تدارک فتنہ قادیانیت
Table of Contents
تاریخ شاہد ہے کہ ملت اسلامیہ کا اجتماعی ضمیر کبھی برداشت نہیں کرسکا کہ آنحضرت ﷺ کے بجائے کسی اور شخص کو محمد رسول اللہ ﷺاور رحمۃ للعالمین کی حیثیت سے کھڑا کیا جائے اور اس کے لیے وہ تمام حقوق و مناصب اور آداب و القاب تجویز کیے جائیں جو مسلمانوں کے مرکزِ عقیدت (ﷺ) کے ساتھ مختص ہیں، بایں ہمہ یہ اصرار بھی کیا جائے کہ وہ مسلمان ہے، ملک و ملت کا وفادار ہے اور مسلمانوں کو اس پر اعتماد کرنا چاہیے۔(بصائر و عبر، جلد دوم، ص ۱۷۸، ۱۷۹)
محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی تحریر کا یہ ایک اقتباس ہے، اس سے انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ حریم نبوت کی پاسبانی اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی نگہبانی ہر مسلمان کا دینی اور ملی فریضہ ہے اور مسلمانوں نے کسی بھی دور میں، کبھی بھی اس فریضے سے غفلت نہیں برتی،
حضور اکرم ﷺکے زمانے میں اسود عنسی اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مسیلمہ کذاب کو کیفر کردار تک پہنچانے سے لے کر آج تک جب کبھی کسی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرکے ردائے ختم نبوت کو تار تار کرنے کی کوشش کی تو امت مسلمہ نے اس کا مقابلہ کرکے اس کو شش کو ناکام بنادیا۔
حضور اکرم ـﷺکے زمانے سے آج تک ایک واقعہ بھی ایسا نہیں بتایا جاسکتا کہ کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہو اور مسلمانوں نے اس پر خاموشی اختیار کی ہو۔ہندوستان میں جب فتنہ قادیانیت نے سر اٹھایا تو امت مسلمہ اور علمائےامت اس کا سر کچلنے کے لیے میدان عمل میں اُترے۔ اس فتنے کے مقابلہ میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء اور مشائخ صف آرا ہوئے لیکن ان تمام سرکردہ علماء میں حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور علمائے حق اس فتنے کے مقابلے میں ہمیں صف اول میں نظر آتے ہیں۔
فتنہ قادیانیت ایک بدترین فتنہ ہے،یہ اسلام اور نبوت محمدی کے خلاف ایک بغاوت ہے ، یہ مسلمانوں کا حضور اکرم ﷺسے عظیم اور مضبوط رشتہ کاٹنے کی ایک گہری سازش ہے، مرزا غلام احمد قادیانی نے صرف اپنی جعلی اور جھوٹی نبوت کا دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ اس نے آگے بڑھ کر مزید گستاخی یہ کی کہ خود آقائے نامدار، سرورِ دو عالم ، حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺکے منصب پر جا بیٹھا۔
مرزا سے پہلے بھی بہت سوں نے جھوٹی نبوت کا ڈھونگ رچایا ،مگر یہ جرأت کسی کو نہ ہوئی کہ وہ آپ ﷺکے منصب پر جا بیٹھے۔’’مرزا غلام احمد قادیانی نے آنحضرت ﷺکی دو بعثتوں کا نظریہ ایجاد کیا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺایک بار تو چھٹی صدی عیسوی میں مکہ میں مبعوث ہوئے تھے اور دوسری مرتبہ (نعوذباللہ) مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں قادیاں کی ملعون بستی میں۔
مکی بعثت کا دور تیرھویں صدی ہجری پر ختم ہوگیا اور اب چودھویں صدی سے قیامت تک فتنہ قادیانیت بعثت و نبوت کا دور ہوگا۔اس طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے آنحضرت ﷺکی بعثت کو تیرھویں صدی کے بعد کالعدم قرار دے کر خاتم النبیین کا منصب خود سنبھال لیا۔ اور آنحضرت ﷺکے تمام کمالات مخصوصہ کو اپنی جانب منسوب کرنے کے لیے قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں بے دریغ تحریف کر ڈالی۔
