تاریخ میں کم ازکم چھ واقعات ملتے ہیں جب حجر اسود کو چوری کیا گیا یہ اس کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ہوسکتا اس کے حوادث کی تعداد اس بھی زیادہ ہو۔اسلامی روایات کے مطابق جب حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ تو حضرت جبرائیل نے یہ پتھر جنت سے لا کر دیا جسے حضرت ابراہیم نے اپنے ہاتھوں سےدیوار کعبہ میں نصب کیا۔۔
7 ذی الحجہ 317ھ کو بحرین کے حاکم ابو طاہر سلیمان قرامطی نے مکہ معظمہ پر قبضہ کر لیا۔ خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ اس سال 317ھ کو حج بیت اللہ شریف نہ ہو سکا اوع کوئی بھی شخص عرفات نہ جا سکا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
یہ اسلام میں پہلا موقع تھا کہ حج بیت اللہ موقوف ہو گیا۔۔۔
حجر اسود کا بہت اللہ سے نکالا جانا
اسی ابو طاہر قرامطی نے حجر اسود کو خانہ کعبہ سے نکالا اور اپنے ساتھ بحرین لے گیا۔
پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدر باللہ نے ابو طاہر قرامطی کے ساتھ فیصلہ کیا اور تیس ہزار دینار دے دیے۔تب حجر اسود خانہ کعبہ کو واپس کیا گیا۔ یہ واپسی 339ھ کو ہوئی۔ گویا کہ 22 سال تک خانہ کعبہ حجر اسود سے خالی رہا۔
جب فیصلہ ہوا کہ حجر اسود کو واپس کیا جائے گا تو اس سلسلے میں خلیفہ وقت نے ایک بڑے عالم محدث شیخ عبداللہ بن عکیم المحدث کو حجر اسود کی وصولی کے لیے ایک وفد کے ساتھ بحرین بھجوایا۔۔
یہ واقعہ علامہ سیوطی کی روایت سے اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ جب شیخ عبداللہ بحرین پہنچ گئے تو بحرین کے حاکم نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں حجر اسود کو ان کے حوالہ کیا گیا تو ان کے لیے ایک پتھر خوشبودار خوبصورت غلاف میں سے نکالا گیا کہ یہ حجر اسود ہے اسے لے جائیں۔
محدث عبداللہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ حجر اسود میں دو نشانیاں ہیں اگر یہ پتھر اس معیار پر پورا اترا تو یہ حجر اسود ہوگا اور ہم لے جائیں گے۔
پہلی نشانی یہ کہ پانی میں ڈوبتا نہیں ہے دوسری یہ کہ آگ سے گرم بھی نہیں ہوتا۔ اب اس پتھر کو جب پانی میں ڈالا گیا تو وہ ڈوب گیا پھر آگ میں اسے ڈالا تو سخت گرم ہو گیا۔۔
فرمایا ہم اصل حجر اسود کو لیں گے پھر اصل حجر اسود لایا گیا اور آگ میں ڈالا گیا تو ٹھنڈا نکلا پھر پانی میں ڈالا گیا وہ پھول کی طرح پانی کے اوپر تیرنے لگا تو محدث عبداللہ نے فرمایا یہی ہمارا حجر اسود ہے اور یہی خانہ کعبہ کی زینت ہے اور یہی جنت والا پتھر ہے۔
اس وقت ابو طاہر قرامطی نے تعجب کیا اور کہا: یہ باتیں آپ کو کہاں سے ملی ہیں تو محدث عبداللہ نے فرمایا یہ باتیں ہمیں جناب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے ملی ہیں کہ ’’حجر اسود پانی میں ڈوبے گا نہیں اور آگ سے گرم نہیں ہو گا‘‘
ابو طاہر نے کہا کہ یہ دین روایات سے بڑا مضبوط ہے۔
جب حجر اسود مسلمانوں کو مل گیا تو اسے ایک کمزور اونٹنی کے اوپر لادا گیا جس نے تیز رفتاری کے ساتھ اسے خانہ کعبہ پہنچایا۔
اس اونٹنی میں زبردست قوت آ گئی اس لیے کہ حجر اسود اپنے مرکز بیت اللہ کی طرف جا رہا تھا لیکن جب اسے خانہ کعبہ سے نکالا گیا تھا اور بحرین لے جا رہے تھے تو جس اونٹ پر لادا جاتا وہ مر جاتا، حتیٰ کہ بحرین پہنچنے تک چالیس اونٹ اس کے نیچے مر گئے۔
22 سال کے عرصے کے بعد حجرِ اسود کو واپس خانہ کعبہ میں نصب کر دیا گیا۔۔ر حجر اسود کے بارے نبی پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے کہ زمین میں حجر اسود اللہ تعالی کا دایاں ہے۔ روز قیامت آئے گا تو اس کی ایک زبان ہوگی۔ جس نے بھی اسے حق یا باطل کے ساتھ چوما اس کی گواہی دے گا۔ یہ پانی میں نہيں ڈوبتا اور نہ ہی آگ سے گرم ہوتا ہے ۔۔۔”
اور حجر اسود وہ ہے جو کعبہ کے جنوب مشرقی کنارے میں ہے اور یہيں سے طواف کی ابتداء ہوتی ہے۔ یہ اصل میں جنت کے یاقوتوں میں سے ہے۔ اس کا رنگ مقام ( ابراھیم ) کی طرح سفید شفاف تھا۔ اور یہ آنسو بہانے اوردعا کے قبول ہونے کی جگہ ہے۔
اسے چھونا اور اس کا بوسہ لینا مسنون ہے اور زمین میں یہ اللہ تعالی کا دایاں ہاتھ ہے یعنی اللہ تعالی ساتھ توبہ کا عہد کرتے ہوئے مصافحہ کامقام ہے۔ جس نے بھی اسے چھویا یہ روز قیامت اس کی گواہی دے گا ، اور جو اس کے برابر ہوتا ہے وہ رحمن کے ہاتھ سے معاہدہ کررہا ہے اور اسے چھونے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ انبیاء ، صالحین ، حجاج، عمرہ اور زيارت کرنے والوں کے لبوں کے ملنے کی جگہ ہے…