سیدہ زینبؓ کا سیرت و کردار

سیدہ زینبؓ کا سیرت و کردار

سیدہ زینبؓ

میدان کربلا میں 10محرم الحرام 61ہجری کے دن اگرکڑیل جوانوں ،بوڑھوں،بچوں،شیر خواروں، مہمانوں،اصحاب محترم اور خاندان رسول اللہ سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیکر تاریخ رقم کی ہے تو اس معرکہ حق و باطل میں خواتین جنہیں عام طور سے صنف نازک کہا اور سمجھا جاتا ہے نے بھی ایسا کردار ادا کیا ہے کہ اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ان خواتین میں بنت علیؓ سیدہ زینبؓ کا نام تو تاریخ کربلا میں انمٹ نقوش رکھتا ہے 

حضرت امام حسین ؓبے حد محبت رکھنے والی سیدہ زینبؓ نے کربلا کی داستان کا وہ باب رقم کیا جسے اما م حسین ؓ نے ادھورا چھوڑا تھا امام حسینؓ کی شہادت کے بعد بہت زیادہ سخت وقت تھا جب آپ کا کردار شروع ہوا ۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے وقت اور اس کے بعد سیدہ زینبؓ پر کون سی ذمہ داریاں عائد ہوتی تھی

 جنھیں آپ نے بہت خوبصورتی کیساتھ ادا کیا،یہ بات تو تاریخ کے ورق ورق پر لکھی واضح دکھائی دیتی ہے کہ دین اسلام کی بقا امام حسینؓ اور ان کے اصحاب کی شہادت سے نصیب ہوئی اور اس مقصدکی تکمیل سیدہ زینبؓ کی اسیری اور کوفہ و شام کی راہوں اور درباروں میں بلیغ خطبات دینے سے ممکن ہوئی امام حسین ؓکے اہداف کو مختلف مقام پر خاص طور سے دربار یزید میں جب شہدا ءکربلا کے کٹے سروں کے ساتھ محفل ِ طرب و سرور سجائی گئی تھی

 اور اسلامی ملکوں کے نمائندوں و سفراءکو دعوت دی گئی تھی ان کے درمیان ضمیر کو جگا دینے والے بے نظیر خطبات کے ذریعہ بیان کرنا ، اور بنی امیہ کی حکومت اور اس کے افکار کو زمانہ بھر کے سامنے رسوا کر دینایقینا یہ دلیری اور شجاعت فقط اور فقط عقیلہ بنی ہاشم جناب زینبؓ بنت علیؓ کے حصہ میں آئی ہے ۔

کہتے ہیں کہ سیدہ زینبؓ کو بچپن ہی سے امام حسینؓ سے اتنی محبت اور الفت تھی کہ ایک رات بھی بغیر بھائی حسین ؓکے سکون نہیں ملتا تھا جس کی دلیل حضرت علیؓ کا عبد اللہ بن جعفر سے شادی کی پیش کش پر دو شرطوں کا رکھنا ہے ان شرطوں کو تاریخ کی کتب نے اس طرح ذکر کیا ہے۔

[۱] میری بیٹی (زینب کبرٰی )حسینؓ سے بے حد محبت رکھتی ہے لہذا میں اس شرط پر تمہارے عقد میں دوں گا کہ تم اسے24 گھنٹے میں ایک بار ضرور حسینؓ سے ملاقات کی اجازت دو گے چونکہ زینب حسین ؓ کو دیکھے بنا ایک دن بھی نہیں رہ سکتی ۔

[۲]جب بھی امام حسین ؓسفر کریں اور زینبؓ کو ساتھ لے جانا چاہیں تم زینبؓ کو نہیں روکو گے اور حسینؓ کے ساتھ جانے کی اجازت دو گے ۔

 بہن بھائیوں کا اس قدر پیار اور محبت،اور عصرِ عاشور بھائی کی لاش سامنے رکھی ہے اور سیدہ زینبؓ کا امتحان و آزمائش شروع ہو گیا،کتنا حوصلہ چاہیئے اس امتحان سے گذرنے کیلئے اگر یہاں پر سیدہ ہمت ہار جاتیں تو کربلا کے لق و دق صحرا میں لکھی گئی داستان شجاعت و حریت کا علم کسی کو بھی نہ ہوتا،یقیناً امام حسینؓ اور ان کے جانثار ساتھیوں کی بے مثال قربانیاں رائیگاں چلی جاتیںاور آج ہر سو یزیدیت کا راج ہوتا،دین کی شکل نا جانے کیسی ہوتی جو بھی ہوتی وہ محمد رسول اللہ کا لایا ہوا دین ہرگز نا ہوتا۔سیدہ زینبؓ نے اس موقع پر سب سے پہلے مخدرات عصمت و طہارت پاک بیبیوں اور شہدا ءکی بیوگان و بچوں کی ہمت نہیں ٹوٹنے دی ان کے حوصلے بلند رکھے اور انہیں جلتے خیام اور یزیدیوں کی لوٹ مار سے بچایا،اس موقعہ پر سب سے اہم ترین کام امام زین العابدین جو حالت بیماری میں خیمے میں موجود تھے ان کو شمر کے مظالم سے بچایا اور شمر کے سامنے ڈٹ گئیں اور یہ کہا کہ تمھیں میری لاش سے گذر کر جانا ہو گا اس طرح جلتے خیام سے امام زین العابدین کو اٹھا لائیں اور امامت کے چراغ کو بجھنے نہیں دیا۔

