ملا نصر الدین کی ذہانت

ملا نصر الدین کی ذہانت

ملا نصر الدین کی ذہانت

ملا نصرالدین 1208ء کو ترکی کے صوبہ حشار کے گائوں’’حورتو‘‘ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام آفندی اور والدہ کا نام صدیقہ خانم تھا۔ والد ایک مسجد کے امام تھے۔ ملا نصرالدین بعد میں ’’اک شہر‘‘ نامی شہر میں جا کر بس گئے تھے۔ 1284ء میں اسی شہر میں ان کا انتقال ہوگیا۔

ملا نصر الدین کو نصیرالدین لکھا اور پڑھا جاتا رہا ہے جو کہ غلط العام ہے۔ ان کا اصل نام نصر الدین تھا جو بگڑ کر نصیر الدین ہو گیا۔

ملا نصرالدین اپنی ذات میں لطیفوں ، چٹکلوں اور حاضر جوابیوں کی ایک دنیا آباد کیے ہوئے تھے۔انہی خوبیوں کی وجہ سے ان کی شہرت ترکی سے نکل کر مختلف ممالک میں پھیل گئی۔ ترک انہیں ’’حوجا‘‘ یعنی استاد کے نام سے پکارتے۔کہا جاتا ہے کہ ملا نصر الدین یوں تو نہایت عقل مند اور عالم فاضل شخص تھے مگر لوگوں کی اصلاح اور تفریح کیلئے بے وقوف بنے رہتے اور ایسی ایسی حرکتیں کرتے کہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتے۔

ملا نصر الدین کے پڑوس میں ایک مالدار یہودی رہتا تھا۔وہ اتنا کنجوس تھا کہ کبھی کسی غریب اور محتاج کو ایک پیسہ نہ دیتا ۔ ملا نے کئی مرتبہ اسے سمجھایا کہ خدا نے تمہیں دولت عطا کی ہے، اسے  مفلس لوگوں پر خرچ کیا کرو لیکن اس نے ملا کی کوئی نصیحت نہ سنی۔بالآخر ملا نصرالدین نے اسے سزا دینے کیلئے ایک ترکیب سوچی۔

ملا نصر الدین کی ذہانت
ملا نصر الدین کی ذہانت

ایک روز صبح سویرے وہ نماز پڑھ کر زور زور سے دعا مانگنے لگے۔’’یااللہ! اگر تو مجھے ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی بھیج دے تو میں اسے محتاجوں پر صرف کردوں، لیکن اگر اس میں سے ایک اشرفی بھی کم ہوئی تو ہرگز قبول نہ کروں گا‘‘۔

یہودی نے یہ دعا سنی تو سوچا کہ ملا بڑا ایمان دار بنتا ہے، اس کی ایمانداری آزمانی چاہیے۔ یہ سوچ کر اس نے تھیلی میں نو سو ننانوے اشرفیاں بھریں اور عین اس وقت جبکہ ملا نصر الدین دعا مانگ رہا تھا، اشرفیوں سے بھری ہوئی تھیلی ان کے صحن میں پھینک دی۔

ملا نصر الدین نے لپک کر تھیلی اٹھالی اور اشرفیاں نکال کر گننے لگے۔ کل نو سو ننانوے اشرفیاں تھیں۔ ملا نے خدا کا شکر ادا کیا اور کہنے لگے ’’یا اللہ! میں تیرا شکر گزار ہوں کہ تو نے میری دعا قبول فرمالی، ایک اشرفی کم ہے تو کوئی بات نہیں، یہ اشرفی پھر کبھی دے دینا‘‘۔

یہودی نے جب ملا نصر الدین کے یہ الفاظ سنے تو سخت پریشان ہوا اور دل میں کہنے لگا کہ یہ ملا تو بہت چالاک ہے۔ اس نے دھوکے سے میری اشرفیاں ہتھیا لیں۔ وہ بھاگا بھاگا ملا کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ ’’ تم بہت بے ایمان شخص ہو، لائو، میری اشرفیاں واپس کرو۔ تم نے تو کہا تھا کہ ہزار میں سے ایک اشرفی بھی کم ہوئی تو واپس کردوں گا لیکن اب تم نو سو ننانوے اشرفیاں قبول کرنے پر تیار ہو‘‘۔

