سیرت النبی -چاند دو ٹکڑے کا معجزہ

سیرت النبی – عنوان: چاند دو ٹکڑے کا معجزہ

عبداللہ بن جدان نے فوراً قریش کو ایک سو درہم دیے تاکہ بتوں کی جو توہین ہوئی ہے، اس کے بدلے ان کے نام پر کچھ جانور ذبح کردیے جائیں۔ پھر وہ حضرت بلال رضی الله عنہ کی طرف بڑھا۔ اس نے انہیں رسی سے باندھ دیا۔ تمام دن بھوکا اور پیاسا رکھا۔ پھر تو یہ اس کا روز کا معمول بن گیا۔ جب دوپہر کے وقت سورج آگ برسانے لگتا تو انہیں گھر سے نکال کر تپتی ہوئی ریت پر چت لٹا دیتا۔

سیرت النبی -چاند دو ٹکڑے کا معجزہ

 اس وقت ریت اس قدر گرم ہوتی تھی کہ اگر اس پر گوشت کا ٹکڑا رکھ دیا جاتا تو وہ بھی بھن جاتا تھا۔ وہ اسی پر بس نہیں کرتا تھا، ایک وزنی پتھر منگاتا اور ان کے سینے پر رکھ دیتا تاکہ وہ اپنی جگہ پر سے ہل بھی نہ سکیں۔ پھر وہ بدبخت ان سے کہتا: 

” اب یا تو محمد کی رسالت اور پیغمبری سے انکار کر اور لات و عزیٰ کی عبادت کر ورنہ میں تجھے یہاں اسی طرح لٹائے رکھوں گا، یہاں تک کہ تیرا دم نکل جائے گا۔ “

حضرت بلال رضی الله عنہ اس کی بات کے جواب میں فرماتے: 

” احد…. احد ۔ “

یعنی الله تعالٰی ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ۔

جب حضرت بلال رضی الله عنہ کسی طرح اسلام سے نہ ہٹے تو تنگ آکر عبدالله بن جدعان نے انہیں امیہ بن خلف کے حوالے کردیا۔ اب یہ شخص ان پر اس سے بھی زیادہ ظلم و ستم ڈھانے لگا۔ 

ایک روز انہیں اسی قسم کی خوفناک سزائیں دی جارہی تھیں کہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اس طرف سے گزرے ۔حضرت بلال رضی الله عنہ شدت تکلیف کی حالت میں احد احد پکار رہے تھے۔آپ نے انہیں اس حالت میں دیکھ کر فرمایا: 

” بلال! تمہیں یہ احد احد ہی نجات دلائےگا۔ “

پھر ایک روز حضرت ابوبکر رضی الله عنہ اس طرف سے گزرے۔ امیہ بن خلف نے انہیں گرم ریت پر لٹا رکھا تھا۔ سینے پر ایک بھاری پتھر رکھا ہوا تھا۔انہوں نے یہ دردناک منظر دیکھ کر امیہ بن خلف سے کہا: 

” کیا اس مسکین کے بارے میں تمہیں الله کا خوف نہیں آتا، آخر کب تک تم اسے عذاب دیے جاؤگے۔”

امیہ بن خلف نے جل کر کہا: 

” تم ہی نے اسے خراب کیا ہے، اس لیے تم ہی اسے نجات کیوں نہیں دلادیتے۔”

اس کی بات سن کر حضرت ابوبکر رضی الله عنہ بولے: 

” میرے پاس بھی ایک حبشی غلام ہے، وہ اس سے زيادہ طاقتور ہے اور تمہارے ہی دین پر ہے، میں ان کے بدلے میں تمہیں وہ دے سکتا ہوں ۔”

یہ سن کر امیہ بولا: 

” مجھے یہ سودہ منظور ہے۔ “

یہ سنتے ہی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا حبشی غلام اس کے حوالے کردیا۔ اس کے بدلے میں حضرت بلال رضی الله عنہ کو لے لیا اور آزاد کردیا۔ سبحان الله! کیا خوب سودہ ہوا، یہاں یہ بات جان لینی چاہئے کہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کا حبشی غلام دنیا کے لحاظ سے بہت قیمتی تھا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امیہ بن خلف نے غلام کے ساتھ دس اوقیہ سونا بھی طلب کیا تھا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے اس کا یہ مطالبہ بھی مان لیا تھا چنانچہ آپ نے اسے ایک یمنی چادر اور کچھ سونا دیا تھا – ساتھ ہی آپ نے امیہ بن خلف سے فرمایا تھا:

