت -فارسی کے غلام ابو لولو مالک حضرت مغیرہ کے ذریعہ وصول کردہ زیادہ ٹیکس کے بارے میں امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ -فارسی کے غلام ابو لولو مالک حضرت مغیرہ کے ذریعہ وصول کردہ زیادہ ٹیکس کے بارے میں حضرت عمر کے سامنے شکایت لایاکے سامنے شکایت لایا کو گھر لے جایا گیا۔ جب امیرالمومنین عمر ہوش آیا تو اس نے پوچھا کہ اس کا قاتل کون ہے۔ اسے بتایا گیا کہ اس کا قاتل فارسی کا غلام فیروز تھا۔ اس کے بعد عمر نے کہا ، 

“خدا کا شکر ہے کہ مجھے کسی مسلمان نے قتل نہیں کیا”۔

دودھ آپ کو پلایا گیا تو وہ زخموں سے ہی باہر آگیا. آس پاس کے لوگوں نے ان کی خوبیاں اور عمدہ خصوصیات کے لئے ان کی تعریف کی۔ اس نے ان سے کہا کہ وہ اس کی تعریف نہ کریں۔ انہوں نے کہا:

“ساری تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔ اگر اس دنیا کے سارے خزانے میرے پاس ہوتے تو میں ان کو تاوان کے طور پر پیش کروں گا کہ وہ قیامت کے دن مقدمے سے بچ جائے۔”

پھر اس نے عربی آیت کی تلاوت کی۔

“میں اپنی جان سے ظلم کرتا ہوں ،

سوائے اس کے کہ میں ایک مسلمان ہوں ،

میری دعا کہو اور روزہ رکھو۔ “

اگلا خلیفہ

امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت
امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہادت کے موقع پر اپنے آپ میں سے اگلے خلیفہ کا انتخاب کرنے کے لئے چھ افراد کی ایک کمیٹی تشکیل دی۔ یہ کمیٹی یہ تھی:

* حضرت علی رضی اللہ عنہ

* حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ

* حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ

* حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ 

* حضرت الزبیر رضی اللہ عنہ

* حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ، ان کی وفات کے بعد ، کمیٹی تین دن میں کسی حتمی فیصلے پر پہنچ جاتی ہے ، اور اگلے خلیفہ کو چوتھے دن اپنے عہدے کا حلف اٹھانا چاہئے۔ اگر حضرت طلحہ اس عرصے کے اندر کمیٹی میں شامل ہوا تو اس نے غور و خوض میں حصہ لیا تھا ، لیکن اگر وہ اس عرصے میں مدینہ واپس نہیں آیا تو کمیٹی کے دوسرے ممبر اس فیصلے پر کارروائی کرسکتے ہیں۔ عبد الرحمٰن بن عوف نے ناظم کی حیثیت سے کام کرنے کے لئے خلیفہ مقرر ہونے کی اہلیت کو واپس لے لیا اور کمیٹی کے ہر ممبر کا الگ الگ انٹرویو لے کر اپنے کام کا آغاز کیا۔ انہوں نے ان سے پوچھا کہ وہ کس کے لئے اپنا ووٹ ڈالیں گے۔ جب حضرت علی سے پوچھا گیا تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جب عثمان سے پوچھا گیا تو اس نے حضرت علی کو ووٹ دیا ، زبیر نے علی یا عثمان کے لئے اور حضرت سعد نے عثمان کے لئے کہا۔ 

تب ڈاکٹرنے آپ سے کہا: امیرالمومنین وصیت کیجئے اب آپ زیادہ دیر زندہ نہیں رہیں گے، آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر سے کہا: حذیفہ بن الیمان کو لے آو، حذیفہ بن الیمان وہ جلیل القدر صحابی تھے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کے نام بتادیے تھے اس لیے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز دار کہا جاتاہے، اللہ اور اس کے رسول کے بعد منافقین کے نام صرف حذیفہ کو معلوم تھے.

جس وقت حذیفہ آئے تب بھی خون آپ کے آنتھڑیوں سے بہہ رہا تھا آپ نے حذیفہ سے کہا: حذیفہ تجھے اللہ کا واسطہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین میں میرا بھی نام لیاتھا؟ حذیفہ خاموش رہے مگر آنسو ان کے رخسار پر بہنے لگے پھر کہا: امیرالمومنین مجھ سے ایسے راز کے بارے میں سوال کیوں کرتے ہو جس کو میں فاش نہیں کرسکتا، عمر نے کہا: حذیفہ میں تجھے رسول اللہ کا واسطہ دیتاہوں مجھے یہ بتاو کہ میرا نام تو منافقین میں نہیں؟ حذیفہ روتے ہوئے صرف تمہیں بتاتاہوں کسی اور سے رسول اللہ کے راز کے بارے میں کبھی بات نہیں کروں گا اے امیرالمومنین میرے سامنے تو کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا تذکرہ ان لوگوں کے ساتھ نہیں کیا.

