ڈاکٹر مارس کا قبول اسلام اور فرعون کی لاش
Table of Contents
مصر کے عجائب گھر میں ایک لاش پڑی ہے جس کے بارے میں محققین نے دعوی کیا ہے کہ یہ حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے کے فرعون کی لاش ہے جس کو بائبل کے مطابق Ramesses– II کی لاش کہا جاتا ہے ۔ اس لاش کی تحقیق کے دوران ڈاکٹر مارس نے اسلام قبول کرلیا تھا اس کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ اس کہانی کو اپنے معلومات پیج کے دوستوں سے شئیر کررہا ہوں۔
1898 ءمیں اکسر (مصر) کا ایسا شہر تھا جس کے بارے میں دعوی کیاجاتا ہے کہ یہ پرانے مصر یعنی فرعون کے دور کا دارالحکومت تھا! وہاں وکٹر لارٹ نامی شخص پہنچا۔ اس شہر کو بادشاہوں کی وادی بھی کہا جاتا ہے۔ وہاں 1799 سے زمین کی کھدائی جاری تھی، اس دوران اسے ایک لاش ملی! اسے قاہرہ منتقل کیا۔1907 کو ایک اور سائنسدان الائتھ سمتھ نے اس لاش کا جائزہ لیا اور ایک کتاب میں اس کا پورا تذکرہ لکھا۔
پھر بعد ازاں اسی کی دہائی میں ایک فرانسیسی سائنسدان Maurice bucaile نے لاش کی تحقیق کیلئے حکومتی اجازت مانگی اور کتاب میں لکھا کہ یہ لاش 3 ہزار سال سے زیادہ عرصہ سے وہاں تھی۔ اسے فرانس منتقل کیا جائے۔
فرانس میں اس لاش پر فرنچ مانومنٹ سنٹر میں بڑے بڑے سائنسدانوں نے اس لاش پر تحقیقات کیں۔ اس لاش کے سینہ، پیٹ کے اندر کے اعضاء کا جائزہ لیا گیا۔ اس کئی اعتبار سے تحقیق کی گئی! ایک موقع پر ڈاکٹر مورس باکیویل چکرا گئے اور اپنی کتاب Bible, Quran and Science کے صفحہ نمبر 40 میں لکھا کہ اس لاش کی موت سمندر کے اندر غرق ہونے سے ہوئی تھی۔
جب تحقیقات نے بتایا کہ اس کی موت سمندر میں غرق ہونے سے ہوگئی تو وہ حیران تھا کہ یہ لاش اتنی بڑی لہروں سے بچ کیسے گئی؟ اس بات نے اس سائنسدان کو حیران کردیا۔ اچانک اس کے ایک ساتھی نے اس سے کہا کہ اس بحث میں اتنا نہ پڑو کیونکہ مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ہماری کتاب میں لکھا ہوا ہے یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں! اس نے کہا کہ اگر مسلمانوں کی کتاب میں یہ لکھا ہے تو اس کتاب میں یہ بات کیسے آئی؟ قرآن کو اس لاش کی حقیقت کس نے بتائی؟ وہ سائنسدان اور حیران ہوگیا!
وہ سائنسدان ساری رات جاگتا رہا اور حیرانی سے سوچتا رہا کہ آخر قرآن کو یہ بات کس نے بتائ؟ حالانکہ یہ لاش 1898 میں برآمد ہوئ ہے اور اب 1975 میں ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ سمندر میں غرق ہوکر غرق ہوا! لیکن یہ نہیں سمجھ آرہی کہ اس کی لاش ہم تک کیسے پہنچی؟ یقینا یہ علم قرآن میں نہیں ہوگا!
اس جگہ پہنچ کر اس نے Bible پڑھی اور exodus کے چیپٹر کے باب نمبر 14 میں آیت نمبر 28 کو بار بار پڑھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ پھر پانی نے انہیں گھیر لیا اور فرعونیوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہ بچا۔ پھر اس نے توراہ کے باب Psalms کے باب نمبر 106 کی آیت 9، 10 اور 11 کو پڑھا جس کا مفہوم تھا کہ اس موسی نے حکم دیا کہ وہ خشک ہوجائے۔ موسیٰ کے ساتھی محفوظ طریقے سے دوسرے کنارے پہنچ گئے لیکن فرعونیوں میں سے کوئی ایک زندہ نہ بچا!
اس سائنسدان Maurice bucaile نے لکھا کہ کسی ایک جگہ توراۃ میں بیان نہیں کہ فرعون کی لاش کو محفوظ کیسے بنایا گیا۔ لیکن اسے اس بات کا جواب چاہیے تھا۔ وہ حیران تھا کہ مسلمانوں کی کتاب قرآن میں اس لاش کی حفاظت کا ذکر کہاں سے آیا؟ حضرت محمد ﷺؤ کو کس نے بتایا؟ بالآخر اس نے ایک میڈیکل کانفرنس میں شرکت کی جو سعودی عرب میں منعقد ہوئی 1975 میں اور فرانس کی عالمی خبروں میں اشاعت ہوئی کہ ایک فرعون کی لاش پر تحقیقات کی گئیں۔ اور یہ وہی فرعون ہے جو سمندر میں غرق ہوکر مرا تھا!
اس تحقیق کی شہرت ہر طرف پہنچ گئی۔ سعودی عرب میں ایک کانفرنس میں پہنچ کر انہوں نے اپنا پیپر پڑھا کہ یہ وہ فرعون ہے جو موسی علیہ السلام کے تعاقب میں نکلا اور غرق ہوکر مرا تھا جو Ramsses II تھا۔ اس کا مرکزی خیال تھا کہ آخر کس نے بتایا کہ فرعون کی لاش کو محفوظ کیسے کیا گیا؟
پھر اسی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے قرآن پاک کی سورۃ یونس کی آیت 90، 91 اور 92 پڑھی جس میں فرعون کے غرق ہونے کی مکمل کہانی موجود تھی۔ آخر پر لکھا تھا کہ ہم تیری لاش کو آج کے دن سے محفوظ رکھیں کے عبرت کا نشان بنائیں گے کیا یہ لوگ میری نشانیاں نہیں دیکھتے اور لیکن اکثر لوگ غافل ہیں۔
یہ آیات پڑھنے کے بعد Dr. Maurice bucaile نے کھڑے کھڑے کلمہ شھادت پڑھ دیا اور مجمع عام کے سامنے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔ اس کا کہنا تھا چونکہ قرآن پاک ایک سچی کتا ب ہے مجھے اس کا جواب کسی اور کتا ب میں نہیں ملا۔ اس لئے میں اس کی سچائی پر گواہی دیتا ہوں۔
ڈاکٹر مارس نے خود بھی اسلام قبول کرلیا بلکہ اس کی فیملی نے بھی اسلام قبول کرلیا۔