“اگر تم مجھ سے سو اوقیہ سونا بھی طلب کرتے تو بھی میں تمہیں دے دیتا -” 

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اور بھی بہت سے غلام مسلمانوں کو خرید کر آزاد فرمایا تھا، یہ وہ مسلمان غلام تھے جنہیں اللہ کا نام لینے کی وجہ سے ظلم کا نشانہ بنایا جارہا تھا – ان میں ایک حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی والدہ حمامہ رضی اللہ عنہا تھیں – ایک عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ تھے – انہیں اللہ کا نام لینے پر بڑے بڑے سخت عذاب دیے جاتے –

یہ قبیلہ بنی تیم کے ایک شخص کے غلام تھے – وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا رشتے دار تھا – آپ نے اپنے رشتے دار سے خرید کر انہیں بھی آزاد فرمایا – ایک صاحب ابو فکیہ رضی اللہ عنہ تھے – یہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے غلام تھے – یہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی مسلمان ہوئے تھے –

صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ بھی ابتدا میں مسلمانوں کے سخت مخالف تھے – وہ فتح مکہ کے بعد اسلام لائے تھے – ایک روز انہوں نے حضرت ابو فکیہ رضی اللہ عنہ کو گرم ریت پر لٹا رکھا تھا – ایسے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس طرف سے گزرے – اس وقت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ یہ الفاظ کہہ رہے تھے:

“اسے ابھی اور عذاب دو، یہاں تک کہ محمد یہاں آکر اپنے جادو سے اسے نجات دلائیں -” 

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی وقت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے انہیں خرید کر آزاد کردیا – 

اسی طرح زنیرہ رضی اللہ عنہا نامی ایک عورت کو مسلمان ہونے کی بنیاد پر اس قدر خوفناک سزائیں دی گئیں کہ وہ بےچاری اندھی ہوگئیں، ایک روز ابوجہل نے ان سے کہا:

جو کچھ تم پر بیت رہی ہے، یہ سب لات و عزی کر رہے ہیں.

یہ سنتے ہی زنیرہ رضی اللہ عنہا نے کہا.

ہر گز نہیں، اللہ کی قسم، لات و عزی نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں، نہ کوئی نقصان… یہ جو کچھ ہو رہا ہے، آسمان والے کی مرضی سے ہو رہا ہے. میرے پروردگار کو یہ بھی قدرت ہے کہ وہ مجھے میری آنکھوں کی روشنی لوٹا دے.

دوسرے دن وہ صبح اٹھیں تو ان کی آنکھوں کی روشنی اللہ تعالٰی نے لوٹا دی تھی.

اس بات کا جب کافروں کو پتا چلا تو تو وہ بول اٹھے.

یہ محمد کی جادوگری ہے.

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انھیں بھی خرید کر آزاد کر دیا.

آپ نے زنیرہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی کو بھی خرید کر آزاد کیا. اسی طرح نہدیہ نام کی ایک باندی تھیں. ان کی ایک بیٹی بھی تھیں. دونوں ولید بن مغیرہ کی باندیاں تھیں. انھیں بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آزاد کر دیا.

عامر بن فہیرہ کی بہن اور ان کی والدہ بھی ایمان لے آئی تھیں. یہ حضرت عمر کے مسلمان ہونے سے پہلے ان کی باندیاں تھیں. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انھیں بھی خرید کر آزاد کر دیا.

ایمان لانے والے جن لوگوں پر ظلم ڈھائے گئے. ان میں سے ایک حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بھی ہیں. کافروں نے انھیں اسلام سے پھیرنے کی کوششیں کیں مگر یہ ثابت قدم رہے. انہیں جاہلیت کے زمانے میں گرفتار کیا گیا تھا، پھر انہیں ایک عورت ام انمار نے خرید لیا، یہ ایک لوہار تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ان کی دل جوئی فرماتے تھے. ان کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے

. جب یہ مسلمان ہو گئے اور ام انمار کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے انہیں بہت خوفناک سزائیں دیں. وہ لوہے کا کڑا لے کر آگ میں گرم کرتی٬ خوب سرخ کرتی٬پھر اس کو حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے سر پر رکھ دیتی، آخر حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے اپنی مصیبت کا ذکر کیا تو آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی دعا کے فوراً بعد اس عورت کے سر میں شدید درد شروع ہو گیا. اس سے وہ کتوں کی طرح بھونکتی تھی، آخر کسی نے اسے علاج بتایا کہ وہ لوہا تپا کر سر پر رکھوائے، اس نے یہ کام حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے ذمے لگایا. اب آپ وہ حلقہ خوب گرم کر کے اس کے سر پر رکھتے۔۔۔ 

حضرت خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی خدمت میں گیا اور یہ وہ زمانہ تھا جب ہم پر خوب ظلم کیا جاتا تھا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے عرض کیا.

