عہد ہارون الرشید کے حالات

عہد ہارون الرشید کے حالات

عہد ہارون الرشید کے حالات

جب خلیفہ ہارون الرشید نے بلادِ روم کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔عہد ہارون الرشید کے حالات اور قابل تذکرہ واقعات بیان کرتے ہوئے ہم ۱۸۷ھ تک پہنچ گئے ہیں، واقعہ برامکہ کے بعد ۱۸۷ھ میں خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مؤتمن کو صوبہ عوام کی طرف روانہ کیا، مؤتمن نے بلاد روم پر فوج کشی شروع کی اور عباس بن جعفر بن اشعث کو قلعہ سنان کے محاصرہ کے لیے روانہ کیا، رومی تاب مقاومت نہ لا سکے اور تین سو بیس مسلمان قیدیوں کو واپس دے کر مسلمانوں سے صلح کر لی۔ 

انہیں ایام میں یہ واقعہ پیش آیا کہ رومیوں نے ملکہ ایرینی اپنی قیصرہ کو معزول کرکے اس کی جگہ نیسی فورس یا نقفور نامی ایک سردار کو اپنا قیصر بنا لیا، پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ رومیوں نے شارلمین بادشاہ فرانس کی فتوحات اطالیہ سے متأثر ہو کر ہارون الرشید سے دب کر صلح کر لی تھی، اب نقفور نے تخت نشین ہو کر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ شارلمین سے صلح کی اور اس طرف سے اپنے حدود سلطنت متعین کرا کر اور مطمئن ہو کر ہارون الرشید کو ایک خط لکھا کہ:

’’ملکہ نے اپنی فطری کمزوری کے سبب دب کر تم سے صلح کر لی تھی اور تم کو خراج بھی دیتی رہی، لیکن یہ اس کی نادانی تھی، اب تم کو چاہیئے کہ جس قدر خراج تم ہماری سلطنت سے وصول کر چکے ہو وہ سب واپس کرو اور جرمانہ میں ہم کو خراج دینا منظور کرو، ورنہ پھر تلوار کے ذریعہ تم کو سزا دی جائے گی۔‘‘

یہ خط جب ہارون الرشید کے پاس پہنچا تو اس کے چہرے سے اس قدر طیش و غضب کے آثار نمایاں ہوئے کہ امراء و وزراء اس کے سامنے دربار میں بیٹھنے کی تاب نہ لا سکے اور خاموشی وآہستگی کے ساتھ دربار سے کھسک آئے، ہارون نے اسی وقت قلم ودوات لے کر اس خط کی پشت پر لکھا کہ:

*’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ از جانب امیرالمؤمنین ہارون الرشید! بنام سگِ روم۔ او کافر کے بچے! میں نے تیرا خط پڑھا، اس کا جواب تو آنکھوں سے دیکھے گا، سننے کی ضرورت نہیں۔ فقط۔‘‘* 

یہ جواب لکھ کر خط واپس بھیج دیا اور اسی روز لشکر لے کر بغداد سے بلاد روم کی طرف روانہ ہو گیا اور جاتے ہی رومیوں کے دارالسلطنت ہرقلہ کا محاصرہ کر لیا، نقفور حیران وپریشان ہو گیا اور تاب مقاومت نہ لا کر ہارون الرشید کی خدمت میں عفو تقصیرات کا خواہاں ہوا اور جزیہ دینے کا اقرار کیا، ہارون تقفور کو مغلوب وذلیل کر کے پہلے سے زیادہ جزیہ ادا کرنے کا اقرار لے کر واپس ہوا۔ 

ابھی شہر رقہ تک ہی واپس آیا تھا کہ نقفور نے نقض عہد کیا اور پھر بغاوت پر آمادہ ہو گیا، اس کو یقین تھا کہ موسم سرما کی شدت کے سبب مسلمانوں کی فوجیں فوراً حملہ آور نہیں ہو سکتیں، مگر ہارون الرشید یہ سنتے ہی شہر رقہ سے پھر ہرقلہ کی جانب روانہ ہوا اور بلاد روم میں داخل ہوکر بہت سے قلعوں کو فتح کر کے مسمار کر دیا اور فتح کرتا ہوا نقفور تک پہنچ گیا، اس نے پھر عاجزانہ معافی کی درخواست پیش کی، ہارون الرشید نے اس سے جزیہ کی رقم تمام وکمال وصول کی اور اکثر حصہ ملک پر اپنا قبضہ جما کر واپس ہوا۔

