منشی نول کشور کا واقعہ

منشی نول کشور کا واقعہ 

منشی نول کشور کا واقعہ

منشی نول کشور کون تھے اور ان کو جلانے کی بجائے دفن کیوں کیا گیا؟منشی نول کشورتین جنوری 1836کومتھرامیں پیداہوئے ۔آپ کے والد کانام پنڈت جمونا پرساد بھگاوکا تھااوروہ علی گڑھ کے زمیندارتھے۔آپ نے ابتدائی تعلیم کاآغاز مکتب میں فارسی اوراردوپڑھ کرکیاآپ  کتب کے پبلشرتھے اورآپ کوبھارت کاcaxtonکہاجاتاہے۔

تقسیم ہند کے زمانے میں لاہور کے 2 اشاعتی ادارے بڑے مشہور تھے، پہلا درسی کتب کا کام کرتا تھا اس کے مالک میسرز عطر چند اینڈ کپور تھے، دوسرا ادارہ اگرچہ غیر مسلموں کا تھا لیکن اس کے مالک پنڈت نول کشور قران پاک کی طباعت و اشاعت کیا کرتے تھے، منشی نول کشور نے احترام قرآن کا جو معیار مقرر کیا تھا وہ کسی اور ادارے کو نصیب نہ ہو سکا. 

منشی نول کشور جی نے پہلے تو پنجاب بھر سے اعلی ساکھ والے حفاظ اکٹھے کئے اور ان کو زیادہ تنخواہوں پر ملازم رکھا احترام قرآن کا یہ عالم تھا کہ جہاں قرآن پاک کی جلد بندی ہوتی تھی وہاں کسی شخص کو خود نول کشور جی سمیت جوتوں کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی.

دو ایسے ملازم رکھے گئے تھے جن کا صرف اور صرف ایک ہی کام تھا کہ تمام دن ادارے کے مختلف کمروں کا چکر لگاتے رہتے تھے کہیں کوئی کاغذ کا ایسا ٹکڑا جس پر قرآنی آیت لکھی ہوتی اس کو انتہائی عزت و احترام سے اٹھا کر بوریوں میں جمع کرتے رہتے پھر ان بوریوں کو احترام کے ساتھ زمین میں دفن کر دیا جاتا.

وقت گزرتا رہا طباعت و اشاعت کا کام جاری رہا، پھر برصغیر کی تقسیم ہوئی، مسلمان ہندو اور سکھ نقل مکانی کرنے لگے، نول کشور جی بھی لاھور سے ترک سکونت کر کے نئی دلی انڈیا چلے گئے، ان کے ادارے نے دلی میں بھی حسب سابق قرآن پاک کی طباعت و اشاعت کا کام شروع کر دیا، یہاں بھی قرآن پاک کے احترام کا وہی عالم تھا۔

ادارہ ترقی کا سفر طے کرنے لگا اور کامیابی کی بلندی پر پہنچ گیا، نول کشور جی بوڑھے ہو گئے اور اب گھر پر آرام کرنے لگے جبکہ ان کے بچوں نے ادارے کا انتظام سنبھال لیا اور ادارے کی روایت کے مطابق قران حکیم کے ادب و احترام کا سلسہ اسی طرح قائم رکھا۔

آخر کار منشی نول کشور جی کا وقت آخر آ گیا اور وہ انتقال کر کے خالق حقیقی سے جا ملے، ان کی وفات پر ملک کے طول و عرض سے ان کے احباب ان کے ہاں پہنچے، ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ ان کے کریا کرم میں شریک ہونے کے لئے شمشان گھاٹ پہنچے، ان کی ارتھی کو چتا پر رکھا گیا ۔ چتا پر گھی ڈال کر آگ ل

گائی جانے لگی تو ایک انتہائی حیرت انگیز واقعہ ہوا، اس کی چتا پر کئی ٹین گھی کے ڈالے گئے تھے لیکن چتا آگ نہیں پکڑ رہی تھی، وہ کوئی عام ہندو  نہیں تھا انڈیا کا بہت بڑا نام تھا، اس لئے اس کی چتا کو آگ نہ لگنے والے واقعے کی خبر منٹوں میں پورے انڈیا میں پھیل گئی . .

. منشی نول کشور جی کی چتا آگ نہیں پکڑ رہی تھی، چتا پر اور گھی ڈالا گیا پھر آگ لگانے کی کوشش کی گئی لیکن بسیار کوشش کے باوجود بے سود، یہ ایک نا ممکن اور ناقابل یقین واقعہ تھا، پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا، لمحوں میں خبر پورے شہر میں پھیل گئی کہ نول کشور جی کی ارتھی کو آگ نہیں لگ رہی ۔ ۔ . 

