قاضی صاحب اور چور کا واقعہ
Table of Contents
امام جوزی رحمہ اللہ نے قاضی انطاکیہ کا ایک عجیب واقعہ نقل کیا ہےکہ وہ ایک دن اپنے کھیتوں کو دیکھنے شہر سے نکلے تو شہر کے باہر ایک چور نے دھر لیا۔ چور نے کہا کہ جو کچھ ہے میرے حوالے کر دیجئے ورنہ میری طرف سے سخت مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قاضی نے کہا: خدا تیرا بھلا کرے ۔ میں عالم آدمی ہوں اور دین میں اس کی عزت کا حکم دیا گیا ہے ساتھ میں قاضی شہر بھی ہوں لہذا مجھ پر رحم کر۔
چور نے کہا: الحمدللہ !ایسا شخص جو بیچارہ فقیر نادار ہو اور اپنا نقصان پورا نہ کرسکے کے بجائے آج ایک ایسے شخص کو اللہ نے میرے قابو میں دیا ہے کہ اگر اس کو میں لوٹ بھی لوں تو شہر واپس جاکر اپنا نقصان پورا کرسکتا ہے ۔
قاضی نے کہا: خدا کے بندے تو نے رسول اللہﷺ کی یہ حدیث نہیں سنی کہ دین وہ ہے جسے اللہ نے مقرر کیا اور مخلوق سب اللہ کے بندے ہیں اور سنت وہی ہے جو میرا طریقہ ہے۔ پس جس نے میرا طریقہ چھوڑ کر کوئی بدعت ایجاد کی تو اس پر اللہ کی لعنت ۔
چور نے کہا: میری جان! یہ حدیث مرسل ہے (جو شوافع کے ہاں حجت نہیں ) اور بالفرض اس حدیث کو درست بھی مان لیا جائے تو آپ کا اس ’’چور‘‘ کے بارے میں کیا خیال ہے جو بالکل ’’قلاش‘‘ ہو فاقوں نے اس کے گھر میں ڈیرے ڈال دیئے ہوں اور ایک وقت کے کھانے کا بھی کوئی آسرا نہ ہو؟ ایسی صورت میں ایسے شخص کیلئے آپ کا مال بالکل پاک و حلال ہے کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ نے عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت فرمایا کہ دنیا اگر محض خون ہوتی تو مومن کا اس میں سے کھانا حلال ہوتا۔
نیز علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر آدمی کو اپنے یا اپنے خاندان کے مارے جانے کا خوف ہو تو اس کیلئے دوسرے کا مال حلال ہے۔ اور اللہ کی قسم میں اسی حالت سے گزر رہا ہوں لہذا شرافت سے سارا مال میرے حوالے کردو۔
قاضی نے کہا: اچھا اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو مجھے اپنے کھیتوں میں جانے دو وہاں میرے غلام و خادم نے آج جو اناج بیچا ہوگا اس کا مال میں ان سے لیکر واپس آکر آپ کے حوالے کر دیتا ہوں ۔
چور نے کہا: ہرگز نہیں ۔ ایک دفعہ میرے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد آپ دوبارہ واپس نہیں لوٹیں گے۔
قاضی نے کہا: میں آپ کو قسم دینے کو تیار ہوں کہ ان شاءاللہ میں نے جو وعدہ آپ سے کیا ہے اسے پورا کروں گا۔
چور نے کہا: مجھے حدیث بیان کی مالک رحمہ اللہ نے انہوں نے نافع رحمہ اللہ سے سنی انہوں نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ : یمین المکرہ لاتلزم (مجبور کی قسم کا اعتبار نہیں)
اور مجبوری کی حالت میں جب کلمہ کفر بولنے کی اجازت ہے تو جھوٹی قسم بھی کھائی جاسکتی ہے ۔ لہذا فضول بحث سے پرہیز کریں اور جو کچھ ہے آپ کے پاس میرے حوالے کردیں۔
قاضی اس پر لاجواب ہوگیا اور اپنی سواری، مال کپڑے سوائے شلوار کے اس کے حوالے کردیا۔
چور نے کہا: شلوار بھی اتار کر دیں۔
قاضی نے کہا: اللہ کے بندے نماز کا وقت ہوچکا ہے ۔ اور بغیر کپڑوں کے نماز جائز نہیں
نیز شلوار حوالے کرنے پر میری بے پردگی ہوگی جبکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص ملعون ہے جو اپنے بھائی کے ستر کو دیکھے۔
چور نے کہا: اس کا آپ غم نہ کریں کیونکہ ننگے حالت میں آپ کی نماز بالکل درست ہے کہ مالک رحمہ اللہ نے ہم سے حدیث بیان کی وہ روایت کرتے ہیں نافع رحمہ اللہ سے وہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ سے کہ
العراۃ یصلون قیاما و یقوم امامھم وسطہم
ننگے کھڑے ہوکر نماز پڑھیں اور ان کا امام بیچ میں کھڑا ہو۔
نیز امام مالک رحمہ اللہ بھی ننگے کی نماز کے جواز کے قائل ہیں مگر ان کا فتوی یہ ہے کہ کھڑے ہوکر نہیں پڑھیں گے بلکہ متفرق متفرق پڑھیں گے اور اتنی دور دور پڑھیں گے کہ ایک دوسرے کے ستر پر نظر نہ پڑے۔ جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فتوی یہ ہے کہ کھڑے ہوکر نہیں بلکہ بیٹھ کر پڑھیں ۔
اور ستر پر نظر پڑنے والی جو روایت آپ نے سنائی اول تو وہ سنداً درست نہیں اگر مان بھی لیں تو وہ حدیث اس پر محمول ہے کہ کسی کے ستر کو شہوت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اور فی الوقت ایسی حالت نہیں اور آپ تو کسی صورت میں بھی گناہ گار نہیں کیونکہ آپ حالت اضطراری میں ہے خود بے پردہ نہیں ہورہے ہیں بلکہ میں آپ کو مجبور کررہا ہوں۔ لہذا لایعنی بحث مت کریں اور جو کہہ رہا ہوں اس پر عمل کریں۔
قاضی نے یہ سن کر کہا کہ خدا کی قسم قاضی اور مفتی تو تجھے ہونا چاہئے ہم تو جھگ مار رہے ہیں ۔ جو کچھ تجھے چاہئے لے پکڑ لاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔ اور یوں چور سب کچھ لیکر فرار ہوگیا۔
بحوالہ: (کتاب الاذکیا ،لابن الجوزی ،ص۳۸۹)
…