منیجر

منیجر

Table of Contents

منیجر

ایک بڑی کمپنی کو منیجر کی پوسٹ کےلئے کسی انتہائی قابل شخص کی تلاش تھی تاہم  پینٹ کوٹ پہنے ہوئے اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدواروں کے درجنوں انٹرویوز کے باوجود کوئی بھی امیدوار یہ نوکری حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا ، اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ کمپنی کا مالک انٹرویورز کے پینل میں خود بھی بیٹھتا تھا اور جب پینل کے دیگر ممبران اپنے سوالات مکمل کر لیتے تو مالک آخر میں ہر امیدوار سے یہ سوال ضرور پوچھتا کہ ایک اچھے منیجر کی سب سے خاص بات کیا ہوتی ہے. 

اس سوال کے جواب میں میں کوئی امیدوار کہتا کہ ایک اچھے منیجر کو وقت کا پابند ہونا چاہیے، کسی کا جواب ہوتا اسے پروفیشنل ہونا چاہیے، کوئی کہتا اسے سکلڈ ہونا چاہیے اسی طرح کوئی تجربہ کاری، کوئی ذمہ داری تو کوئی ایمانداری کو اچھے منیجر کی پہچان بتاتا، تاہم کمپنی مالک ان میں سے ہر جواب پر غیر تسلی بخش انداز میں خاموش ہو جاتا

اور امیدوار کو جانے کا کہہ دیتا، پینل کے دیگر ممبران ایک تو انٹرویو کرکر کے تنگ آچکے تھے دوسرا وہ اس تجسس میں تھے کہ آخر کمپنی مالک کے نزدیک ایک اچھے منیجر کی سب سے خاص بات کیا ہو سکتی ہے، انھوں نے خود بھی اس سوال کا جواب کمپنی مالک سے جاننے کی کوشش کی تاہم مالک نے اپنا مطلوبہ جواب کسی پر ظاہر نہیں کیا. اور پینل کو انٹرویوز جاری رکھنے کو کہا.

ایک روز ایک سادہ سے کپڑوں میں ملبوس اور عام سے حلیے والا نوجوان انٹرویو دینے آ گیا، اسے دیکھ کر پینل کے ممبران طنزیہ انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں کہ اتنے ماڈسکاڈ اور اپ ٹو ڈیٹ قسم کے لوگ یہ انٹرویو پاس نہیں کر پاے تو یہ دیسی سا انسان کہاں سلیکٹ ہو پائے گا اور اس بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اسے اس سوال کا جواب معلوم ہو جو باقی امیدواروں کی ناکامی کی وجہ بنا.

خیر نوجوان نے ہینل کے سوالات کے انتہائی اعتماد سے جواب دیے. جس کے بعد کمپنی کے مالک نے اپنا سوال پوچھا ‘ جینٹل مین، یہ بتائیں کہ ایک اچھے منیجر کی سب سے بہترین کوالٹی کیا ہوتی ہے؟’

نوجوان نے سوال سن کر کچھ دیر کے لیے سر جھکایا اور پھر کمپنی مالک کی طرف دیکھ کر پورے اعتماد سے مسکرا کرکہا ‘سر، اچھا منیجر وہی ہے جو کمپنی کے  معاملات کو کمپنی کے مالک سے بھی زیادہ بہتر جانتا اور سمجھتا ہو اور جس کے ہوتے ہوئے مالک برائے نام مالک ہی کہلائے’

یہ عجیب و غریب سن کر پینل ممبران چونک گئے، وہ نوجوان کی اس  بدتمیزی اور  گستاخانہ لہجے پر تلملا اٹھے اور اس پر ‘شٹ اپ’ اور’ ماینڈ یور لینگویج’ جیسے کلمات کی بوچھاڑ کر دی. تاہم کمپنی مالک نے ممبران کو خاموش رہنے اور انتظار کرنے کو کہا. پھرمسکرا کر نوجوان سے مخاطب ہو کر کہا، ‘ بالکل ٹھیک جواب دیا آپ نے، لیکن یہ بات آپ نے کس سے سیکھی ؟’ پینل ممبران حیرت سے ایک دوسرے کے منہ دیکھنے لگے. 

نوجوان نے بد دستور خود اعتمادی کے ساتھ مسکراتے ہوئے جواب دیا. ‘سر اپنے گھر سے اور اپنے والدین سے’

پینل ممبران نوجوان کی بات غور سے سننے لگے. نوجوان نے باری باری ان ممبران کی جانب دیکھتے ہوئے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی. ‘ ہم بہن بھائیوں نے اپنے والد کو اپنے گھر کے سربراہ کا درجہ دیا.  ایک منٹ کے لئے مان لیجیے کہ وہ کمپنی مالک تھے. گھر بھر کی کفالت ان کی ذمہ داری تھی. لیکن گھر کو چلانا کس منیجر کا کام تھا.