اے اللہ کے رسول، کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے.

میرے الفاظ سنتے ہی آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا۔پھر آپ نے فرمایا۔

تم سے پہلی امت کے لوگوں کو اپنے دین کے لیے کہیں زیادہ عذاب برداشت کرنے پڑے٬ ان کے جسموں پر لوہے کی کنگھیاں کی جاتی تھیں، جس سے ان کی کھال اور ہڈیاں الگ ہو جاتی تھیں، مگر یہ تکالیف بھی انہیں ان کے دین سے نہ ہٹا سکیں۔

ان کے سروں پر آرے چلا چلا کر ان کے جسم دو کر دییے گئے مگر وہ اپنا دین چھوڑنے پر تیار پھر بھی نہ ہوئے. اس دین اسلام کو اللہ تعالٰی اس طرح پھیلا دے گا کہ صنعاء کے مقام سے حضر موت جانے والے سوار کو سوائے اللہ تعالٰی کے کسی کا خوف نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ چرواہے کو اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیوں کا ڈر نہیں ہو گا۔

حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دن میرے لیے آگ دہکائی گئی، پھر وہ آگ میری کمر پر رکھ دی گئی اور پھر اس کو اس وقت تک نہیں ہٹایا گیا جب تک کہ وہ آگ میری کمر کی چربی سے بجھ نہ گئی۔

ایسے ہی لوگوں میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بھی تھے، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو ان کے دین سے پھیرنے کے لیے مشرکوں نے طرح طرح کے ظلم کیے، آگ سے جلا جلا کر عذاب دیے، مگر وہ دین پر قائم رہے۔

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں.

ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اس طرف تشریف لے جا رہے تھے اس وقت حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو آگ سے جلا جلا کر تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں۔ ان کی کمر پر جلنے کی وجہ سے کوڑھ جیسے سفید داغ پڑ گئے تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا۔

اے آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا، جیسا کہ تو ابراہیم علیہ السلام کے لیے ہو گئی تھی۔

اس دعا کے بعد انہیں آگ کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی۔

حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر، ان کے والد یاسر، ان کے بھائی عبداللہ اور ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہم، ان سبھی کو اللہ کا نام لینے کی وجہ سے سخت ترین عذاب دیے گئے۔ ایک روز جب انہیں تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اس طرف سے گزرے، آپ نے ان کی تکالیف کو دیکھ کر فرمایا.

اے اللہ، آل یاسر کی مغفرت فرما.

ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کو ابو جہل کے چچا حذیفہ بن ابن مغیرہ نے ابو جہل کے حوالے کر دیا۔یہ اس کی باندی تھیں۔ابو جہل نے انہیں نیزہ مارا۔اس سے وہ شہید ہو گئیں۔ اس طرح اسلام میں انہیں سب سے پہلی شہید ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔آخر انہی مظالم کی وجہ سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے والد یاسر رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو گئے۔

اپنے ان مظالم اور بدترین حرکات کے ساتھ ساتھ یہ لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معجزات کا مطالبہ بھی کرتے رہتے تھے۔

ایک روز ابو جہل دوسرے سرداروں کے ساتھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور بولا:

“اے محمد! اگر تم سچے ہو تو ہمیں چاند کے دو ٹکڑے کرکے دکھاؤ، وہ بھی اس طرح کہ ایک ٹکڑا ابو قبیس پہاڑ پر نظر آئے اور دوسرا قعیقعان پہاڑ پر نظر آئے۔”

مطلب یہ تھا کہ دونوں ٹکڑے کافی فاصلے پر ہوں تاکہ اس کے دو ٹکڑے ہونے میں کوئی شک نہ رہ جائے۔

اس روز مہینے کی چودھویں تاریخ تھی۔ چاند پورا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی یہ عجیب فرمائش سن کر فرمایا:

