واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام

حضرت ابراہیم علیہ السلام

واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے وہ رسول ہیں جن کے آہنی عزم، مضبوط کردار، اللہ کی وحدانیت کے اثبات کے لیے سرفروشانہ جذبہ اور ان کے اہم عملی اقدامات کو بنی آدم کے لیے بطور نمونہ پیش کیاگیا ہے۔ ان کو اللہ رب العزت کے لیے اپنی عبودیت اور وفاداری کاثبوت غیر معمولی طور پر سخت امتحانوں سے گزر کر پیش کرنا پڑا۔

جب وہ ہر آزمایش میں کامیاب رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام انسانوں کے امام و رہنما کی حیثیت عطا فرمائی۔ ہزاروں برس گزر جانے کے باوجود یہود، نصاریٰ اور مسلمان ان کو اپنا پیشوا مانتے اور ان کے لیے عقیدت کے جذبات رکھتے ہیں۔ ان کی نسل میں اتنی کثیر تعداد میں انبیا و رسل پیدا ہوئے کہ ان کو ابوالانبیا یعنی نبیوں کے جد اعلیٰ کا لقب دیاگیا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آبا و اجداد

اہل تحقیق کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آبا و اجداد اصلاً عرب کے باشندے تھے جو نقل مکانی کر کے دجلہ و فرات کی زرخیز سرزمین کے مشہور شہر بابل میں آباد ہو گئے۔ یہ علاقہ آہستہ آہستہ شرک، بت پرستی اور کواکب پرستی کا گڑھ بن گیا۔ یہاں تک کہ عرب سے آنے والے لوگ بھی اسی مذہب کے پیرو بن گئے۔ مشہور روایت کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر شہر کے بڑے بت خانہ کے ایک ذمہ دار فرد تھے

، لیکن بیٹے کو بت پرستی سے سخت نفرت رہی اور وہ اس کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔ قوم کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رسول مبعوث کیا۔ انھوں نے اپنے والد اور اعزہ کو اللہ کی وحدانیت کا درس دیا اور شرک کو رب سے بغاوت قرار دیا، لیکن بجائے اس کے کہ وہ کوئی اثر قبول کرتے، والد نے ان کو گھر چھوڑنے کا الٹی میٹم دے دیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعوت قوم کے سامنے رکھی اور استدلال کے اچھوتے اسلوب اختیار کیے جنھوں نے قوم کو لاجواب کر دیا۔ انھوں نے بادشاہ وقت کو بھی اپنی دعوت سے روشناس کرایا اور اس کے مناظرانہ دلائل کاایسا توڑ کیا کہ اس سے کوئی جواب بن نہ آیا۔ ۱؂ تاہم ان کی بیوی سارہ اور ایک بھتیجے لوط کے سوا کسی نے ان کی دعوت پر کان نہیں دھرے۔

حکم خداوندی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام

واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام
واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام

حکم خداوندی کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو ساتھ لیا اور اللہ کے گھر کی تعمیر میں لگ گئے۔ جب باپ بیٹا دونوں تعمیر میں مصروف ہوتے تو اس مقدس کام کے دوران میں یہ دعا کرتے:

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَینَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ. رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُولًا مِّنْھُمْ یَتْلُوا عَلَیْھِم اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ. اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیْمُ.(البقرہ ۲: ۱۲۸۔۱۲۹)

”اے ہمارے رب! ہم دونوں کو تو اپنا مسلم (فرمانبردار و اطاعت شعار) بنا اور ہماری ذریت میں سے اپنی ایک فرمانبردار امت اٹھا، اور ہمیں ہمارے عبادت کے طریقے بتا اور ہماری توبہ قبول فرما۔ بے شک تو توبہ قبول کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ اور اے ہمارے رب! تو ان میں انھی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کو تیری آیتیں سنائے، اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔ بے شک تو غالب اور حکمت والا ہے۔ ”

یہ عظیم باپ بیٹا، جن کا ہر عمل اسلام کی روح سے دوسروں کو آشنا کرنے والا ہے، سب سے پہلے اپنے اسلام اور کامل فرماں برداری کی دعا کرتے، اس لیے کہ اسلام کے درجات و مراتب کی کوئی حد نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی نسل کی خیرخواہی میں اس کے اندر ایک امت مسلمہ کے اٹھائے جانے کی التجا کرتے جو ان باپ بیٹا کی روش پر چلنے والی ہو،

وہ اپنے رب کی وحدانیت پر کامل یقین رکھنے والی، فرامین الٰہی پر دل و جان سے کاربند اور یک سوئی کے ساتھ رب کی اطاعت شعار ہو۔ اس کے بعد وہ اپنی نسل میں ایک ایسے رسول کے مبعوث کیے جانے کی درخواست کرتے جس کے پاس اللہ کا کلام ہو،

وہ امت مسلمہ کو کتاب الٰہی اور حکمت دین کی تعلیم دے، اس کا تزکیہ کرے اور ان کے اخلاق و کردار کو سنوارے۔ یہ دعا چونکہ بیت اللہ کے دونوں معزز و محترم معماروں نے مل کر اپنی اولاد کے حق میں کی ، اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ اولاد اس میں شامل نہیں ہو سکتی جو ان کے دوسرے بیٹے اسحاق علیہ السلام کی نسل سے تھی۔ اس دعا کے مطابق امت مسلمہ اصلاً بنو اسماعیل پر مشتمل ہونی تھی اور اس رسول کی بعثت کہ جس کے بھیجے جانے کی آرزو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کی، بنواسماعیل ہی میں ہونی تھی۔