کس کے کپڑے کہاں ٹانکے ہیں، کس کے جوتے کہاں رکھے ہیں، کس کی کتابیں کہاں دھری ہیں، کس کے کھلونے کہاں پڑے ہیں، کپڑے گندے ہو گئے تو کون دھوے گا، استری کر کے کون دے گا،  سب کی من پسند  کھانا بنانا، بنا کے سامنے رکھنا، پھر برتن دھونا کس کی ذمہ داری ہے، پھر گھر بھر کی صفائی، جھاڑوپونچھ، فرش کی دھلائی، رات سب کو سلاکر پھر سونا،

صبح سب سے پہلے جاگ کر سب کو جگانا، ایک ایک کو کھلا پلاکر تیار کر کے سکول بھیجنا، کپڑے پھٹ جاتے تو پیوند لگانا، بٹن ٹوٹ جاتا تو ٹانکا لگانا، بیمار پڑ جاتے تو پرہیز والا کھانا اور دوائی دینا،عید شادیوں، سیر سپاٹے، رشتہ داروں سے ملنے جانے کے لئے سب کی تیاری،گھر میں دعوت پر درجن بھر مہمانوں کا کھانا بنانا، سر میں تیل ڈالنا، جوییں نکالنا، بخار میں ماتھے پر ٹھنڈی پٹیاں رکھنا،  مالش کرنا، کبھی کھیر، کبھی حلوہ، کبھی گجریلا کبھی کھچڑی، کبھی زردہ، کبھی شربت، کبھی ابلے ہوئے انڈے،  اور نہ جانے کیا کیا کچھ.

یہ سب مینج کرنے والی میری امی تھیں ، وہ شاندار منیجر تھیں،  کبھی بھول کر ہم ابو سے پوچھ لیتے کہ ہماری فلاں چیز کہاں پڑی ہے تو ڈانٹ کر کہتے ‘ارے بھئی مجھے کیا معلوم، اپنی امی سے پوچھو’ اور اس سے بھی مزیدار بات یہ کہ خود ابو کا موبائل، پرس، کپڑے، جوتے، موٹر سائیکل کی چابی حتیٰ کہ دفتر کی فائلیں تک امی کے پتے پر ہوتی تھیں

. تبھی ہم اکثر ابو کو چھیڑتے ہوئے کہا کرتے تھے، آپ تو بس برائے نام ہی گھر کے مالک ہیں، آپ سے کہیں زیادہ تو امی گھر کو جانتی اور سمجھتی ہیں اور ابو بھی ہنس کر اعتراف کیا کرتے کہ امی کے ہوتے ہوئے انھیں کبھی کسی بھی بات کی فکر نہیں ہوتی اس لیے وہ  گھر کر براے نام مالک ہی ٹھیک ہیں …. بس سر اس لیے میرے نزدیک ایک اچھے منیجر کی یہی تعریف ہے’

کمپنی مالک نے  تحسین آمیز نگاہوں سے نوجوان کو دیکھا اور پھر پینل سے مخاطب ہوکرکہا’ آپ سب نے اس نوجوان کا جواب سن کر اسے ڈانٹ دیا تھا. لیکن اب جبکہ اس نے اپنے جواب کی تشریح کی ہے تو مجھے امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس کے جواب کے پیچھے اس کا مشاہدہ بھی ہے اور عمر بھر کا تجربہ بھی اور ایک ٹھوس نظریہ بھی.

مجھے بھی ایسے ہی منیجر چاہیے جس کے ہوتے ہوئے میں برائے نام مالک اور بے فکر شخص بن جاوں ‘ یہ کہہ کر کمپنی مالک نے نوجوان کو منیجر کی پوسٹ کےلئے منتخب ہونے کی مبارک باد دیتے ہوئے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا اور پینل کے ممبران کھڑے ہو کر تالیاں بجانے لگ گئے 

اس کہانی کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ گھر کا ماحول بہترین درسگاہ ہے اور دوسرا یہ کہ  دوسروں کو قائل کرنے کے لیے رٹی رٹائی اور گھسی پٹی کتابی باتوں کا سہارا لینے کی بجائے سادہ الفاظ عملیت پسندی اور فطری مشاہدات پر مبنی سوچ سے کام لیں، آپ زیادہ معتبر ٹھہریں گے.

Leave a Comment