حضرت ادریس علیہ السّلام کی پیدائش اور شجرۂ نسب
Table of Contents
حضرت ادریس علیہ السّلام اللہ تعالیٰ کے تیسرے نبی تھے، جو حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت شیث علیہ السّلام کے بعد نبوّت کے جلیل القدر منصب پر فائز ہوئے۔مؤرخین کے مطابق آپؑ کی ولادت بابل(عراق) یا مِصر کے شہر ’’منفیس‘‘ یعنی’’منف‘‘ میں ہوئی۔ آپؑ کا اصل نام’’اخنوخ‘‘ تھا، جب کہ قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہؐ میں آپؑ کو ’’ادریس‘‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔
روایات کے مطابق، حضرت ادریسؑ نے دنیا میں لوگوں کو سب سے پہلے لکھنے پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کا درس دیا، بلکہ اپنی زندگی کا بیش تر حصّہ اسی درس و تبلیغ میں صَرف کیا۔ چناں چہ لوگ آپؑ کو ادریس، یعنی ’’درس دینے والا‘‘ کہہ کر پکارنے لگے۔ آپؑ کا حضرت شیث ؑکی پانچویں پُشت سے تعلق تھا اور آپؑ کا شجرۂ نسب یوں ہے، ادریسؑ بن یارد بن مہلائل بن قینن بن انوش بن شیثؑ بن آدم علیہ السّلام۔
حضرت ادریس علیہ السّلام ؑمنصبِ نبوّت پر
حضرت شیثؑ کا انتقال ہوا، تو کچھ عرصے بعد اُن کے پیروکار بہت محدود تعداد میں رہ گئے ۔ قابیل کی اولاد نے کفرو شرک، بدکاری و بے حیائی کا بازار گرم کر رکھا تھا۔زنا کاری اور شراب نوشی عام تھی، پاکیزہ رشتوں کی پہچان ناپید ہو چُکی تھی۔ بتوں کی پوجا اور آگ کی پرستش ہو رہی تھی۔ گویا دنیا پر شیطان اور اُس کے حواریوں کا راج تھا۔
حضرت آدمؑ اور حضرت شیثؑ کی قائم کردہ شرعی حدود اور احکاماتِ الٰہی کو پامال کیا جا رہا تھا اور یہی وہ وقت تھا کہ جب اللہ جل شانہ نے اُس بگڑی قوم میں ایک نبی مبعوث کرنے کا فیصلہ کیا اور اس عظیم منصب کے لیے حضرت شیثؑ ؑکی نسل سے حضرت ادریسؑ کا انتخاب فرمایا۔ حضرت ادریس ؑمیں وہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود تھیں، جو اللہ کے نبی میں ہونی چاہئیں۔ آپؑ، حضرت آدم علیہ السّلام کے دین کے پیروکار، نہایت عبادت گزار، متّقی، پرہیز گار اور انتہائی سچّے انسان تھے۔
بابل سے مِصر کی جانب ہجرت
نبوّت کے منصب پر فائز ہوتے ہی آپؑ نے اپنی قوم کے بھٹکے ہوئے لوگوں میں وعظ و تبلیغ کا کام شروع کر دیا، لیکن راہِ ہدایت کا یہ درس اور نیکی کی باتیں اُن لوگوں کو بہت ناگوار گزرتیں، چناں چہ وہ آپؑ کے دشمن ہو گئے۔ آپؑ اور آپؑ کے پیرو کاروں کو طرح طرح سے اذیّتیں دینے لگے۔ یہاں تک کہ آپؑ نے اُن کی ایذا رسانیوں سے تنگ آکر بابل سے ہجرت کا ارادہ کرلیا اور اپنے پیروکاروں کو اپنے اس فیصلے سے مطلع فرمایا۔
چوں کہ بابل، دریائے فرات اور دریائے دجلہ کے کنارے ایک سَرسبز و شاداب علاقہ تھا، لہٰذا لوگوں کے لیے اس علاقے سے ہجرت کرنا خاصا مشکل فیصلہ تھا اور اُنھوں نے اس حوالے سے تحفّظات کا اظہار بھی کیا، لیکن پھر حضرت ادریس علیہ السّلام ؑکے سمجھانے پر وہ لوگ آپؑ کے ساتھ ہجرت پر تیار ہو گئے۔
حضرت ادریس ؑاور اُن کے پیروکاروں نے بابل سے مِصر کا رُخ کیا اور دریائے نیل کے کنارے آباد ہو گئے، جو بابل سے بھی زیادہ سَر سبز و شاداب علاقہ تھا۔ حضرت ادریس ؑ نے یہاں کے لوگوں میں درس و تبلیغ کے کام کو جاری رکھا۔ آپؑ اُس وقت لوگوں میں رائج تمام زبانوں سے واقف تھے اور عوام کو اُن ہی کی زبان میں درس دیتے تھے۔
