خدائی کا دعویدار حکیم مقنع خراسانی

 ‎،عباسی دور خلافت  خلیفہ مہدی کے زمانے میں ایک شعبدے باز حکیم مقنع خراسانی نے مصنوعی چاند کو اپنا معجزہ قرار دیا،خلیفہ مہدی نے اس فتنے کا قلع قمع کر دیا،اس کی موت کے ساتھ وہ چاند بھی غروب ہوا،بعض نے اسے جادوگر کہا ہے،

حکیم مقنع خراسانی

حکیم مقنع خراسانی

عباسی دور خلافت میں خلیفہ ابو جعفر المنصور (754-775) کے زمانے میں  خراسان کے علاقے مرو کے ایک معمولی گاؤں میں ایک دھوبی کے گھر بیٹا پیدا ہوا۔ نام اس کا ھاشم یا ھشام رکھا گیا لیکن یہ مشہور ابن مقنع کے نام سے ہوا۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ کراہت کی حد تک بد صورت ہونے کے سبب نقاب اوڑھ کر رہتا تھا۔

 مقنع نقاب کو کہا جاتا ہے۔ خراسان کے ایک گاؤں میں دھوبی کے گھر پیدا ہونے کے والے اس شخص کی کوئی پہچان نہیں تھی۔ البتہ اس کی شکل و صورت انتہائی بدشکل اور کریہہ تھی کہ لوگ اس سے کراہت محسوس کرتے تھے اور اس کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ لوگوں کی اس نفرت کے سبب اس کے اندر کے حسد اور احساس کمتری نے اس کو حد سے زیادہ متاثر کیا۔ اس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ لوگ جو اس کو کمتر و بدصورت جانتے ہیں اسے ان لوگوں پر حکمرانی کرنی ہے۔ 

ابن مقنع اپنی جوانی کے زمانے میں گھر چھوڑ کر چلا گیا اور نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھانتا پھرا۔ 

اس دوران اس نے علم کیمیا، جادو، شعبدے بازی اور دیگر علوم و فنون سیکھے اور کئی سال تک اپنے گاؤں سے غائب رہا ۔ خلیفہ مہدی (775-785) کے زمانے میں یہ اپنے گاؤں واپس آگیا۔ یہ ایک دور دراز گاؤں تھا جہاں دین کے معاملے میں جہالت تھی۔ اس نے اپنے جادو اور کیمیا کے علم کے بل بوتے پر لوگوں کو طرح طرح کی شعبدے بازیاں دکھا کر ان کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ 

جب لوگ اس سے بہت زیادہ متاثر ہوگئے تو اس نے پیغمبری کا دعوی کردیا۔ جب خاصے لوگ اس پر ایمان لے آئے تو وہ انہیں لے کر ماورالنہر کے علاقے کش میں پہنچ گیا۔ دشوار گزار پہاڑی راستوں کے درمیان یہ علاقہ اس کے مذموم مقاصد پر پورا اترتا تھا۔وہاں اس نے ایک قلعہ تعمیر کر لیا۔ دور دراز اور دشوار پہاڑی علاقہ ہونےکی وجہ سے جنگ میں اسے مضبوط دفاع حاصل تھا۔

 اس نے وہاں سے گزرنے والے قافلوں کو لوٹنا شروع کردیا اور اپنے پیروکاروں پر  لوٹ مار حلال قرار دے دی اور ان کو حکم دیا کہ وہ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ قلعہ میں ہی رہائش اختیار کریں۔ غرض اس لوٹ مار سے اس نے بہت پیسہ دولت حاصل کرلیا۔ یہ لوگ لوٹ مار کرتے اور پھر قلعہ بند ہوجاتے۔  اس علاقے میں وہ دوردورتک مشہور ہوگیا۔

حکیم مقنع خراسانی
حکیم مقنع خراسانی

لوگ اسے دیکھنے اور اس سے مناظرہ کرنے آتے تھے۔

کہاجاتا ہے کہ اس کو کوڑھ کا مرض بھی لاحق ہوگیا تھا جس کی وجہ سے اس کی ناک اور ہونٹ گل کر جھڑ چکے تھے۔ 

اب اس نے اپنی بدصورتی چھپانےکےلیےسونےکاماسک یا نقاب پہننا شروع کردیا تھا جسے یہ ہر وقت چہرے پر چڑھائے رکھتا تھا۔ اس نے یہ مشہور کردیا کہ توبہ نعوذ باللہ جبرائیل علیہ السلام نخشب کے ایک مقام پر اس سے کلام کرتے ہیں اور اس کو حکمت کی باتیں بتاتے ہیں۔ ان کے حکم کے مطابق عام گنھگار انسان اس کا چہرہ دیکھنے کے روادار نہیں ہیں اس لئے وہ اپنا چہرہ چھپا کر رکھتا ہے۔