اسی سال یعنی ۱۸۷ھ میں سیدنا ابراہیم ادھم نے وفات پائی۔

۱۸۸ھ میں قیصر نقفور نے پھر سرکشی کے علامات ظاہر کئے، لہٰذا ابراہیم بن جبرئیل نے حدود صفصفاف سے بلاد روم پر حملہ کیا، قیصر روم خود مقابلہ کے لیے نکلا، لیکن تاب مقابلہ نہ لا سکا، شکست فاش کھا کر اور چالیس ہزار رومیوں کو قتل کرا کر فرار ہو گیا، اسلامی لشکر رومیوں کو شکست دے کر واپس چلا آیا۔

۱۸۹ھ میں خلیفہ ہارون الرشید رے کی طرف گیا اور خراسان کی طرف کے صوبوں کا عمال کے عزل و نصب سے جدید انتظام کیا، مرزبان دیلم کے پاس امان نامہ بھیج کر اس کی دل جوئی کی، سرحدوں کے رؤساء اور فرمانروا اس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی فرماں برداری کا یقین دلایا۔

طبرستان، رے، قومس، ہمدان وغیرہ کی حکومت عبدالملک بن مالک کو مرحمت کی، اسی سال رومیوں اور مسلمانوں میں قیدیوں کا تبادلہ ہوا، اسی سال امام محمدؒ بن حسن شیبانی شاگرد امام ابوحنیفہؒ نے رے کے قریب موضع زنبویہ میں وفات پائی، اسی روز امام کسائی نحوی بھی فوت ہوا، یہ دونوں ہارون الرشید کے ہمراہ تھے، ہارون الرشید دونوں کے جنازہ میں شریک تھا، جب قبرستان سے واپس آئے تو ہارون الرشید نے کہا کہ: ’’آج ہم فقہ اور نحو دونوں کو دفن کر آئے۔‘‘

۱۹۰ھ میں ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مامون کو اپنا نائب بنا کر رقہ میں مقیم کیا اور تمام انتظام سلطنت اس کے سپرد کر کے نقفور قیصر روم کی بد عہدی کی وجہ سے بلاد روم پر ایک لاکھ ۳۵ ہزار فوج سے حملہ کیا، ہرقلہ کا محاصرہ کیا اور تیس یوم کے محاصرہ کے بعد بزور تیغ فتح کر لیا اور رومیوں کو قتل و گرفتار کیا، پھر داؤد بن عیسیٰ بن موسیٰ کو ستر ہزار فوج کے ساتھ بلاد روم کے دوسرے قلعوں کو فتح کرنے کے لیے روانہ کیا، اس فوج نے تمام بلاد روم کو ہلا ڈالا، انہیں دونوں شرجیل بن معن بن زائدہ نے قلعہ سقالیہ، دلبسہ اور دوسرے قلعوں کو فتح کیا۔ 

یزید بن مخلد نے قونیہ کو فتح کیا، عبداللہ بن مالک نے قلعہ ذی الکلاع کو فتح کر لیا، حمید بن معیوف امیر البحر نے سواحل شام و مصر کی کشتیوں کو درست کر کے جزیرۂ قبرص پر چڑھائی کر دی اور اہل قبرص کو شکست دے کر تمام جزیرہ کو لوٹ لیا اور سترہ ہزار آدمیوں کو گرفتار کر لایا، اس کے بعد ہارون نے طوانہ کا محاصرہ کیا، غرض رومی سلطنت کو مسلمانوں نے تہ و بالا کر کے اس کے مٹا ڈالنے اور روز کے جھگڑوں کو ایک ہی مرتبہ طے کر دینے کا تہیہ کر لیا۔

