قصہ حضرت یونس علیہ السلام

قصہ حضرت یونس علیہ السلام

قصہ حضرت یونس علیہ السلام

حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم کو راہِ خدا کی دعوت دی لیکن قوم ایمان نہ لائی۔ قبل اس کے کہ خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم آتا اور آپؑ اپنی ڈیوٹی چھوڑ دیتے، آپ علیہ السلام وہاں سے ناراض ہو کر چل دیئے اور ان لوگوں سے فرمایا کہ تین 

دن میں تم پر اللہ کا عذاب آ جائے گا،

 جب قوم کو اس بات کی تحقیق ہو گئی اور انہوں نے جان لیا کہ انبیاء علیہم السلام جھوٹے نہیں ہوتے تو یہ سب کے سب چھوٹے بڑے مع بادشاہ کے اپنے جانوروں اور مویشیوں کو لے کر اور بے قرار ہو کر جنگل میں سچی توبہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے،

 بچوں کو ماؤں سے جدا کر دیا گیا اور بلک بلک کر نہایت عاجزی سے اللہ کے حضور گریہ و زاری شروع کر دی۔

 ایک طرف ان کی آہ و بکا اور دوسری طرف جانوروں کی فریاد، الغرض رحمتِ خدا وندی متوجہ ہوئی اور عذاب اٹھا لیا گیا۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:

’’پھر کیا کوئی ایسی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لئے نفع بخش ثابت ہوا ہو؟ یونس علیہ السلام کی قوم کے سوا (اس کی کوئی نظیر نہیں) وہ قوم جب ایمان لے آئی تو ہم نے اس پر سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا اور اس کو ایک مدت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دے دیا تھا‘‘۔۔۔ (یونس :98)

حضرت یونس علیہ السلام یہاں سے چل کر، ایک کشتی میں سوار ہوئے۔ آگے جا کر طوفان کے آثار نمودار ہوئے۔

 تمام کشتی والے گھبرا گئے۔ قریب تھا کہ کشتی ڈوب جائے سب نے مل کر سوچ و بچار کی کہ طوفان میں یہ کشتی کیوں آئی؟

 جس کے جواب میں ایک عمر رسیدہ شخص نے کہا کہ میرا تمام عمر کا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ جب کوئی غلام اپنے آقا سے بھاگ کر کشتی میں سوار ہوتا ہے، تو یقیناً کشتی میں ایسا ہی طوفان آتا ہے،

 پس آواز دی جائے کہ جو غلام اپنے آقا سے بھاگا ہوا ہے وہ اپنے آپ کو ظاہر کر دے کہ تمام اہل کشتی کی ہلاکت سے اس بھگوڑے غلام کی ہلاکت بہتر ہے، باہم مشورے سے قرعہ ڈالا گیا، تو حضرت یونس علیہ السلام کے نام نکلا، لیکن کسی نے آپؑ کو دریا میں ڈالنا پسند نہ کیا۔ دو بارہ قرعہ ڈالا گیا تو آپؑ ہی کا نام نکلا۔ تیسری مرتبہ پھر قرعہ ڈالا، تو پھر آپؑ ہی کا نام نکلا 

چنانچہ خود قرآن میں ارشاد ہے:

’’پھر قرعہ اندازی میں شریک ہوا اور اس میں مات کھائی‘‘۔۔۔ (الصفت 141)

اب کے حضرت یونس علیہ السلام خود کھڑے ہو گئے، کپڑے اُتار کر دریا میں کود پڑے، بحر اخضر سے بحکم الٰہی ایک مچھلی پانی کاٹتی ہوئی آئی اور آپ ؑ کو لقمہ کر گئی۔

 لیکن بحکم الٰہی! 

نہ آپؑ کی ہڈی توڑی اور نہ جسم کو نقصان پہنچایا، آپؑ اس کے لئے غذا نہ تھے بلکہ اس کا پیٹ آپؑ کے لئے قید خانہ تھا، آپؑ مچھلی کے پیٹ میں جا کر پہلے تو سمجھے کہ میں مر گیا ہوں، پھر پاؤں کو حرکت دی تو وہ ہلا۔ یقین ہوا کہ میں زندہ ہوں، وہیں سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے۔ یا الٰہی! 

میں نے تیرے لئے اس جگہ کو مسجد بنایا، جسے اس سے پہلے کسی نے جائے سجود نہ بنایا ہوگا۔

حضرت یونس علیہ السلام کو وہ عظیم الشان مچھلی بحر محیط میں لیکر چلی اور وہ اس میں غوطہ زن ہوئی اور زمین کی تہہ میں پہنچی، جہاں اندھیرے ہی اندھیرے تھے۔

 سمندر کے نیچے کا اندھیرا مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا پھر رات کو اندھیرا۔ ان اندھیروں میں پھنس کر جب آپؑ سمندر کی تہہ میں پہنچے تو وہاں سمندر کی تہہ کی کنکریوں اور سمندر کے جانوروں کی تسبیح سنی، تو ان اندھیروں میں پکار اٹھے:

’’پس اس (یونسؑ ) نے اندھیروں میں (اللہ کو) پکارا کہ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں، آپ (سب نقائص سے) پاک ہیں، بے شک میں ہی قصور وارہوں‘‘۔۔۔(الانبیا87)

ان کلمات کی صدا عرش پر سنائی دی جانے لگی۔

 فرشتے کہنے لگے، بہت دور دراز کی یہ آواز ہے لیکن کان اس سے پہلے آشنا ضرور ہیں۔

 آواز بہت ضعیف ہے۔ 

جناب باری تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تم نے پہچانا نہیں؟

 یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے، فرشتوں نے کہا وہی یونسؑ جس کے پاک عمل قبول شدہ ہر روز آپ کی طرف آتے ہیں اور جس کی دعائیں آپ کے ہاں مقبول ہیں۔

 خدایا!

 جیسے وہ آرام کے وقت نیکیاں کرتا تھا تو اس مصیبت کے وقت اس پر رحم فرما۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے اس مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپؑ کو بغیر کسی تکلیف کے کنارے پر اُگل دے۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:

’’سو ہم نے ان کی دعا قبول کیا ور ان کو غم سے نجات دے دی (اندھیروں سے نکال دیا) اور اسی طرح اہل ایمان کو بھی ہم (کرب و بلا سے) نجات دیا کرتے ہیں‘‘۔۔۔

(الانبیاء 88)

حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے اگلنے کے بعد 

اس وقت آپ بہت ہی نحیف و کمزور ہوچکے تھے۔ خدا عزوجل کی شان کہ اُس جگہ کدو کی ایک بیل اُگ گئی اور آپ اُس کے سایہ میں آرام کرتے رہے پھر جب آپ میں کچھ توانائی آگئی تو آپ اپنی قوم میں تشریف لائے اور سب لوگ انتہائی محبت و احترام کے ساتھ پیش آ کر آپ پر ایمان لائے۔[2] ایک روایت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ذوالنون کی وہ دعا جو انہوں نے بطن ماہی میں کی تھی یعنی لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین جو مسلمان اپنے کسی مقصد کے لیے ان کلمات کے ساتھ دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائیں گے۔

 رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کدّوکو پسند فرماتے اور فرماتے: اِنَّھَاشَجْرَۃُ اَخِیْ یُوْنُسَ

یہ میرے بھائی یونس علیہ السلام کا درخت ہے

قصہ حضرت یونس علیہ السلام
قصہ حضرت یونس علیہ السلام

Leave a Comment