مخلوق خدا یہ سن کر شمشان گھاٹ کی طرف امڈ پڑی۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور حیران و پریشان تھے، یہ خبر جب جامع مسجد دلی کے امام بخاری تک پہنچی تو وہ بھی شماشان گھاٹ پہنچے، نول کشور جی ان کے بہت قریبی دوست تھے۔

اور وہ ان کے احترام قران کی عادت سے اچھی طرح واقف تھے، امام صاحب نے پنڈت جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سب کی چتا جلانے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو پائے گی، اس شخص نے اللہ کی سچی کتاب کی عمر بھر جس طرح خدمت کی ہے جیسے احترام کیا ہے اس کی وجہ سے اس کی چتا کو آگ لگ ہی نہیں سکے گی، چاہے آپ پورے ہندوستان کا تیل گھی چتا پر ڈال دیں۔

اس لئے بہتر ہے کہ ان کو عزت و احترام کے ساتھ دفنا دیجئیے، چنانچہ امام صاحب کی بات پر عمل کرتے ہوئے منشی نول کشور جی کو شمشان گھاٹ میں ہی دفنا دیا گیا، یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ کسی ہندو کی چتا کو آگ نہ لگنے کی وجہ سے شمشان گھاٹ میں ہی دفنا دیا گیا

لہذا پہلی بار ایک ہندو کو جلائے بغیر شمشان گھاٹ کے اندر ہی دفن کرنا پڑا، اس کی ارتھی کو آگ کیوں نہیں لگ رہی تھی ؟اس کو آگ کیسے جلا سکتی ہے جس نے قرآن کا احترام مسلمانوں سے بھی بڑھ کر کیا ہو کیسے؟ 

مطبع منشی نول کشور کی مطبوعہ کتابیں

ترميم

منشی نول کشور پریس کی طبع شدہ کتابوں کے چند نام:

منشی نول کشور کا واقعہ

فتاویٰ عالمگیری

سنن ابی داؤد

سنن ابن ماجہ

مثنوی مولانا روم

قصائدِ عرفی

تاریخِ طبری

تاریخِ فرشتہ

دیوانِ امیر خسرو

مراثی انیس

فسانۂ آزاد

داستانِ امیر حمزہ

دیوانِ غالب

کلیاتِ غالب فارسی

الف لیلہ

آثار الصنادید (سر سید احمد خان)

قاطعِ ب رہان (غالب)،

آرائشِ محفل

دیوانِ بیدل

گیتا کا اردو ترجمہ

رامائن کا اردو ترجمہ

بوستان

اور دیگر کئی صد کتابیں ہیں

یہ تحریر لکھتے وقت میرا ذہن بہت کچھ سوچ رہا ہے، میں سوچ رہی ہوں کہ جن کے لئے یہ عظیم کتاب اتاری گئی ہے وہ اس کو پریس کانفرنسوں میں سر پر رکھ کر اس سے اپنے مخالفین پر الزامات لگانے کا کام لیتے ہیں۔

اس سے بڑھ کر اور توہین کیا ہو گی ۔ ۔ ؟؟

میں یہ بھی سوچ رہی ہوں دوسرے ممالک کے کچھ غیر مسلم اسلام دشمنی میں اس عظیم کتاب کو نذر آتش کر کے سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا کام کر دیا، حالانکہ ایسی حرکات سے سوائے نفرت کے اور کچھ بھی حاصل نہیں ہونے والا ہوتا، میں نہیں جانتی اس ہندو کا آخرت میں کیا انجام ہوا ہو گا، لیکن اتنا جان گئی ہوں کہ دنیا میں اس کو آگ لگانا نا ممکن ہو گیا تھا کیا آخرت میں آگ اس کے سامنے بے بس ہو جائے گی؟۔

میں یہ بھی سوچ رہی ہوں ایک ہندو احترام قران میں اس دنیا کی آگ سے محفوظ رہا، ہم اس کتاب پر ایمان لانے والے اگر اس کی صحیح قدر کریں گے تو یہ آگ ہمیں جہنم کی آگ سے کیوں نہیں بچائے

خدا کے لئے قرآن کو اس کا مقام دیں، اس پر ایمان لائیں، اس کی تلاوت کریں، اس کو سمجھ کر پڑھیں، اس کی تعلیمات پر عمل کریں اور اس کی تعلیمات کو عام کریں . . !!

اللہ پاک مجھ گہنگار سمیت ہم سب کو عمل کرنے کی کامل توفیق عطا فرمائے . . .

آمین ثم آمین یا رب العالمین  . .

Leave a Comment