اسلامی عقائد کا مذاق اڑایا، انبیاء علیہم السلام کو فحش گالیاں دیں، تمام امت مسلمہ کو گمراہ اور کافر و مشرک قرار دیا۔قصر اسلام کو منہدم کرکے ’’جدید عیسائیت‘‘ کی بنیاد رکھی۔ انگریز کی ابدی غلامی کو مسلمانوں کے لیے فرض و واجب قرار دیا، مسئلہ جہاد کو حرام اور منسوخ ٹھہرایا اور مجاہدین اسلام کو منکر خدا قرار دیا۔
جن لوگوں کو فتنہ قادیانیت کی گہرائی کا علم نہیں، اور وہ اس کی حقیقت سے ناواقف ہیں، انہیں اس کی شدت کا احساس نہیں ہوسکتا، واقعہ یہ ہے کہ صدرِ اول سے لے کر آج تک جتنے فتنے پیدا ہوئے ان سب کی مجموعی فتنہ پردازی بھی فتنہ قادیانیت کے سامنے شرمندہ ہے۔اگر ملاحدہ و زنادقہ اور مدعیان نبوت اور مہدویت کی تحریفات کو ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے پلڑے میں قادیانی تحریفات کو جگہ دی جائے تویقین ہے کہ قادیانی کی تحریفات کا پلڑابھاری رہے گا۔‘‘(تحفہ قادیانیت، جلد اول، ص ۱۲۰، ۱۲۱)
فتنہ قادیانیت سامانی اور شر انگیزی کو دیکھتے ہوئے مصور پاکستان علامہ اقبال نے سب سے پہلے اس وقت کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں مسلمانوں سے علیحدہ ایک قوم قرار دیا جائے۔ علامہ اقبال نے قادیانیت کا بغور مطالعہ کیا تھا اور انہیں قریب سے فتنہ قادیانیت کو دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا تھا، اس لیے وہ اس کی سنگینی سے بخوبی آگاہ اور اس کے عواقب و نتائج سے باخبر تھے۔
وہ فتنہ قادیانیت کو اسلام کے لیے مہلک اور وحدت ملت کے لیے مہیب خطرہ تصور کرتے تھے، علامہ اقبال نے اپنے مقالات و خطبات اور اپنے خطوط میں اس سے آگاہ کرتے ہوئے ہمیشہ انہیں غداران اسلام اور باغیانِ محمد سے یاد کیا کرتے تھے۔کاش علامہ اقبال کے مطالبے کو مانتے ہوئے اس وقت قادیانیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ ایک اقلیت قرار دیا جاتا تو بعد میں پیش آنے والے روح فرسا واقعات رونما نہ ہوتے ۔
علامہ اقبال کے اس مطالبے پر حکومت وقت نے تو کوئی توجہ نہیں دی ،کیوں کہ اس وقت انگریز کی حکومت تھی اور انگریز حکومت اپنے ہی تخلیق کردہ گروہ کے خلاف کیونکر فیصلہ دے سکتی تھی؟ لیکن احرار اسلام نے اس مطالبے کو اپنا مشن بنالیا اور انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی اور مرزائی جماعت کی کفر یات کو تسلسل کے ساتھ اور ان کے غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے مطالبے کو اپنے ہر جلسے میں عوام الناس کے سامنے پیش کیا کہ مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہوتی چلی گئی کہ قادیانی مسلمانوں سے علیحدہ ایک قوم ہیں۔
۱۹۵۳ء کی تحریک کے بعد ۱۹۷۴ء میں ایک بار پھر قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی۔ ۲۹؍ مئی ۱۹۷۴ء کو ربوہ اسٹیشن پر پیش آنے والا سانحہ اس تحریک کی بنیاد بنا۔کسے خبر تھی کہ یہ سانحہ اور واقعہ ایک عظیم الشان فیصلے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ دشمنوں نے تو اپنی طرف سے شر انگیزی کرنے اور فتنہ و فساد پھیلانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں سے خیر نکالی۔