قرآنِ پاک میں ذکر
آپؑ کا قرآنِ مجید میں دو مرتبہ ذکر آیا ہے۔ سورۂ مریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’ اور اس کتاب میں ادریسؑ کا ذکر بھی کیجیے۔ بے شک، وہ بڑے سچّے نبی تھے اور ہم نے اُن کو بلند رتبے تک پہنچایا‘‘ (سورۂ مریم56-57)۔ نیز، سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ اور اسماعیلؑ اور ادریسؑ اور ذوالکفل کا تذکرہ کیجیے۔ یہ سب (احکامِ الہٰیہ پر) ثابت قدم رہنے والے لوگوں میں سے تھے‘‘ (سورۃ الانبیا85)۔
قرآنِ کریم کی معروف و مستند تفسیر’’معارف القرآن‘‘ کے مطابق’’ حضرت ادریس علیہ السّلام، حضرت نوح علیہ السّلام سے ایک ہزار سال پہلے پیدا ہوئے( روح المعانی، بحوالہ مستدرک حاکم)۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو نبوّت کے مرتبے پر سرفراز فرمایا اور آپؑ پر تیس صحیفے نازل فرمائے۔ حضرت ادریس علیہ السّلام وہ پہلے انسان ہیں، جنھیں علمِ نجوم اور حساب بہ طورِ معجزہ عطا کیے گئے۔ نیز، سب سے پہلے اُنھوں نے ہی قلم سے لکھنا اور کپڑا سینا ایجاد کیا۔ اُن سے پہلے لوگ عموماً جانوروں کی کھال، لباس کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔
پھر یہ کہ سب سے پہلے ناپ تول کے طریقے بھی آپؑ ہی نے متعارف کروائے اور اسلحہ بھی آپؑ کی ایجاد ہے۔ آپؑ نے اسلحہ تیار کر کے بنو قابیل سے جہاد کیا۔‘‘
علّامہ ابنِ اسحاق کا کہنا ہے کہ’’ دنیا کا سب سے پہلا شحص، جس نے قلم سے لکھا، حضرت ادریس علیہ السّلام ؑ ہیں۔‘‘ معاویہ بن حکم سلمیؓ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضورﷺ سے رمل کے بارے میں سوال کیا ؟( یہ ایک ایسا علم ہے، جس میں ریت پر مخصوص لکیریں کھینچ کر کچھ معلوم کیا جاتا ہے)، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ ایک پیغمبر تھے، جنہوں نے یہ لکھا۔ لہٰذا، جس شخص کا خط اُن کے موافق ہو جائے، تو اچھا ہے۔‘‘ علمائے تفسیر فرماتے ہیں کہ’’ پہلا شخص جس نے تبلیغِ دین کے لیے وعظ و خطاب کا سلسلہ شروع کیا، وہ حضرت ادریس ؑ تھے۔‘‘
حضرت ادریسؑ چوتھے آسمان پر
ہلال بن سیار کہتے ہیں کہ حضرت ابنِ عباس ؓنے حضرت کعب ؓسے پوچھا کہ قرآنِ پاک کی اس آیت’’وَ رَفَعنَاہُ مکاناً علیّاً( اور ہم نے ان کو اونچی جگہ اٹھا لیا)‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ تو حضرت کعبؓ نے فرمایا’’ اللہ عزّوجَل نے حضرت ادریس علیہ السّلام ؑکی طرف وحی بھیجی کہ میں تمہیں ہر روز تمام بنی آدم کے اعمال کے برابر درجات دیتا ہوں۔
( اس سے مُراد اُس زمانے کے تمام بنی آدم ہیں)، تو حضرت ادریس ؑنے چاہا کہ پھر تو اعمال میں اور اضافہ ہونا چاہیے۔ لہٰذا جب اُن کے پاس فرشتے آئے، تو اُنہوں نے وحی کا ذکر کرتے ہوئے کہا’’ مَیں چاہتا ہوں کہ مَلک الموت سے بات کروں(اور پوچھوں کہ کب تک میری زندگی باقی ہے)۔‘‘