ام المومنین عائشہ صدیقہ کی اجازت

امیرالمومنین نے کہا: اب میری ایک آخری خواہش ہے!

عبد اللہ بن عمر نے کہا: اباجان بتائیے کیا ہے؟ عمر: یہ کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں دفنایا جائے، جاو ام المومنین عائشہ صدیقہ کے پاس جاو امیرالمومنین مت کہو بلکہ یہ کہو کہ تمہارا بیٹا عمر اپنے دونوں ساتھیوں کے قدموں میں دفن ہونے کی اجازت چاہتا ہے.

ام المومنین نے فرمایا: ٹھیک ہے اگرچہ یہ قبر میں نے اپنےلیے تیار کی تھی مگر آج میں اس کو عمر کے لیے چھوڑتی ہوں.

عبداللہ خوش ہوکر واپس آتے ہیں اور عمر کو بتاتے ہیں ام المومنین نے اجازت دے دی پھر دیکھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا رخسار مٹی کے اوپر ہے عبداللہ نے آپ کا سر اٹھا کر اپنے گود میں رکھا تو عمر نے بیٹے کی طرف نظر اٹھائی اور کہا: میرا رخسار مٹی سے کیوں اٹھایا!

عبداللہ: ابا جان!!

عمر: اپنے باپ کے رخسار کو خاک آلود ہونے دو اگر کل اللہ اس کی مغفرت نہ کرے تو یہ عمر ہلاک ہوگا.

اس کہ بعد یہ کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے”اگر حذیفہ بن الایمان نے میرا جنازہ پڑھایا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کی طرف لے جاو پھر دروازے پر کھڑے ہوکر ام المومنین سے کہو: تیرا بیٹا عمر اجازت چاہتاہے امیرالمومنین مت کہو ہو سکتا ہے مجھ سے حیا کی وجہ سے اجازت دی ہو اگر اجازت نہ دے تو مجھے مسلمانوں کی قبرستان میں دفناو”.

“میرے کفن کے اخراجات میں اعتدال رکھو ، بے شک اگر میرے حق میں خدا کی طرف سے کوئی بھلائی ہے تو وہ اس کے بدلے مجھے بدلہ دے گا ، اور اگر میں اور ہوتا تو وہ مجھے ہر چیز سے دور کردے گا۔ میرے پاس ہے اور قبر میں اعتدال اختیار کرو کہ تم میرے لئے کھودو ، بے شک اگر خدا کے حق میں میرے لئے کچھ بھلائی ہو تو وہ اسے میرے لئے وسیع کردیتا ہے ، اور اگر میں اور ہوتا تو وہ میرے لئے تنگ کردیتا ہے۔ میرے جسم کو نچوڑنے کے ۔ اور کوئی عورت میرے جنازے کے ساتھ نہ جانے دے۔ میری تعریف نہ کرو جو مجھ میں نہیں ہے کیونکہ خداوند مجھ کو کیا بہتر جانتا ہے لہذا جب تم مجھے قبر پر لے جاتے ہو تو جلدی کرو جب وہاں ہو خدا کے حق میں میرے لئے کچھ بھی اچھا ہے آپ مجھے اچھائی کی طرف بڑھاؤ گے ، اور اگر میں اور ہوتا تو آپ اپنی گردن سے ایسی برائی ڈال دیں گے جو تم برداشت کرو گے۔

اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا اور دم لیا۔ مرتے ہی اس کے چہرے پر سکون مسکراہٹ تھی۔

عبداللہ نے آپ کی جسد خاکی کو مسجد نبوی میں لایا تو حذیفہ بن الایمان نے آگے بڑھ کر آپ کا جنازہ پڑھایا تو عبداللہ خوش ہوئے اور آپ کی جسد خاکی کو آم المومنین کے گھر کے دروازے پر لایا اور آپ کی وصیت کے مطابق کہا: ام المومنین آپ کا بیٹا عمر دروازے پر آیا ہے داخلے کی اجازت چاہتا ہے.

ام المومنین نے فرمایا: لے آو.

یوں آپ کو آپ کے دو ساتھیوں کے پہلو میں دفنایا گیا.