نقفور نے سخت عاجز اور مجبور ہو کر جزیہ دینا قبول کر کے ہارون الرشید کے پاس پچاس ہزار اشرفی رقم جزیہ روانہ کی، جس میں اپنی ذات کا جزیہ چار دینار اور اپنے لڑکے اور بطریق کی طرف سے دو دینار روانہ کئے تھے اور خلیفہ ہارون کی خدمت میں درخواست بھیجی کہ قیدیان ہرقلہ میں سے فلاں عورت مجھ کو واپس مرحمت فرما دی جائے، کیونکہ اس سے میرے بیٹے کی منگنی ہو گئی ہے،

خلیفہ نے اس درخواست کو منظور کر لیا اور اس عورت کو روانہ کر دیا، نقفور کی الحاح و عاجزی پر رحم کر کے اس کا ملک اسی کو واپس کر کے تین لاکھ اشرفی سالانہ خراج اس پر مقرر کر کے ہارون

واپس ہوا، مگر واپسی کے بعد ہی رومیوں نے پھر بغاوت و سرکشی اختیار کر لی۔

اسی سال یعنی ۱۹۰ھ میں موصل کی گورنری پر خالد بن یزید بن حاتم کو مامور کیا گیا، اسی سال ہرثمہ بن اعین قلعہ طرطوس کی تعمیر پر مامور کیا گیا، خراسان کی تین ہزار فوج اور مصیصہ و انطاکیہ کی ایک ہزار فوج قلعہ طرطوس کی تعمیر میں مصروف رہی اور ۱۹۲ھ میں قلعہ کی تعمیر تکمیل کو پہنچی، اسی قسم کی فوج کو آج کل سفر مینا کی پلٹن کہا جاتا ہے، اسی سال آذر بائیجان میں خرمیہ نے علم بغاوت بلند کیا، اس کی سرکوبی کے لیے عبداللہ بن مالک دس ہزار فوج کے ساتھ روانہ کیا گیا

، عبداللہ نے باغیوں کو شکست فاش دے کر قیدیوں کو قتل کر ڈالا اور اس فتنہ کا سدباب ہوا، اسی سال یعنی ۳ محرم ۱۹۰ھ کو یحییٰ برمکی نے ستر برس کی عمر میں بمقام رقہ بہ حالت قید وفات پائی۔ اس کے بیٹے فضل بن یحییٰ نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔

۱۹۱ھ میں محمد بن فضل بن سلیمان کو خلیفہ ہارون الرشید نے موصل کی گورنری مرحمت فرمائی اور مکہ معظمہ کی امارت پر فضل بن عباس کو مامور کیا گیا۔

*خراسان میں بغاوت:* 

گزشتہ اقساط میں ذکر ہو چکا ہے کہ علی بن عیسیٰ کے گورنر خراسان مقرر ہونے پر برامکہ نے وہب بن عبداللہ اور حمزہ بن اترک کو بغاوت پر آمادہ کر دیا تھا، وہب تو مارا گیا تھا لیکن حمزہ باقی تھا، وہ ابھی تک ہاتھ نہیں آیا تھا اور جا بجا ڈاکہ زنی کرتا پھرتا تھا، علی بن عیسیٰ امیر خراسان نے سمر قند و ماوراء النہر کی ولایت پر اپنی طرف سے یحییٰ بن اشعث کو عامل مقرر کر رکھا تھا، ماوراء النہر کی فوج میں رافع بن لیث بن نصر بن سیار مشہور سردار تھا، رافع بن لیث بھی برامکہ کی جماعت کا آدمی تھا اور علی بن عیسیٰ خلیفہ ہارون سے متنفر تھا۔ 

اتفاقاً یحییٰ بن اشعث نے ایک عورت سے نکاح کیا، چند روز کے بعد رافع بن لیث نے اس عورت کو بہکایا، اس نے یحییٰ سے علیحدگی چاہی، مگر یحییٰ نے اس کو طلاق نہ دی، رافع نے اس کو یہ تدبیر بتائی کہ تو اپنے مرتد ہونے کا اعلان کر کے اور دو گواہ مرتد ہونے کے پیش کر دے، فوراً یحییٰ سے تیرا نکاح ٹوٹ جائے گا، اس کے بعد پھر اسلام قبول کر لینا، میں تجھ سے نکاح کر لوں گا، عورت نے یہی تدبیر کی اور رافع کے نکاح میں آ گئی، غالباً نکاح فسخ کرانے کی یہ تدبیر سب سے پہلے رافع نے ایجاد کی تھی۔