فرشتے نے حضرت ادریس ؑکو اپنے پَروں پر اٹھایا اور اُنہیں لے کر آسمان کی طرف بلند ہو گیا۔ جب وہ چوتھے آسمان پر پہنچے، تو اُن کی مَلک الموت سے ملاقات ہو گئی، جو نیچے اُتر رہےتھے۔ حضرت ادریسؑ کے دوست فرشتے نے ملک الموت سے حضرت ادریسؑ کے بارے میں ذکر کیا، تو عزرائیلؑ نے پوچھا ’’حضرت ادریسؑ کہاں ہیں ؟‘‘ فرشتے نے جواب دیا کہ’’ وہ میری پُشت پر ہیں۔‘‘ اس پر ملک الموت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ واہ تعجب ہے! مجھے پروردگار کی طرف سے کہہ کر بھیجا گیا ہے کہ حضرت ادریسؑ کی رُوح چوتھے آسمان پر قبض کر لو۔
تو مَیں نے سوچا کہ وہ تو زمین پر ہیں، اُن کی رُوح چوتھے آسمان پر کیسے قبض کروں؟ ابھی اسی سوچ و بچار میں تھا اور زمین پر اُتر رہا تھا کہ تم اُنھیں لے کر چوتھے آسمان پر آ گئے۔‘‘ پھر ملک الموت نے اُن کی رُوح قبض کر لی۔( قصص الانبیاء، ابنِ کثیر)۔ ابنِ ابی حاتم نے بھی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں اس حدیث کو ذکر کرتے ہوئے یہ اضافہ کیا ہے کہ’’ حضرت ادریسؑ نے فرشتے سے کہا’’ ملک الموت سے میرے بارے میں سوال کرو کہ میری عُمر کتنی باقی رہ گئی ہے؟‘‘ جب کہ حضرت ادریس ؑ فرشتے کے ساتھ ہی تھے۔
فرشتے کے سوال پر ملک الموت نے کہا’’ جب تک مَیں اُنھیں دیکھ نہ لوں، اُس وقت تک کچھ نہیں بتا سکتا۔‘‘ پھر ملک الموت نے حضرت ادریس ؑکو دیکھ لیا، تو فرشتے سے کہا کہ’’ آپ مجھ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کر رہے ہیں، جس کی زندگی پَلک جَھپکنے سے زیادہ نہیں رہی۔‘‘ پھر فرشتے نے پَر کے نیچے حضرت ادریس ؑکو دیکھا، تو اُن کی وفات ہو چُکی تھی(قصص الانبیاء، ابنِ کثیر)
جنّت اور دوزخ کی سیر
روضتہ الاصفیا کے مصنّف تحریر کرتے ہیں کہ’’ حضرت ادریسؑ کثرت سے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور عبادت میں مصروف رہتے تھے اور فرشتوں میں نہایت محبّت اور عقیدت و احترام کی نظروں سےدیکھے جاتے تھے۔ فرشتے اُن کے پاس آتے اور اُن کی صحبت میں بیٹھا کرتے تھے۔ چناں چہ ایک مرتبہ حضرت عزرائیلؑ بھی اللہ تعالیٰ سے اجازت لے کر آئے اور انسانی شکل میں بہت دیر تک اُن کی صحبت میں حاضر رہے۔
حضرت ادریسؑ کو جب معلوم ہوا کہ یہ کوئی انسان نہیں، بلکہ حضرت عزرائیلؑ ہیں اور رُوح قبض کرنے کی خدمت پر مامور ہیں، تو آپ ؑنے اُن سے فرمایا کہ’’ میرا دل چاہتا ہے کہ تم مجھے موت کا ذائقہ چکھائو۔‘‘اس پر حضرت عزرائیلؑ نے اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اُن کی رُوح نکالی اور پھر واپس کر دی۔ اس کے بعد حضرت ادریس ؑنے اُن سے فرمایا’’ میرا دل چاہتا ہے کہ مَیں جنّت اور دوزخ دیکھوں۔‘‘ چناں چہ حضرت عزرائیل نے اللہ تعالیٰ سے اجازت لے کر اُنھیں دوزخ دِکھائی۔ وہ دوزخ دیکھ کر جنّت میں آئے اور بہت دیر تک وہاں کے مناظر دیکھتے رہے۔
آخر حضرت عزرائیلؑ نے عرض کیا کہ’’ اب واپس تشریف لے چلیے‘‘، مگر حضرت ادریس ؑ نے جواب میں کہا کہ ’’جب تک جنّت و دوزخ کو پیدا کرنے والا مجھے یہاں سے جانے کا حکم نہیں دے گا، اُس وقت تک یہاں سے نہیں جائوں گا۔‘‘