اس واقعے نے مسلمانوں کے ایمانی جذبات کو ہوا دی، ان کے دلوں کو جھنجھوڑ ڈالا، وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے، پوری قوم حضور اکرم ﷺکی عزت و ناموس اور آپ ﷺکی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ایک ہوگئی اور پوری قوم نے متحد ہوکر خواہ کسی بھی طبقے سے اس کا تعلق ہو، ایسی عظیم الشان تحریک چلائی کہ ملت اسلامیہ شاید ہی اس کی کوئی نظیر پیش کرسکے۔ ۲۹؍ مئی تا ۷ ستمبر تقریبا ً سو دن بنتے ہیں، مگر برصغیر کی تاریخ میں یہ سو سال کے برابر ہیں۔
قوم کے مطالبے پر اس وقت کے وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو مرحوم نے یہ مسئلہ قومی اسمبلی کے حوالے کیا کہ وہ اس پر غورو فکر کرکے تجویز کرے کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے۔ قومی اسمبلی جو فیصلہ کرے گی پوری قوم کے لیے وہ قابل قبول ہوگا۔ بھٹو صاحب عوامی لیڈر تھے، اس لیے وہ چاہتے تھے کہ فیصلہ اس انداز میں ہو کہ کسی کے لیے اعتراض کی گنجائش نہ ہو اور بیرونی دنیا کے لیے بھی وہ قابل قبول ہو۔
پوری جرح، بیانات ، سوال و جواب اور غوروخوض کے بعد قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی۔ وزیر اعظم پہلے ہی فیصلے کے لیے ۷؍ ستمبر کی تاریخ طے کرچکے تھے، چنانچہ ۷؍ ستمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں خصوصی کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں اور آئین میں ترمیمی بل پیش کیا گیا۔
رائے شماری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے پانچ بج کر باون منٹ پر اعلان کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی ترمیم کے حق میں ایک سو تیس ووٹ آئے ہیں جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا گیا۔ اس طرح قومی اسمبلی میں یہ آئینی ترمیمی بل اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔اس کے بعد اسی دن یہ بل سینٹ میں پیش ہوا اور چیئر مین سینٹ نے بھی آٹھ بجے اس بل کی منظوری کا اعلان کردیا اور اس طرح یہ بل آئین کا حصہ بن گیا۔
اور جب رات آٹھ بجے ریڈیو پاکستان نے اس بل کی منظوری کی خبر نشر کی تو پورے پاکستان میں ایک خوش کی لہر دوڑ گئی۔ لوگوں نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی، ملک کے گوشے گوشے میں ایسی مسرت کا اظہار کیا گیا کہ اس سے پہلے شاید ہی اس طرح کا اظہار کیا گیا ہو۔
محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ جو اس وقت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور مجلس عمل تحفظ ختم نبوت دونوں کے امیر تھے، انہوں نے قائد تحریک کی حیثیت سے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے سراہا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے بینات کے ادارئیے میں لکھا:’’اس موقع پر ہم سب کو اللہ پاک کا شکر ادا کرناچاہیے کہ محض اسی نے اپنے فضل و احسان سے اپنے حبیب پاک ﷺکی ختم نبوت کی لاج رکھی لی اور اس تحریک کو کامیابی عطا فرمائی، اسی نے اس کے فوق العادت اسباب مہیا کیے،