بہت سے لوگوں اور بغدادکے علماء نے اسے جھوٹا کہہ کر معجزہ دکھانے کو کہا تو اس نے ایک نقلی چاند بنایا جو نخشب کے علاقے کے ایک کنویں سے طلوع ہوتا تھا ۔ نخشب ترکستان کے ایک شہر کا نام ہے جسے ترکی میں قرشی کہتے ہیں۔ علما و ماہرین کا خیال ہے کہ اس نے ماہِ نخشب بعض فِلزات مثلِ سیماب وغیرہ کی لاگ سے بنا کر نکالا تھا جو دو ماہ تک غروب نہیں ہوتا تھا اور چار فرسنگ یعنی پندرہ میل تک اس کی روشنی پہنچتی تھی۔ یہ چاند سیماب اور چاندی کے اجزائے ترکیبی اور مقنع کے فن شعبدہ بازی کا کمال تھا۔

ضعیف العقیدہ لوگ اسے خدا سمجھ بیٹھے۔ وہ چاند نخشب کے کنویں سے طلوع ہوتا اور تقریباً پندرہ میل کی مسافت کو روشن کرتا تھا۔ یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کیونکہ آج سائنس کی حیرت انگیز ترقی کے باوجود سائنسدان بجلی کے ہوتے ہوئے کوئی ایسا بلب ایجاد نہیں کرسکے ہیں جو اکیلا اتنے بڑے علاقے کو روشن کرسکے۔

اردو ادب میں بھی اسکا ذکر ملتا ہے۔

حکیم مقنع خراسانی کے چڑھائے اس  چاند کی خبر دوردراز تک پہنچ گئ اور لوگ جوق در جوق اس کے پیروکاروں میں شامل ہونے لگے۔ بہت سےلوگ گمراہ ہوئے اور  اس کو سجدہ کرکے خدا مان لیا۔ حکیم مقنع خراسانی کے پیروکار رات میں چاہ نخشب کے گرد جمع ہوجاتے اور پھر مقنع چاہ نخشب سے چاند طلوع کرتا جو کافی بلندی پر جا کر معلق ہوجاتا اور ہر طرف روشنی پھیل جاتی جو میلوں دور تک نظر آیا کرتی تھی۔ اس وقت کے خلیفہ مہدی تک اس  فتنے کی خبر پہنچی تو اس نے اس فتنے کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا

کیونکہ اس وقت وہ خود بہت سے مسائل میں اُلجھا ہوا تھا۔ جن میں ایک بنوامیہ کی بغاوت تھی ۔ دوسری بات یہ کہ اس دور میں اس قسم کے فتنے اکثر سر اٹھاتے رہتے تھے لیکن کچھ عرصے بعد خود ہی ختم بھی ہوجایا کرتے تھے۔ خلیفہ مہدی نے اس کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا  لیکن خلیفہ کی یہ لاپرواہی انتہائی سنگین نوعیت کے نتائج لائی۔

حکیم مقنع خراسانی کافتنہ صرف اس کےعلاقے تک محدود نہیں رہابلکہ دور دور تک پھیل گیا۔  اس کے پیروکار نہ صرف ہر گزرنے والے قافلے کو لوٹنے لگے بلکہ اب ان کی دیدہ دلیری اور بدمعاشی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ یہ قافلوں میں شامل عورتوں اور لڑکیوں کو بھی قید کر کے ان کو اپنی لونڈیاں اور باندیاں بنانے لگے۔ اب ابن مقنع طاقت کے نشے میں سرشار تھا۔  اس نے خدائی کا دعوی کردیا۔

 اس نے علاقے کے حاکموں کوخطوط روانہ کر دیے جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ توبہ نعوذباللہ خدا اسکی ذات میں حلول کر گیا ہے لہٰذہ اس کو خدا تسلیم کیا جائے اور اس کی مکمل اطاعت کے ساتھ ساتھ  نذرانے پیش کیےجائیں۔ ایساہی ایک خط اس نےخلیفہ مہدی کوروانہ کیاجسے پڑھ کرخلیفہ سخت طیش میں آگیا۔ اس کواپنی لاپرواہی کا احساس ہوا اور اس نےجواباً اپنی فوج اس فتنےکی سرکوبی کے لیے روانہ کر دی۔خلیفہ مہدی نے اسے ایک معمولی آدمی سمجھا اور اس کے لئے فوج کے چند دستے روانہ کئے۔ 

یہ خلیفہ کی بہت بڑی بھول تھی ۔ حکیم مقنع خراسانی کی فوج نے خلیفہ کی فوج کو شکست سے دوچار کر دیا۔ اس شکست کے بعد خلیفہ مہدی نے باقاعدہ مکمل تیاری کےساتھ اپنے وزیر معاویہ بن عبداللہ کی سرپرستی میں ایک لشکر اس فتنے کی سرکوبی کے لیے تیار کیا۔ لیکن مقنع کی طاقت اتنی بڑھ چکی تھی کہ یہ لشکر بھی ناکام ہوگیا۔ اب خلیفہ نے معاویہ بن عبداللہ کی مددکےلیے مزید بھرپور اور تازہ دم کمک  بھیجی۔ اس کمک کے پہنچنے کے بعد اسلامی فوج نے دوبارہ مقنع کے قلعے پر حملہ کیا اور کافی مشکلات کے بعد معاویہ بن عبداللہ قلعےکو فتح کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