تقویٰ اور دین داری کی یہ حالت تھی کہ اتنے سخت حالات میں بھی اپنی نماز شب کو نہیں بھولیں اور حالت اسیری میں جب ہاتھ بندھے ہوئے تھے تو اونٹوں پر سوار تھیں تو نماز کی ادائیگی ترک نہ کی اس طرح سب پر اہمیت نماز بھی واضح کر دی اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ جنہیں باغی قرار دیکر شہید کیا گیا وہ اسلام کے اصل وارث تھے۔اس کے بعد بازاروں اور درباروں میں دیئے گئے خطبات بھی تاریخ کے سنہرے ابواب ہیں ان خطبات نے ہی اس صورت حال کو تبدیل کر دیا جو یزیدیوں نے اپنے حق میں بنائی تھی۔یہ خطبات کیا تھے؟ ان پر دقت اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔

 حضرت سیدہ زینبؓ کے خطبات سے چند اقتباس

 حضرت سیدہ زینبؓ عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں یوں گویا ہوئیں:خدا کا شکر ہے کہ اس نے اپنے رسول کے ذریعہ ہمیں عزت بخشی اور گناہ سے دور رکھا ، رسوا تو صرف فاسق ہوتے ہیں ، جھوٹ تو صرف (تجھ جیسے ابن زیاد کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے اپنی دلیری کا یوں مظاہرہ کیا : )بد کار بولتے ہیں ۔ الحمد للہ کہ ہم بدکار نہیں ہیں ۔

سیدہ زینبؓ بازار کوفہ میں کوفیوں سے خطاب کرتے ہوئے

اے مکار ، غدار ، خائن کوفیوں ! خدا کبھی تمہارے آنسوﺅں کو خشک نہ کرے ، تمہاری قسمت میں سوائے خدا کی ناراضگی اور عذاب دوزخ کے سوا کچھ نہیں ، رﺅو اور خوب رﺅو چونکہ تمہارے نصیب میں صرف رونا ہی لکھا ہے ، ذلت و خواری تمہارا مقدر بن چکی ہے ، تم نے کام ہی ایسا کیا ہے کہ قریب ہے آسمان زمین پر آجائے ، زمین پھٹ جائے ، پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اگر خدا کا عذاب ابھی تم پر نہیں آیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم محفوظ ہو ، خدا عذاب کو (ہمیشہ )فورا نہیں بھیجتا لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ،مظلوموں کو انصاف نہ دلائے ۔

سیدہ زینبؓ کی فصاحت و بلاغت اورلب و لہجہ کا یہ حال تھا کہ ہر کوفی حیران تھا کہ کیا علی دوبارہ آگئے ہیں ۔ باپ اور بیٹی کے درمیان ایسی فکری اور لسانی شباہت تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے ۔

خطبہ حضرت زینبؓ ،یزید کے دربار میں :