چناں چہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو مقرّر فرمایا کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کردے۔ حضرت عزرائیلؑ نے اُس فرشتے کو پوری صُورتِ حال بتائی، پھر حضرت ادریسؑ نے فرمایا’’ مَیں قانونِ خداوندی کے مطابق موت کا ذائقہ چکھ چُکا ہوں اور اب جنّت میں آ گیا ہوں۔ چوں کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’ وما ھم بخارِ جِینَ مِنھا‘‘ یعنی’’ ہم تم کو اس سے نہیں نکالیں گے‘‘، لہٰذا مَیں یہاں سے نہیں جانا چاہتا۔
‘‘ حضرت کعب احبار کی روایت ہے کہ فرشتے نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے فیصلہ کیا کہ’’ اچھا آپؑ چھٹے آسمان پر رہیے اور فرشتوں کے ساتھ عبادت کیجیے۔‘‘ چناں چہ حضرت ادریس علیہ السّلام چھٹے آسمان پر فرشتوں کے ساتھ عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ (واللہ اعلم)۔ اس سلسلے میں متفّق علیہ حدیث یہ ہے کہ’’ حضرت ادریس ؑچوتھے آسمان پر ہیں۔
‘‘ مجاہدؒ اور دیگر بہت سے علمائے کرام کا یہی قول ہے۔ حضرت زہری ؒنے بھی حضرت انسؓ سے مروی معراج کی حدیث نقل کی ہے کہ’’ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات چوتھے آسمان پر پہنچے، تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت ادریسؑ سے ہوئی، جنھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر فرمایا، ’’مرحبا، صالح بھائی اور صالح نبیؐ۔‘‘( ابنِ کثیر)
آلِ قابیل کے ساتھ جہاد
حضرت ادریس ؑ کی زندگی میں دو چیزیں بہت نمایاں ہیں۔ ایک وعظ و تبلیغ اور دوسری آلِ قابیل کے ساتھ جہاد۔ چوں کہ اُنھیں وعظ و تبلیغ میں ملکہ حاصل تھا، چناں چہ اُن کی پہلی کوشش یہی رہی کہ وعظ و نصیحت سے آلِ قابیل راہِ راست پر آ جائے اور دنیا برائیوں سے پاک ہو کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگے، لیکن شیطان نے اُن لوگوں کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
جب آپؑ اُن سے اللہ کی وحدانیت کی بات کرتے، ایک اللہ کی عبادت کی نصیحت کرتے، برائیوں کو چھوڑنے کی تلقین کرتے، تو یہ باتیں اُن لوگوں کو بڑی ناگوار گزرتیں اور آگ بگولا ہو کر اُنہیں اذیّتیں دیتے، تمسّخر اڑاتے، پتھر مارتے۔ دراصل، ایک طویل عرصے تک شیطان کے زیرِ اثر رہ کر یہ لوگ شرک و کفر اور برائیوں کی دَلدل میں گردن تک دَھنس چُکے تھے۔ دنیا واضح طور پر دو گروہوں میں تقسیم ہو چُکی تھی،
ایک شیطان کے پیروکار اور دوسرے اللہ ربّ ِ کائنات کے ماننے والے۔ حضرت ادریسؑ اس صُورتِ حال پر بڑے دِل گرفتہ اور پریشان رہا کرتے تھے۔ آپؑ نے لاکھ کوشش کی کہ کسی طرح تبلیغ کے ذریعے ان لوگوں کو راہِ راست پر لایا جا سکے، لیکن جب کوئی صُورت نظر نہ آئی، تو اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُن لوگوں کے خلاف جہاد کا فیصلہ کیا۔ اُنھوں نے اللہ اور اُس کے پیغمبر پر ایمان رکھنے والے نوجوانوں کی ایک جماعت کے ساتھ آلِ قابیل کے ساتھ جہاد کیا، جس میں اللہ تعالیٰ نے اُنہیں کام یابی عطا فرمائی اور بہت سے لوگ دینِ حق کی جانب راغب ہو گئے۔
Great post and straight to the point. I don’t know if this is truly the best place to ask but do
you guys have any ideea where to hire some professional writers?
Thx 🙂 Escape room lista