یحییٰ بن اشعث نے یہ تمام کیفیت خلیفہ ہارون الرشید کی خدمت میں لکھ کر بھیج دی، ہارون الرشید نے علی بن عیسیٰ گورنر خراسان کو لکھا کہ رافع اور اس عورت میں علیحدگی کرا کر رافع پر حد شرعی جاری کرو اور شہر سمر قند میں گدھے پر سوار کرا کر تشہیر کراؤ، چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں رافع کو اس عورت سے جدا کرا کر سمر قند کے جیل خانہ میں قید کر دیا گیا۔ 

ایک روز موقع پا کر رافع قید خانہ سے نکل بھاگا اور گورنر خراسان علی بن عیسیٰ کے پاس بلخ میں پہنچا، علی بن عیسیٰ نے اس کو قتل کرنا چاہا، مگر علی کے بیٹے عیسیٰ بن علی نے سفارش کی اور علی بن عیسیٰ نے اس کو حکم دیا کہ تم سمر قند میں یحییٰ بن اشعث کے پاس جاؤ، رافع نے سمر قند پہنچ کر عامل سمر قند کو دھوکہ سے قتل کر دیا اور خود سمر قند پر قابض ہو گیا۔

یہ خبر سن کر علی بن عیسیٰ نے اپنے بیٹے عیسیٰ بن علی کو سمر قند کی طرف روانہ کیا، رافع سے لڑتا ہوا عیسیٰ بن علی لڑائی میں مارا گیا، یہ خبر سن کر علی بن عیسیٰ لشکر لے کر بلخ سے مرو کی طرف اس خیال سے آیا کہ کہیں رافع مرو پر قبضہ نہ کر لے۔ یہ ۱۹۱ھ کا واقعہ ہے۔ 

خلیفہ ہارون الرشید نے رافع کی چیرہ دستی کا حال سن کر علی بن عیسیٰ کو خراسان کی حکومت سے معزول کر کے ہرثمہ بن اعین کو خراسان کی امارت و حکومت پر روانہ کیا، حقیقت یہ تھی کہ رافع کے ساتھ لشکر خراسان کے تمام بڑے بڑے سردار اور برامکہ کی جماعت کے آدمی شامل ہو گئے تھے، ہرثمہ بن اعین نے سمر قند پہنچ کر رافع بن لیث کو محصور کر لیا،  رافع نے سمر قند میں محصور ہو کر مدافعت شروع کی، یہ محاصرہ عرصہ دراز تک جاری رہا

*خلیفہ ہارون الرشید کی وفات:* 

رومیوں کی سرکوبی سے فارغ ہو کر اور نقفور کو مغلوب و ذلیل کر کے اور اس سے جزیہ کی رقم وصول کرنے کے بعد خلیفہ ہارون الرشید رقہ میں واپس آیا، یہاں آ کر اس کو رافع بن لیث کی چیرہ دستی اور بعض امرائے خراسان کی سرکشی کا حال معلوم ہوا، اس نے خود خراسان کا قصد کیا اور لشکر فراہم کر کے ماہ شعبان ۱۹۲ھ میں رقہ سے بغداد، پھر بغداد سے خراسان کی جانب روانہ ہوا، ہارون نے روانگی کے وقت رقہ میں موتمن کو نائب السلطنت بنا کر خزیمہ بن خازم کو اس کے پاس چھوڑا۔ 