’’ تم کون ہوتے ہو مجھ سے اشرفیاں مانگنے والے، یہ تو میرے خدا نے مجھے بھیجی ہیں، جائو، اپنا کام کرو‘‘۔ملا نصر الدین نے غصے سے کہا۔یہودی بہت پریشان ہوا۔ وہ سیدھا قاضی کی عدالت میں گیا اور ملا کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ قاضی صاحب نے یہودی کو حکم دیا کہ ملا نصر الدین کو بلالائو، ہم ابھی فیصلہ کردیں گے۔

یہودی نے ملانصر الدین کے پاس آ کر کہا ’’چلو، تمہیں قاضی صاحب بلا رہے ہیں‘‘۔’’ تم دیکھ رہے ہو کہ میرا لباس پھٹا پرانا ہے، میں اس شرط پر جانے کیلئے تیار ہوں کہ تم مجھے اچھے اچھے کپڑے لا کر دو‘‘ ملا نے جواب دیا۔

 یہودی پہلے تو سٹپٹایا پھر اس نے یہ شرط بھی منظور کرلی اور صاف ستھرے کپڑے ملا کو لا کر دئیے۔ملا نصر الدین بیش قیمت لباس پہن چکے تو کہنے لگے۔’’میاں! کیا اتنا قیمتی لباس پہن کر پیدل ہی قاضی کی عدالت میں جائوں، لوگ دیکھیں گے تو دل میں کیا کہیں گے، جائو گھوڑا لے آئو، اس پر سوار ہو کر جائوں گا‘‘

مرتا کیا نہ کرتا، یہودی نے اپنا گھوڑا بھی ملا کے حوالے کردیا اور ملا صاحب نہایت شان و شوکت سے گھوڑے پر سوار ہو کر قاضی کی عدالت میں پہنچے۔ مقدمہ پیش ہوا۔ قاضی صاحب نے دونوں کو غور سے دیکھا۔ ملا نصر الدین کا قیمتی لباس اور سواری کا گھوڑا بھی انہوں نے دیکھا اور یہودی کا لباس بھی اور یہ بھی محسوس کیا کہ وہ پیدل آیا ہے۔ یہودی نے جب سارا قصہ سنایا تو قاضی صاحب ملا نصرالدین کی طرف متوجہ ہوئے۔

’’ملا صاحب! تم اس کے الزام کا کیا جواب دیتے ہو‘‘ قاضی صاحب نے ملا نصر الدین سے پوچھا۔

’’ حضور! یہ یہودی میرا پڑوسی ہے اور بڑا جھوٹاشخص ہے، ابھی تو یہ کہتا ہے کہ میں نے اس کی نو سو ننانوے اشرفیاں ہتھیا لی ہیں اور کچھ دیر بعد کہے گا کہ یہ لباس جو میں نے پہنا ہوا ہے، وہ بھی اسی کا ہے‘‘ ملا نصرالدین نے جواب دیا تو یہ سنتے ہی یہودی آگ بگولہ ہو گیا۔

’’ ہاں جناب، یہ لباس بھی میرا ہے، میں نے اسے پہننے کیلئے دیا تھا‘‘یہودی نے چلا کر کہا۔

’’ سن لیا آپ نے، یہ لباس بھی اس کا ہوگیا اور ابھی دیکھئے گا،یہ کہہ دے گا کہ گھوڑا بھی اسی کا ہے‘‘ملا نصرالدین نے کہا تویہودی کا غصہ مزید بڑھ گیا۔

’’ ہاں حضور، یہ گھوڑا بھی میرا ہی ہے، ملا نے مجھ سے سواری کیلئے مانگا تھا‘‘ یہودی نے ایک بار پھر چلا کر کہا۔

قاضی نے جو یہ باتیں سنیں تو یہودی کو ڈانٹ کر نکال دیا اور مقدمہ خارج کردیا۔

یہودی روتا پیٹتا ملا نصر الدین کے گھر پہنچا اور اس کی بڑی منت سماجت کی۔ ملا نے اس شرط پر اس کی اشرفیاں لباس اور گھوڑا واپس کیا کہ وہ آدھی اشرفیاں غریبوں میں بانٹ دے گا اور آئندہ بھی نادار لوگوں کی مدد کرتا رہے گا۔

Leave a Comment