اپنی شکست دیکھ کر حکیم مقنع خراسانی نےقلعے کوآگ لگادی اور اپنےپیروکاروں کواس میں کودنے کا کہا اور خود قلعے سے فرار ہونےکی کوشش کی۔

یہاں تاریخ کا اختلاف ہے بعض جگہ مورخین نے لکھا ہےکہ اس نے اپنے پیروکاروں کو زہر دے دیا تھا بہرحال قلعے سے فرار ہونے کی ناکام کوشش میں وہ پکڑا گیا۔

حکیم مقنع کی موت کے متعلق بعض مختلف روایتیں ہیں، 

بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان قلعے میں داخل ہو گئے اور انہوں نے مقنع کو قتل کیا۔ 

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس نے پہلے اپنے تمام رفقا اور رشتہ داروں کو زہر پلایا اور پھر خود بھی زہر پی لیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ اس نے ایک گڑھے میں آگ جلوائی اور اور اپنے معتقدین کو جمع کر کے کہا کہ جو لوگ میرے ساتھ فردوس بریں میں رہنا چاہتے ہیں وہ اس آگ میں میرے ساتھ کود جائیں۔ چنانچہ بہت لوگ اس آگ میں کود گئے ان میں حکیم مقنع بھی تھا۔

اس کے خاندان کی ایک عورت جو اس واقعے میں بچ گئی تھی اس کے کہنے کے مطابق مقنع نے ایک بڑی دعوت کی جس میں اس کے خاندان کے تمام افراد، بیویاں، لونڈیاں کنیزیں اور قریبی رفقا شامل تھے سب کو کھانے میں زہر کھلا دیا۔ اس کے بعد اس نے آگ کا ایک گڑھا روشن کر کے اپنی نقاب اتاری اور سر کے بل اس الاؤ میں خود کو جھونک دیا۔ اس عورت کا کہنا تھا کہ اس نے پہلی بار مقنع کو بغیر نقاب کے دیکھا تھا

۔ اس کا چہرہ انتہائی بدنما اور گھناؤنا تھا۔ اس کے سپاٹ گلے سڑے چہرے سے ناک اور ہونٹ گل کر گر چکے تھے۔ اس کی کچھ انگلیاں بھی جھڑ چکی تھیں۔

الیاس سیتاپوری نے اپنے ناول “ چاند کا خدا” میں مقنع خراسانی کے واقعات بڑے بہترین انداز میں بیان کئے ہیں۔

حکیم مقنع خراسانی کے بنائے چاند کے متعلق دور جدید میں ماہرین مختلف تھیوریز پیش کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس نے پارے اور چاندی کے املغم سے کوئی دیوھیکل محدب عدسہ یا کُرؔہ تیار کیا تھا جو چاند کی روشنی کو کئی گنا زیادہ روشن منعکس کرتا تھا۔ کچھ کہتے ہیں کہ اس نے کوئی ایسا میکانکی آلہ تیار کیا تھا جو اس کُرے کو بہت بلندی پر لے جاتا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن عام خیال یہی ہے کہ کچھ علم کیمیا کے ساتھ ساتھ چاہِ نخشب کے اس چاند میں مقنع کی جادوگری، شعبدے بازی اور نظر بندی کا کمال بھی تھا۔ 

چاند کا یہ خدا آٹھ سال( AD 775-785) لوگوں میں اپنی جھوٹی خدائی کے دعوے گھڑتا رہا لیکن بالآخر اپنے انجام کو پہنچا۔

حکیم مقنع خراسانی کی موت کے بعد اس کاچڑھایا ہوا چاند چند دنوں تک آسمان کو روشن کرتا رہا لیکن ایک دن چاہ نخشب میں ڈوب کرٹوٹ گیا اور ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا۔

رہے نام اللہ کا!

شمسی توانائی کے ایک ماہر سائنس دان عباس علی رستم (ایرانی) نے چاہ نخشب کی سائنسی تحقیق “سیکرٹ آف مون آف نخشب” کے عنوان سے لکھی ہے جو کافی دلچسپ ہے- انہوں نے  نیوٹن کے ایک اصول کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق کسی بھی مائع سیال کو ایک خاص رفتار سے گول گھمایا جائے تو وہ روشنی کو کئی گنا بڑھا کر منعکس کرتا ہے- دنیا کی پہلی دوربین بھی اسی اصول کے تحت ایجاد ہوئی تھی-

تاریخ میں درج ہے کہ جب عباسی فوج نخشب پہ غالب ہوئی تو انہیں کنویں میں پارہ سے بھرے ہوئے ایک بڑے برتن کے سوا کچھ نہ ملا- عباس علی رستم کے مطابق نخشب پارہ سے بھرے ہوئے اس برتن کو خُفیہ پلیوں سے گھماتا تھا- کنویں میں آئینے کے ذریعے اصل چاند کا عکس ڈالا جاتا جو منعکس ہو کر اصلی چاند کی روشنی کئی گنا بڑھا کر فضاء میں چاند کی شبیہ پیدا کرتا تھا-

(مختلف کتب، ویب سائٹس اور بلاگز سے مدد لی  ہے۔)

Leave a Comment