بغداد میں اپنے بیٹے امین کو اپنا قائم مقام بنا کر مامون کو بھی بغداد میں امین کے پاس رہنے کا حکم دیا، مامون کے کاتب فضل بن سہیل نے مامون سے کہا کہ آپ کا دارالخلافہ بغداد میں امین کے پاس رہنا مناسب نہیں ہے، آپ خلیفہ کے ہمراہ چلنے کی کوشش کریں، مامون نے خلیفہ ہارون الرشید سے ہم سفر و ہم رکاب رہنے کی التجا کی اور خلیفہ نے اس خواہش کو منظور کر لیا، ہارون الرشید بغداد سے روانہ ہونے کو تھا کہ رقہ میں فضل بن یحییٰ برمکی محرم ۱۹۳ھ کو بحالت قید فوت ہوا۔

بغداد سے روانہ ہو کر ماہ صفر ۱۹۳ھ میں خلیفہ جرجان میں پہنچا، جرجان میں پہنچ کر خلیفہ کی بیماری نے خطرناک صورت اختیار کی اور ہارون جس زمانہ میں بلاد روم کے اندر مصروف قلعہ شکنی تھا، اسی زمانہ میں بیمار ہو گیا تھا، رقہ میں بیمار ہی پہنچا تھا، وہاں سے بغداد آیا تب بھی علیل تھا اور اسی حالت علالت میں خراسان کی طرف فوج لے کر روانہ ہوا تھا۔ 

خلیفہ نے جرجان میں تمام سرداران لشکر کے رو برو یہ اعلان کیا کہ میرے ساتھ اس وقت جس قدر فوج اور سامان ہے، یہ سب ملک خراسان اور مامون سے متعلق رہے گا، اس تمام لشکر اور تمام سامان کا مالک مامون ہے اور یہ تمام سردار سپہ سالار بھی مامون ہی کے تابع فرمان رہیں گے، اس طرح مامون کا اطمینان کر کے جرجان سے مامون کو مرو کی طرف بھیج دیا اور اس کے ساتھ عبداللہ بن مالک، یحییٰ بن معاذ، اسد بن خزیمہ، عباس بن جعفر بن محمد بن اشعث اور نعیم بن حازم وغیرہ سرداروں کو بھیجا۔

مامون کو مرو کی جانب روانہ کرنے کے بعد خود جرجان سے روانہ ہو کر طوس چلا گیا، اس وقت اس کے ساتھ فضل بن ربیع، اسماعیل بن صبیح،  مسرور حاجب، حسین، جبریل بن بختیشوع وغیرہ موجود تھے۔

طوس پہنچ کر علالت نے یہاں تک ترقی کی کہ ہارون الرشید صاحب فراش ہو گیا، ہرثمہ بن اعین اور رافع بن لیث کے مقابلہ کا حال گزشتہ اقساط میں گزرچکا ہے، ہرثمہ نے ابھی تک رافع کو مغلوب نہیں کیا تھا، لیکن بخارا فتح ہو کر رافع کا بھائی بشیر بن لیث گرفتار ہو چکا تھا، ہرثمہ نے بشیر کو خلیفہ کی خدمت میں روانہ کیا، جب ہارون الرشید طوس میں بستر علالت پر پڑا تھا اس وقت بشیر اس کے پاس پہنچ کر حاضر کیا گیا، ہارون نے اس کے قتل کرنے کا حکم دیا اور اس کو بڑی بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا۔ 

بشیر کے قتل کرنے کا حکم دے کر ہارون بے ہوش ہو گیا، جب اس کو ہوش آیا تو جس مکان میں ٹھہرا ہوا تھا اسی مکان کے ایک گوشہ میں قبر کھودنے کا حکم دیا، جب قبر کھد گئی تو چند حافظوں نے قبر میں اتر کر ختم قرآن کیا، ہارون نے اپنی چارپائی قبر کے کنارے بچھوا لی اور چار پائی پر پڑے پڑے قبر کو دیکھتا رہا، اسی حالت میں ۳۔ جمادی الثانی ۱۹۳ھ مطابق ۲۴ مارچ ۸۰۸ء بہ وقت شب انتقال کیا۔ 

اس کے بیٹے صالح نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔ ۲۳ سال ڈھائی مہینے ہارون الرشید نے خلافت کی، طوس میں اس کی قبر موجود ہے

تاریخ اسلام۔ جلد ②، مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی صاحب

Leave a Comment