یورپ اور ایمان
Table of Contents
جب اسپین پندرویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا تو لاکھوں لوگوں کو دھوکے سے بیچ سمندر شہید کر دیا گیا جسے عیسائی اپرل فول کے نام سے یاد کرتے ہیں جن مسلمانوں نے کسی بھی معاہدے کے تحت وہاں رہنا پسند کیا وہ رہ گئے مگر ان کی دوسری نسل پہلے اپنے داداؤں اور پرداداوں کے نام بھولی اور چوتھی اور پانچویں نسل اپنا دین اسلام بھی بھول گئ اور پھر ابن سعد ابن محمد ابن مالک وغیرہ کی جگہ جوزف سمتھ بٹلر زیگ اور ٹومی نومی جیسے نام شروع ہو گئے اور تقریباً سو ڈیڑھ سو سال بعد شائد ہی کوئی قدیم مسلمان رہ گئے ہونگے۔
اج جو والدین اپنی اولاد کو یورپ اور امریکہ کی نیشنیلٹی دلوانے کے لیے زمین جائیدادیں زیورات بیچ کر اور قرضے اٹھا کر گرین کارڈ دلوا رہے ہیں ان کی بھی چوتھی یا پانچویں نسل اپنے آباؤ اجداد اور مذہب کو بھول کر محمد ۔
احمد اور نوید احمد کی بجائے تھامسن رینگی ڈینگی کے ناموں سے پہنچانی جا رہی ہو گی ۔
وہ لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہونگے جو اپنے مذہب تہذیب و تمدن اور کلچر سے آشنا رہیں گے۔میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ وہ بچے جو مدارس سے قرآن کریم اپنے سینوں میں محفوظ کر کے یورپ یا امریکا چلے گئے ہیں ان میں سے 96 فیصد نہ صرف حفظ قرآن بھول چکے ہیں بلکہ زیادہ تر ناظرہ قرآن تک بھول گئے ہیں ہم نے کبھی سوچا ہے کہ محض چند روزہ زندگی کی آسائشوں کی خاطر آخرت کی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی کتنا بدترین سودا کر رہے ہیں ۔
کسب معاش سے دین اسلام روکتا تو نہیں بلکہ قرآن کریم دعوت دیتا ہے کہ زمین پر گھومو پھرو اور خدا کا فضل تلاش کرو اور اس کے عجائبات اور قدرتوں کا مشاہدہ کرو ۔
مگر اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کا نہیں کہا گیا میرے ایک یورپی شاگرد نے کہا تھا کہ سر جی ہزار احتیاط کے باوجود ہم سال میں ایک دو کلو سور کھا ہی جاتے ہیں مگر خصوصاً پاکستان کی عوام پر تو یورپ اور امریکہ کا شہری بننے کا جنون سوار ہے ۔
یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ایمان کمزور ہو رہےہیں مسجدیں ویران ہو رہی ہیں اور انسانیت اور رشتوں کا تقدس ختم ہو رہا ہے اور جہاد کے جذبات سرد ہوتے جا رہے ہیں ۔
اور کہتے ہیں کہ او جی یہ ملک پاکستان تو رہنے کے قابل ہی نہیں رہا ۔
تھوڑا نہیں بہت زیادہ سوچیں۔
اخرت کی دائمی زندگی یا پھر دنیا کی چند ساعتوں کی زندگی۔