مسلمانوں کے تمام طبقوں کو متحد اور مجتمع فرمایا، اور اسی نے اراکین اسمبلی کے دل میں صحیح فیصلہ ڈالا، اللہ تعالیٰ کے بہت سے نیک بندوں نے اس موقع پر دعائیں کیں، اللہ تعالیٰ سے التجائیں کیں، اللہ تعالی ٰنے ان کی دعائیں قبول فرمالیں، جو کچھ ہوا محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے تکوینی طور پر ہوا، وہم و گمان سے بالاتر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا۔‘‘ (بصائر و عبر، ج۲، ص ۱۸۸)’’
قوموں کی زندگی میں اس قسم کے تاریخ ساز واقعات ہمیشہ نہیں آتے ،اس لیے جی چاہتا تھا کہ پاکستان کی تاریخ کے اس زریں واقعے کے آثار و نتائج پر کچھ تفصیل سے لکھا جائے ، مگر افسوس کہ اس کی نہ فرصت ہے نہ گنجائش، مختصراً یہ کہ ۷۱ء میں سقوط مشرقی پاکستان سے پاکستان کے مسلمانوں کو جو گہرا زخم پہنچا تھا، اس سے نہ صرف مسلمانوں کا وقار مجروح ہوا بلکہ خود اسلام کے بارے میں بھی (جو اس ملک کا سنگ بنیاد تھا)
طاغوتی طاقتوں نے طرح طرح کے پروپیگنڈے شروع کردئیے، الحمدللہ قومی اسمبلی کے ایمانی فیصلے سے اس کی بڑی حد تک تلافی ہوگئی، عالم اسلام میں پاکستان کا وقار بلند ہوا‘‘۔ (بصائر و عبر، ج۲، ص ۱۹۰)صرف ۱۹۷۴ء کی پارلیمنٹ نے ہی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار نہیں دیا، بلکہ اس کے بعد بھی پاکستان کی پارلیمنٹ نے مختلف ادوار میں اس فیصلے کی توثیق کی۔
چنانچہ جب ضیاء الحق نے ۱۹۸۴ء میں آرڈیننس پاس کیا جس میں قادیانیوں پر اپنے آپ کو مسلمان کہلانے اور اسلامی شعائر کے استعمال پر پابندی لگائی تو بعد میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر اس کی منظوری دی، تیسری مرتبہ جب یوسف رضا گیلانی کے دور میں پارلیمنٹ نے پورے دستور پر نظر ثانی کی اور میاں رضا ربانی کی سربراہی میں کمیٹی نے طے کیا کہ دستور میں ختم نبوت سے متعلقہ دفعات جوں کی توں بحال رہیں گی تو پارلیمنٹ نے اس کی توثیق کرتے ہوئے
قادیانیوں کی سابقہ دستوری حیثیت بحال رکھی۔چوتھی مرتبہ جب انتخابی قواعد و ضوابط میں ترامیم کے متنازع بل سے یہ مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا تو پوری پارلیمنٹ نے اس پر غور و خوض کے بعد متفقہ اعلان کیا کہ قادیانیوں کی حیثیت وہی رہے گی جو ۱۹۷۴ء کی پارلیمنٹ نے طے کی تھی۔
مختلف مواقع پر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ نے چار مرتبہ اس قومی فیصلے کا اعلان کیا، دنیا میں ہر جگہ کسی بھی ملک میں ہونے والے دستوری فیصلوں کا احترام کیا جاتا ہے تو عالمی برادری اس فیصلے کو تسلیم نہ کرنے پر کیوں مصر ہے؟جبکہ قومی فیصلے کا اعلان کیاگیا، دنیا میں ہر جگہ کسی بھی ملک میں ہونے والے دستوری فیصلوں کا احترام کیا جاتا ہے تو عالمی برادری اس فیصلے کو تسلیم نہ کرنے پر کیوں مصر ہے؟ جبکہ عالم اسلام کے تمام ادارے اور تمام دار الافتاء ان کے کفر پر فتاویٰ جاری کرچکے ہیں،