سیدہ زینبؓ
سیدہ زینبؓ

خدا نے سچ فرمایا : کہ جن لوگوں نے برے اور گھناﺅنے کام کئے ان کی سزا ان لوگوں جیسی ہے جنھوں نے الٰہی آیات کی تکذیب کی ، اور اس کا مذاق اڑایا ۔ اے یزید کیا تو الٰہی فرمان کو بھول گیا (کہ خدا نے فرمایا ) کا۔۔فر خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں ، اگر ہم نے مہلت دے دی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ان کی بھلائی چاہتے ہیں ؟ نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ ہم نے اس لئے انھیں مہلت دی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ گناہ کر سکیں( اور آخر کار) سخت ترین عذاب میں گرفتار ہوں ( اور ان کی بخشش کا کوئی راستہ نہ رہ جائے ) اے اس آدمی کے بیٹے جسے میرے جد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسیر کرنے کے بعد آزاد کر دیا ، کیا یہی عدل و انصاف ہے کہ تو اپنی عورتوں اور کنیزوں کو پس پردہ بٹھائے اور رسولؓ کی بیٹیوں کو اسیر کر کے دیار بدیار پھرائے ۔ اے یزید تونے ابھی اپنے آبا ﺅ اجداد کو یاد کیا ہے (چونکہ ہمارے جوانوں کو شہید کر دیا ہے)گھبراﺅ نہیں تم بھی جلد انھیں کے پاس پہنچنے والے ہو اور پھر تمنا کرو گے ، اے کاش تمہاری زبان گونگی ہو گئی ہوتی ( اور اہل بیت ؓ کو برا بھلا نہ کہتے )ے کاش تمہارا ہاتھ شل ہو گیا ہوتا۔جو لوگ راہ خدا میں قتل کر دیئے گئے ہیں انھیں ہر گز مردہ نہ سمجھنا (بلکہ)وہ زندہ ہیں ، اور اللہ کی طرف سے رزق پاتے ہیں۔یزید تیری حیثیت میری نگاہ میں نہایت پست و حقیر ہے اور میں بے پناہ تیری ملامت کرتی ہوں اور تجھے بہت ذلیل اور خوار سمجھتی ہوں ۔ یزید تمہیں ہرگز یہ گمان نہ ہو کہ تمہاری حشمت و جلالت اورحکومت سے میں مرعوب ہو جاﺅں گی ۔ 

کتنی عجیب بات ہے کہ لشکر خدا طلقائ(آزاد کردہ غلام اور غلام زادوں )اور لشکر شیطان کے ہاتھوں تہ تیغ کر دیا جائے ، اور ہمارے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کر لے ۔ خدا اپنے بندوں پر ظلم روا نہیں کرتا ، ہم تو بس اسی سے شکوہ کرتے ہیں اور اسی پر اعتماد کرتے ہیں ۔ لہذا جو فریب و حیلہ چاہے کر لے اور جتنی طاقت ہے آزمالے اور کوشش کر کے دیکھ لے خدا کی قسم ہمیں اور ہماری یادوں کو(مومنین کے دل سے ) نہ مٹا سکے گا ، اور ہمارے (گھر میں)نزول وحی کو کبھی جھٹلا نہ سکے گا ۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمارے بزرگوں کو سعادت و مغفرت کے ساتھ اس دنیا سے اٹھایا اور ان کے بعد والوں کو مقام شہادت اور حجت پر فائز کیا ۔

سیدہ زینبؓ کے ان خطبات نے انقلاب کا ّغاز کر دیا خصوصی طور پر جب آپ نے یزید کے دربار میں اسے آئینہ دکھایا اس حال میں کہ آپ اسیر تھیں آپ کے بھائی کا سر مبارک اس کے سامنے تھال میں رکھا تھا اور وہ نواسہ رسول کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر توہین کر رہا تھامختلف ممالک کے سفرا ءکو دعوت دی گئی تھی کہ وہ تماشا دیکھیں مگر تماشا دکھانے کے خواہش مند خود ان کے سامنے تماشا بن گئے۔شاعر نے اسی لیئے کہا ہے کہ

کربلا دو باب است کربلا و دمشق

یکے حسینؓ رقم کرد ، دیگرے زینبؓ

حضرت امامؓ نے اگر لق و دق صحرا میں کربلا کے نام سے اسلام کی بنیادوں کو قائم و دائم کیا تو بہن نے اس بنیاد پر کوفہ شام کے درباروں و بازاروں میں خطبات دیکر اسلام کیایسی پختہ عمارت بنا دی کہ پھر کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ اس انداز میں اسلام پر وار کرے۔ امامؓ نے اگر شہر کربلا کو آباد کیا ۔ امام ؓ نے اگر کربلا کے گمنام گوشہ و صحرا میں عالم انسانیت کےلئے اپنا لہو بہایا تو ان کی شریکہ و سوگوار بہن نے ان خون کے قطروں کی سرخیوں کو کربلا سے کوفہ، کوفہ سے دمشق تک پہنچایا۔نواسہ رسول ، سید الشہدائؓ کی اسیر بہن نے حالت اسیری میں رہ کر بھائی کی آواز استغاثہ کو شہر بشہر یعنی عالم انسانیت کی بستی بستی میں پہنچا دیا ۔ سیدہ زینبؓ کی تبلیغ کا اثر کوفہ و شام کے ان چلتے پھرتے لاشوں اور مردہ ضمیرانسانوں پر ضرور ہوا۔

 صلی اللہ علیہ والہ وصحبہ وازواجہ وبارک وسلم کثیراً کثیرا

Leave a Comment