باپ بیٹے کو ان عبادات کے ادا کرنے کے طریقے اور مناسک سکھائے گئے۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید میں یوں بیان ہوا ہے:

وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا. وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیمَ مُصَلًّی. وَ عَھِدْنَآ اِلٰی اِبْرٰھٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّاءِفِینَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ.(البقرہ ۲ :۱۲۵)/strong>

”اور یاد کرو جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ بنایا اور حکم دیا کہ مسکن ابراہیم میں ایک نماز کی جگہ بناؤ اور ابراہیم اور اسماعیل کو ذمہ دار بنایا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔”

وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِینَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَہُمْ وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْ اَیّامٍ مَّعْلُومٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الاَنْعَامِ فَکُلُوا مِنْھَا وَ اَطْعِمُوا الْبَاءِسَ الْفَقِیرَ. ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ.(الحج ۲۲: ۲۷۔۲۹)

”اور لوگوں میں حج کی منادی کرو ، وہ تمھارے پاس آئیں گے پیادہ بھی اور نہایت لاغر اونٹنیوں پر بھی جو دور دراز گہرے پہاڑی راستوں سے پہنچیں گی، تاکہ لوگ اپنی منفعت کی جگہوں پر بھی پہنچیں اور چند خاص دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام بھی لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں۔ پس اس میں سے کھاؤ اور فاقہ کش فقیروں کو کھلاؤ۔ پھر وہ اپنے میل کچیل دور کریں، اپنی نذریں پوری کریں اور قدیم گھر کا طواف کریں۔”

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جو بیت اللہ کی نذر کیا گیا تو ان کی ذمہ داری یہ ٹھہری کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تعمیر کردہ اللہ کے اس گھر کو کبھی بت پرستی کا اڈا نہ بننے دیں۔ اس کی حیثیت توحید کے ایک مرکز کی ہو جہاں آ کر لوگوں کو اللہ واحد سے لو لگانے، اس سے اپنا تعلق استوار کرنے اور یک سوئی کے ساتھ اس کی خاص عبادات کا موقع ملے۔ لہٰذا اسماعیل علیہ السلام اس کو طواف کرنے والوں اور نماز ادا کرنے والوں کے لیے پاک و صاف رکھیں۔

وہ مکہ اور اس کے گرد و نواح میں بسنے والے لوگوں کو حج پر آنے کی دعوت دیں اور معین ایام میں حج و عمرہ پر آنے والوں کو سہولتیں فراہم کریں۔ ان کو مناسک حج سکھائیں اور اللہ کی راہ میں جانور قربان کرنے کی رسم ڈالیں۔ یہ لوگ جب سفر کامیل کچیل اتار لیں، خدا کی نذر کے جانور ذبح کر لیں اور بیت اللہ کا طواف کر لیں تو ان کا حج مکمل ہو جائے گا۔ یہ بشارت بھی دی گئی کہ جب حج کی منادی کی جائے گی تو لوگ ذوق و شوق سے اس مرکز کی طرف جمع ہوں گے اور راستوں کی دوری کی پروا بھی نہیں کریں گے۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جب بیت اللہ کی خدمت کے لیے مکہ میں بسایا گیا تو اس وقت یہ سرزمین بالکل غیرآباد ، وسائل رزق سے محروم اور پر خطر تھی۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی آبادی کی بھی دعا کی اور رزق و فضل کی کشائش اور امن و امان کی بھی۔ قرآن میں ان کی دعا یوں نقل ہوئی ہے:

وَ اِذْ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ. رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِی فَاِنَّہُ مِنِّیْ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْر” رَّحِیْم”. رَبَّنَآ اِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِی بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ۔ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْءِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْ اِلَیھِمْ وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّھُم یَشْکُرُوْنَ.(ابراہیم ۱۴ : ۳۵۔۳۷)

”اے ہمارے رب! اس سرزمین کو پر امن بنا اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس بات سے محفوظ رکھ کہ ہم بتوں کو پوجیں۔ اے میرے رب! ان بتوں نے لوگوں میں سے ایک خلق کثیر کو گمراہ کر رکھا ہے تو جو میری پیروی کرے وہ تو مجھ سے ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تو بخشنے والا مہربان ہے۔

اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد میں سے ایک بن کھیتی کی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے۔ اے ہمارے رب، تاکہ وہ نماز کا اہتمام کریں تو تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور ان کو پھلوں کی روزی عطا فرما تاکہ وہ تیرا شکر ادا کریں۔”

یہ دعا قبول ہوئی اور اس زمانہ سے آج تک مکہ مکرمہ تجارت کا ایک ایسا مرکز رہا ہے جہاں ہر شہری سہولت میسر ہے اور وہاں کے باشندے تجارت ہی سے رزق پاتے ہیں۔ خانہ کعبہ کی بدولت جو تقدس اس شہر کو حاصل ہوا اور حج اور عمرہ کی عبادات کی عظمت جو دلوں میں قائم ہوئی ، اس کی بدولت نہ صرف حرم کعبہ میں، بلکہ پورے ملک میں، مخصوص مہینوں میں امن و امان قائم رہتا جس کی بدولت حج و عمرہ کے لیے آنے والے بحفاظت اپناسفر کر سکتے ، بلکہ ان مہینوں میں تجارت بھی ممکن ہوتی۔

Leave a Comment