ہمیں کتابیں مہنگی لگتی ہیں
Table of Contents
ہمیں جوتے، کپڑے، پیزا، برگر مہنگا نہیں لگتا۔ہمیں دوائیاں بھی مہنگی نہیں لگتیں جو کم و بیش ہر گھر کی ضرورت بلکہ مجبوری ہیں لیکن ہمیں کتابیں مہنگی لگتی ہیں۔
ہماری آبادی 25 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، اس آبادی کا ایک فی صد بھی کتاب خرید کر نہیں پڑھتا۔ہمارے کسی بھی مشہور مصنف کی کتاب(ایک آدھ کو چھوڑ کر) کا پہلا ایڈیشن کئی سالوں تک فروخت نہیں ہوتا۔ایڈیشن بھی کون سا لاکھوں کا۔۔پہلے ایک ہزار کی تعداد میں ہوتا تھا، پھر پانچ سو اور اب تین سو کا۔اگر پبلشر اور خود مصنف کی مارکیٹنگ سے تین سو کا یہ ایڈیشن ایک سال میں بِک جائے تو مصنف لڈو بانٹتا پھرتا ہے۔ذرا سوچیے! پچیس کروڑ کا ملک اور کتاب کی اشاعت تین سو۔۔کتاب کی اوسط قیمت بھی یہی ہزار بارہ سو روپیہ۔
پھر بھی ہمیں کتابیں مہنگی لگتی ہیں۔
معاشیات کا بہت سادہ اصول ہے، جسے سمجھنے کے لیے آئن سٹائن کے دماغ یا کسی یونیورسٹی کی سند کی ضرورت نہیں ہے کہ جب کسی چیز کی پیداواری لاگت بڑھتی ہے تو اس کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔گزشتہ دو چار برس میں مہنگائی کا طوفان آ گیا۔ڈالر، تیل، آٹا، چینی، گھی ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھونے لگی ہے۔ایسے میں کتاب کیوں کر سستی رہے گی۔جب دکان کا کرایہ بڑھ گیا، کاغذ کی قیمت بڑھ گئی، ملازمین کی تنخواہ، بجلی کا بل، پرنٹنگ کا خرچ، جلد ساز کی مزدوری، ٹرانسپورٹیشن، ہر چیز بڑھ گئی تو کتاب کی قیمت بھی بڑھ گئی۔
اس پر مستزاد عالم تمام نیو کیپیٹل ازم کے حلقہ ء دام خیال میں یے، صارفی کلچر کے اپنے اصول اور اپنے حربے ہیں۔منافع ہر حال میں مقدم ہے، یہاں دس ھزار سے سبزی کی ریڑھی کوئی قوم کی خدمت کے لیے نہیں لگاتا، کوئی لاکھوں کروڑوں کی سرمایہ کاری کیوں کرے گا اور کرے بھی کیوں؟
زیادہ دور مت جائیے! جو کپڑا اعظم مارکیٹ میں دو ہزار کا بکتا ہے وہی ایک مخصوص ٹیگ اور خوبصورت پیکنگ میں اسی شہر کی کسی دکان پر دس ہزار میں بھی ملتا ہے اور لوگ خوشی سے خریدتے بھی ہیں۔ہر اچھے برانڈ کی اے اور بی کاپی بھی مارکیٹ میں موجود ہے، جی چاہے تو وہ خرید لیں۔
یہی اصول کتاب کی پروڈکشن پر بھی لاگو ہوتا ہے۔سستے کاغذ پر، معمولی جلد کے ساتھ چھپنے والی کتاب پانچ سو میں مل جاتی یے، اچھے کاغذ پر، اعلا پرنٹنگ اور جدید تر ٹائٹل پرنٹنگ کے ساتھ شائع ہونے والی کتاب کی قیمت ایک ہزار سے اوپر ہوگی۔کتاب امپورٹ ہو کر آئے گی تو قیمت ڈالر میں ہوگی، اسی کتاب کی پائریٹڈ کاپی پانچ سات سو روپے کی ملے گی۔
ہم جوتا، کپڑا لیتے وقت، گاڑی ،موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوانے وقت حتیٰ کہ ہوٹل میں ایک وقت کا کھانا کھاتے وقت رعایت کا مطالبہ نہیں کرتے، الٹا اصل قیمت کے ساتھ سیلز ٹیکس بھی دیتے ہیں اور خوشی سے یا شوخی مارنے کے لیے سو، دو سو ٹپ بھی دے آتے ہیں۔
لیکن باری کتاب کی آئے تو ہمارے پاس ہزار دلیلیں اور جواز ہیں۔
کبھی ہم بند ہونے والی کتابوں کی دکانوں کی تصویریں دیکھ کر روتے ہیں، دل سوز شعر اور تحریریں پوسٹ کرتے ہیں اور کبھی چلتی دکانوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔
وجہ صرف اتنی ہے کہ گزشتہ چند برس میں سوشل میڈیا کی وجہ سے ،آن لائن کاروبار کی وجہ سےاور کچھ بک فیئرز کی وجہ کتابوں کی فروخت میں اضافہ ہونے لگا ہے، چند پبلشرز اچھی مارکیٹنگ کی وجہ سے منافع کمانے لگے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے نہ کہ حوصلہ شکنی کی۔کتاب والوں سے کہیں زیادہ منافع کھانے پینے کی اشیاء بیچنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں کما رہی ہیں اور پیسہ بھی ملک سے باہر منتقل کر رہی ہیں۔
رہی بات کسی دکان دار کے رویے کی تو رویّے انفرادی ہوتے ہیں۔اعتراض کرنے والوں میں سے کوئی تاجر ہو گا، کوئی استاد، کوئی ڈاکٹر، کوئی وکیل، کوئی صحافی۔۔۔۔اپنے اپنے شعبے میں اپنے اپنے رویّوں پر بھی غور کر لیجیے۔اگر ہم۔سب اتنے ہی ایماندار،دیانت دار،مخلص اور کمٹٹڈ ہوتے تو اس ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔کسی کے انفرادی غلط رویّے کی سزا پورے شعبے کو مت دیجیے!
کتاب پڑھنے والا سستی یا مہنگی کتاب نہیں دیکھتا، جسے شوق ہو وہ کوئی راہ نکال لیتا ہے۔آج سے تیس سال پہلے ایک غریب گھر کا طالب علم لاہور پڑھنے آیا تھا، اسے جو پیسے ملتے اس میں مشکل سے ہاسٹل اور کالج کے اخراجات پورے ہوتے تھے، اسے کتاب کا شوق تھا، اس نے ہاسٹل میس سے ناشتہ کرنا چھوڑ دیا، بچ جانے والے پیسوں سے ہر ماہ ایک کتاب خرید لیتا تھا۔کتابیں جمع ہوتی گئیں اورخالی پیٹ رہنے سے ایک مستقل بیماری بڑھتی گئی۔شوق کی قیمت دینی پڑتی ہے، کتاب کسی صورت بھی مہنگا شوق نہیں ہے۔
کتاب چھپنے دیں، کتاب کو بِکنے دیں۔
کتاب نہیں بکے گی تو دکانوں پر بارود بکے گا۔
ہمیں کتابیں مہنگی لگتی ہیں
ہمیں کتابیں مہنگی لگتی ہیں