کیا واقعی پاکستان چاند پر جا رہا ہے؟
Table of Contents
جی بالکل، پاکستان چاند پر جا رہا ہے۔ پاکستان کا تیار کردہ سیٹلائٹ چینی مشن کے ساتھ چینی راکٹ کے ذریعے چاند کے مدار تک پہنچے گا۔ اور تین سے چھ ماہ تک مدار کے گرد چکر لگا کر چاند کی تصاویر اور دیگر ڈیٹا لے کر پاکستان میں قائم زمینی اسٹیشن تک بھیجے گا۔
کیوبک سیٹلائٹ کا وزن بہت کم ہے تو اس کی اہمیت کیا ہے؟
اول یہ کیوبک نہیں کیوب سیٹلائٹ ہے۔ جس کا نام “آئی کیوب قمر” ہے۔ کیوب سیٹلائٹ چھوٹی جسامت کے ہوتے ہیں۔ جن کا وزن چند کلوگرام ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جو لوگ راکٹ کے وزن سے سیٹلائٹ کے وزن کا موازنہ کر رہے ہیں وہ بالکل غلط ہے۔ یہ سچ ہے کہ کیوب سیٹلائٹ کا وزن محض چھ کلوگرام ہے۔ لیکن راکٹ کے وزن سے اس کا موازنہ نہیں بنتا۔ راکٹ میں فیول اور دیگر میکنزمز کا وزن زیادہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اپنے راکٹ کے ذریعے خلاء میں مشن بھیجنا ہمیشہ مہنگا سودا ہوتا ہے۔ جسے پاکستان نے چین کے ذریعے طے کیا۔
پاکستانی سیٹلائٹ میں خاص کیا ہے؟
کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ آئی کیوب قمر کو تیار کرنے کے لیے دو سال لگے۔ انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی اسلام آباد کی جانب سے تیار کردہ اس سیٹلائٹ کو بنانے میں الیکٹریکل، میٹیریئل سائنس، ایوی آنکس، ایرو سپیس، میکینکل انجینیئرنگ اور کمپیوٹر سائنسز کے طلبا و ماہرین نے محنت کی۔ اس میں علیحدہ ہونے والے میکنزم، سٹار سینسر، ماونٹنگ بریکٹ اور کمیونیکیشن سسٹم نصب کیا گیا ہے۔ اس کی مدد سے چاند کی تصاویر بھیجی جا سکیں گی۔ جو کہ مستقبل میں مزید تحقیق اور تعلیم کے کام آ سکیں گی۔
اس مشن میں پاکستان کے لیے خاص کیا ہے؟
دیکھیں، دنیا کے چھ ممالک ایسے ہیں جو براہ راست اپنے خرچ یعنی اپنے راکٹس کی مدد سے چاند یا اس کے مدار تک جا سکے ہیں۔ یہ ممالک امریکہ، روس، چین، بھارت، جاپان اور یورپی یونین ہیں۔ جبکہ ان کے علاؤہ جنوبی کوریا، لگزمبرک اور اٹلی وہ ممالک ہیں جو امریکی و چینی راکٹوں کے سہارے چاند تک پہنچے ہیں۔(بی بی سی)
اور اب پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جو اس فہرست میں شامل ہوا ہے۔ یوں یہ بات پاکستان کے لیے اعزاز ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کے آٹھ ممالک نے اس مشن کے ذریعے اپنا سیٹلائٹ مفت بھجوانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ لیکن ان میں قرعہ فال پاکستان کے نام نکلا۔ اور اس کی وجہ آئی ایس ٹی کے تیار کردہ پرپوزل کا سب سے بہتر ہونا بنی۔
کیا اس مشن کا موازنہ بھارتی چندریان سے کیا جا سکتا ہے؟
ہرگز نہیں۔ بھارت نے اپنی کم خرچ ٹیکنالوجی کی مدد سے چاند پر مشن بھیجا۔ جبکہ پاکستان چینی راکٹ کے سہارے چاند پر جا رہا ہے۔ ویسے بھی دونوں مشنز کا تکنیکی و دیگر موازنہ نہیں بنتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اپنے مشن کو بے کار سمجھیں۔ ہمارا مسئلہ یہی کہ دو انتہاؤں پر سوچتے ہیں۔ یا تو براہ راست خود کو چاند پر سمجھ رہے ہیں یا پھر اس مشن کی اہمیت سے ہی سرے سے انکار۔۔۔۔ جبکہ بات ان انتہاؤں سے ہٹ کر ہے۔
ماضی میں سپارکو اس سے کہیں آگے تھا تو اب ڈھول بجانے کی کیا ضرورت؟
کب تک ماضی کو پیٹتے رہیں گے؟ آخر کہیں سے تو ابتداء کرنی ہے۔ آرمسٹرانگ نے چاند پر قدم رکھتے کہا تھا کہ انسان کا یہ چھوٹا سا قدم انسانیت کی بہت بڑی چھلانگ ہے۔ بعینہٖ پاکستان کی جانب سے بھیجا گیا یہ چھوٹا کیوب سیٹلائٹ ایک بہت بڑے روشن دور کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے طلباء میں تحقیق و جستجو کی نئی راہیں کھلیں گی۔
کیا اس مشن کی سوشل میڈیا پر اتنی تشہیر کی جانی چاہیے؟
جی بالکل، اس مشن کا تذکرہ پواڑی گرل، چاہت فتح علی خان ، لاہور دا پاوا، پروگرام وڑ گیا، ویڈیو لیک وغیرہ وغیرہ جیسی فضولیات سے ہزار ہا درجے بہتر ہے۔ پاکستان اور پاکستانی طلباء کی جانب سے بہت اچھا قدم ہے۔ جتنی تحسین و ستائش کی جائے اتنی کم ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ سوشل میڈیا پر ڈسکس کیا جانا چاہیے۔ اور خود پر فخر کریں۔ آج نہیں تو کل ہم ان شاءاللہ اس قابل بھی ہوں گے کہ ہمارے اپنے خلائی مرکز سے راکٹ پروان بھریں گے اور چاند پر موجود کالونیوں تک انسانوں کو لے کر جائیں گے اور وہاں سے آگے مریخ اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ “سیاروں” سے آگے جہاں اور بھی ہیں.
آخر ہزار میل لمبے سفر کی شروعات بھی گھر سے اٹھائے گئے پہلے اور چھوٹے سے قدم سے ہی ہوتی ہے۔
اس لیے فخر کیجیے، شکر کیجئے۔ زیادہ سے زیادہ شئیر کیجیے۔ اس پر بات کیجیے۔ نوجوانوں میں ایسے موضوعات کو فروغ دیجیے۔
اپنا اور اپنوں کا خیال رکھیے۔
ندیم رزاق کھوہارا