امیرالمومنین زخموں سے تین دن بعد بدھ 3 نومبر 644 (26 ذی الحجہ 23) کو فوت ہوگیا۔

حضرت علی رضی اللّٰه عنہ

حضرت عبد اللّٰه بن عباس رضی اللّٰه عنھما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن الخطاب رضی اللّٰه عنہ کا جنازہ تخت پر رکھا گیا تو لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے، وہ ان کے حق میں دعا کرتے، تحسین آمیز کلمات کہتے اور جنازہ اٹھائے جانے سے بھی پہلے ان پر صلوٰۃ (یعنی دعا) پڑھ رہے تھے، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا، اچانک ایک شخص نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، میں نے گھبرا کر مڑ کے دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللّٰه عنہ تھے، انہوں نے حضرت عمر رضی اللّٰه عنہ کے لیے رحمت کی دعا کی اور کہا (اے عمر!) آپ نے اپنے بعد کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا جس کے کیے ہوئے اعمال کے ساتھ مجھے اللّٰه تعالیٰ سے ملاقات کرنا پسند ہو بخدا مجھے یقین ہے کہ اللّٰه تعالیٰ آپ کا درجہ آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ کر دے گا، کیونکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم سے بہ کثرت یہ سنتا تھا، ’’میں اور ابوبکر و عمر آئے، میں اور ابوبکر و عمر داخل ہوئے، میں اور ابوبکر و عمر نکلے‘‘ اور مجھے یقین ہے کہ اللّٰه تعالیٰ آپ کو (اسی طرح) آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ رکھے گا

۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔‘‘

الحديث رقم 13: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمربن الخطاب، 3 / 1348، الحديث رقم : 3482، و مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1858، الحديث رقم : 2389، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 112، الحديث رقم : 898، و الحاکم فی المستدرک علی الصحيحن، 3 / 71، الحديث رقم : 4427.

1. تاریخ ابن خلدون ج 3 ص 236 اردو ایڈیشن دار الاشاعت کراچی)جواب: ابن خلدون نے اگرچہ 27 ذی الحجہ کا بتایا ہے مگر بلا سند ہے اور اس کا مضمون تقریبا وہی ہے جو تاریخ طبری کا پہلا قول ہے جس کی سند نہایت کمزور ہے۔

 2. تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنہایہ ج 7 ص 184 اردو ایڈیشن نفیس اکیڈمی کراچی) جواب: حافظ ابن کثیر نے کئی اقوال نقل کر کے پہلے قول ہی کو ترجیح دی ہے جو کہ 1 محرم الحرام کا ہے۔

3۔ امام ابن جوزی فرماتے ہیں کہ 23 ھ، ذوالحجہ کی چھبیس تاریخ بدھ کے روز آپ پر قاتلانہ حملہ ہوااور اتوار کے دن یکم محرم چوبیس ہجری کو دفن کئے گئے۔ آپ کی مدت خلافت دس برس ،پانچ ماہ اور اکیس دن تھی۔

 4. تاریخ کامل کے مصنف نے بھی یہی لکھا ہے کہ ذی الحجہ کی چار راتیں باقی تھیں کہ آپ فوت ہو گئے اور یکم محرم کو دفن ہوئے۔ (الکامل جلد ۳ صفحہ ۵۲)

5. علامہ مسعودی لکھتے ہیں: حضرت عمر کو انکی خلافت کے دوران ہی میں مغیرہ کے غلام ابولولوہ نے قتل کر دیا تھا۔ اس وقت سن ہجری کا ۲۳ واں سال تھااور بدھ کا دن تھا جب کہ ماہ ذی الحجہ کے اختتام میں چار روز باقی تھے۔ (مروج الذہب جلد۲، صفحہ ۲۴۰)

6. اہلسنت جلال الدین سیوطی: ابو عبیدہ بن جراح کا بیان ہے کہ حضرت عمر بدھ کے دن ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ ھجری کو شہید ہوئےاور ہفتہ کے دن محرم کی چاند رات کو دفن کئے گئے۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 139)

7. ابن اثير جزرى اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ “حضرت عمر رضي الله عنه کو جب زخمی کیا گیا تو وہ دن بدھ کا دن تھااور ماه ذو الحج ختم ہونے میں تین دن باقی تھے، اور آپ کی تدفین اتوار کی صبح ہوئی اور اس دن محرم کا پہلا دن تھا ”۔(اسد الغابة في معرفة الصحابة ، ج 4 ص 166)

Leave a Comment