جس جس عدالت میں ان کا مقدمہ گیا تقریباً تمام عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں کہ قادیانی مسلمانوں سے علیحدہ ایک قوم ہے اور خود قادیانی بھی اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ گردانتے ہیں تو پھر ان کو مسلمانوں میں شامل کیے جانے پر اصرار سمجھ سے بالاتر ہے۔آج ۷؍ستمبر کے دن ہم علماء و مشائخ اور دیگر رہنمایانِ قوم کی خدمت میں دست بستہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی تحریک کے بعد شاید ہم مطمئن ہوکر بیٹھ گئے ہیں کہ مسئلہ حل ہوگیا۔
اب اس کے لیے مزید محنت کی ضرورت نہیں۔ لیکن حالات اس کے برعکس ہیں، ۱۹۵۳ء کی تحریک کے وقت کے لوگ تو اس وقت شاید چند افراد ہی حیات ہوں اور ۱۹۷۴ء، ۱۹۸۴ء کی تحریک کو بھی بہت عرصہ بیت چکا۔ آج کا نوجوان نہ ان تحریکات سے واقف ہے اور نہ ہی ہم آج وہ ماحول برقرار رکھ سکے ہیں جو ان تحریکات کے وقت تھا۔اس لیے آج کا نوجوان اور آئندہ پروان چڑھنے والی نسلیں اس فتنے سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔ جبکہ قادیانیوں نے اپنا طریقۂ کار بھی تبدیل کرلیا ہے وہ اپنے حقوق کا رونا رو کر گمراہی پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے عالمی اداروں کا سہارا لیا ہوا ہے، لہٰذا موجودہ دور کی صورتحال کو سامنے رکھ کر نئے سرے سے اپنی ترجیحات قائم کرنے اور مسلسل امت مسلمہ کو اس مسئلے سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں مرکزی کردار علماء اور مشائخ ہی ادا کرسکتے ہیں۔آج ۷؍ستمبر کے دن ہم قادیانیوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ ایک نئی نبوت کے ماننے کے بعد تم نے اپنا راستہ خود مسلمانوں سے علیحدہ کرلیا ہے اور اس کا تم خود بھی اقرار کرتے ہو،
اس لیے تمہارے لیے دو ہی راستے ہیں، اگر تم اس نئی نبوت کے ماننے پر بضد ہو تو اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ قوم اور اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرلو۔ مسلمانوں میں گھسنے کی ناکام کوشش مت کرو اور اگر اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرنا چاہتے ہو تو راستہ کھلا ہے۔مرزا غلام احمد کی نبوت کا انکار کرکے خاتم الانبیاء حضور اکرم ﷺکے دامن سے وابستہ ہوجائو،
بلکہ ہم انتہائی دلسوزی اور اخلاص کے ساتھ تمام قادیانیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ تم ایک طویل عرصے سے دجل و تلبیس کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہو، غلط تاویلات کرکے تم خود تذبذب کا شکار ہو، آئو سچے دل سے اسلام کے دامن عافیت اور ختم الرسل ﷺکی چارِ رحمت کے سایے میں آکر سکون حاصل کرو، مسلمان تمہیں سینے سے لگانے کے لیے تیار ہیں۔اس موقع پر عوام سے کہنا چاہتے ہیں کہ آپ نے آج تک عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ کیا ہے
اور قادیانیوں سے متعلق آئینی دفعات پر پہرا دیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارے تمام تر زور صرف کرنے اور قادیانیوں سے ہمدردی رکھنے والے تمام اداروں کی سر توڑ کوشش کے باوجود نہ قادیانی اپنی کسی سازش میں کامیاب ہوسکے اور نہ کسی کو ان آئینی دفعات کو ختم کرنے کی ہمت ہوئی۔ بس ہمیشہ بیدار رہو، اسی طرح ختم نبوت کی پاسبانی کا فریضہ انجام دیتے رہو اور چوکنا ہوکر چوکیداری کرتے رہو، تاکہ کوئی قزاق اور ڈاکو ختم نبوت کے عقیدے میں نقب زنی کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