“اگر میں ایسا کر دکھاؤں تو کیا تم ایمان لے آؤ گے ۔”

انہوں نے ایک زبان ہو کر کہا:

“ہاں!بالکل! ہم ایمان لے آئیں گے۔”

“آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالٰی سے دعا فرمائی کہ آپ کے ہاتھ سے ایسا ہوجائے،چنانچہ چاند فوراً دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس کا ایک حصہ ابوقبیس کے پہاڑ کےاوپر نظر آیا، دوسرا قعیقعان پہاڑ پر، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

“لو اب گواہی دو۔”۔۔۔۔۔

ان کے دلوں پر تو قفل پڑے تھے، کہنے لگے:

“محمد نے ہم لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا ہے۔”

کچھ نے کہا:

“محمد نے چاند پر جادو کردیا ہے مگر ان کے جادو کا اثر ساری دنیا کے لوگوں پر نہیں ہو سکتا۔”

مطلب یہ تھا کہ ہر جگہ کے لوگ چاند کو دو ٹکڑے نہیں دیکھ رہے ہوں گے۔ اب انہوں نے کہا:

“ہم دوسرے شہروں سے آنے والوں سے یہ بات پوچھیں گے۔”

چنانچہ جب مکہ میں دوسرے شہروں کے لوگ داخل ہوئے تو انہوں نے چاند کے بارے میں ان سے پوچھا، آنے والے سب لوگوں نے یہی کہا:

“ہاں ہاں! ہم نے بھی چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔”

یہ سنتے ہی مشرک بول اٹھے:

“بس! پھر تو یہ عام جادو ہے، اس کا اثر سب پر ہوا ہے۔”

کچھ نے کہا:

“یہ ایک ایسا جادو ہے جس سے جادوگر بھی متاثر ہوئے ہیں۔”

یعنی جادوگروں کو بھی چاند دو ٹکڑے نظر آیا ہے۔ 

اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ قمر کی آیات نازل فرمائی۔

“ترجمہ: قیامت نزدیک آ پہنچی اور چاند شق ہوگیا اور یہ لوگ کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں، یہ جادو ہے جو ابھی ختم ہو جائے گا۔

مختلف قوموں کی تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چاند کا دو ٹکڑے ہونا صرف مکہ میں نظر نہیں آیا تھا بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی اس کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ 

اسی طرح ایک دن مشرکین نے کہا:

“اگر آپ واقعی نبی ہیں تو ان پہاڑوں کو ہٹادیجئے جن کی وجہ سے ہمارا شہر تنگ ہورہا ہے۔ تاکہ ہماری آبادیاں پھیل کر بس جائیں۔ اور اپنے رب سے کہہ کر ایسی نہریں جاری کرادیں جیسی شام اور عراق میں ہیں اور ہمارے باپ دادوں کو دوبارہ زندہ کراکے دکھائیں۔

ان دوبارہ زندہ ہونے والوں میں قصی بن کلاب ضرور ہو، اس لئے کہ وہ نہایت دانا اور عقل مند بزرگ تھا۔ ہم اس سے پوچھیں گے، آپ جو کچھ کہتے ہیں، سچ ہے یا جھوٹ، اگر ہمارے ان بزرگوں نے آپ کی تصدیق کردی اور آپ نے ہمارے یہ مطالبے پورے کردیئے تو ہم آپ کی نبوت کا اقرار کرلیں گے اور جان لیں گے کہ آپ واقعی اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں، اللہ تعالٰی نے آپ کو ہماری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے…جیسا کہ آپ دعوی کرتے ہیں۔”

ان کی یہ باتیں سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

“مجھے ان باتوں کے لئے تمہاری طرف رسول بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ میں تو اس مقصد کے لیے بھیجا گیا ہوں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تالیف: عبداللہ فارانی

سیرت النبی -چاند دو ٹکڑے کا معجزہ

سیرت النبی -چاند دو ٹکڑے کا معجزہ

سیرت النبی -چاند دو ٹکڑے کا معجزہ

سیرت النبی -چاند دو ٹکڑے کا معجزہ

چاند دو ٹکڑے کا معجزہ

چاند دو ٹکڑے کا معجزہ

چاند دو ٹکڑے کا معجزہ

چاند دو ٹکڑے کا معجزہ

چاند دو ٹکڑے کا معجزہ

چاند دو ٹکڑے کا معجزہ

Leave a Comment