حضرت حمزہ کا واقعہ

حضرت حمزہ کا واقعہ 

حضرت حمزہ کا واقعہ 

ابو عمارا،حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی کنیت تھی۔حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اپنا نام پکارا جاتا سنا تو جوڑے کی لگام کھینچی۔سفید عربی گھوڑے نے اپنی پچھلی دونوں ٹانگیں روک کے اگلے دونوں سم اٹھا کے سنگلاخ پتھروں پہ اچھل کے مارے،کچھ چنگاریاں اٹھیں اور حمزہ نے گردن موڑ کے پکارنے والے کی آواز کی طرف دیکھا۔آواز دینے والی عبداللّٰہ بن جدعان کی کنیز تھی۔وہ خود لپک کے حمزہ کی طرف آئی۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ابھی تک اپنے شکار میں لائے ہرن اور پرندوں کے زعم میں مور کے پنکھ پگڑی میں لگائے سر اٹھا کے گھوڑے کی پشت پہ شہزادوں جیسے تفاخر سے بیٹھا تھا۔تھا بھی وہ قریش کا سب سے مضبوط جری اور بہادر آدمی،پینتالیس چھیالیس سال کی عمر میں بھی وہ اتنے مضبوط جسم کا مالک تھا کہ قریش کا کوئی جری سے جری شخص بھی اس سے ٹکرانے کا سوچ نہ سکتا تھا۔

پھر بنو ہاشم جیسے معزز ترین خاندان کا ثپوت۔اپنے قبیلے کے علاوہ بھی دوسرے قبائل میں اپنی شجاعت، دلیری،دلبری اور صاف گوئی کی وجہ سے ممتاز مقام رکھتا تھا۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے گھوڑے پہ بیٹھے بیٹھے گھوڑے کی مہار پکارنے والی عورت کی طرف موڑی،گھوڑا ہنہنا کے بڑے اتھرے انداز میں اسی طرف مڑا جدھر اسے موڑا گیا تھا۔پکارنے والی عورت اپنے اونچے مکان کی بیرونی سیڑھیاں اتر کے بھاگی حمزہ کے پاس آ گئی اور حمزہ کی گھوڑے کی چرمی براؤں کاٹھی کا ایک کونہ پکڑ کے بولی،

کچھ پتہ ہے تمہیں ابو عمارا؟

کیا،

تم بنو ہاشم کے رستم ہو،پورے قریش میں کوئی تمہاری ٹکر کا جوان نہیں اور اور کیا؟

وہ ابو الحکم (ابو جہل) تمہارے خاندان کو کیسی کیسی گالی دے گیا۔

کب؟

کیوں؟

وہ تمہارا بھتیجا ہے نا،الامین،صادق ﷺ۔

سچا،یکتا ایماندار

ہاں

اسے یہیں،اسی جگہ پہ ابو الحکم (ابو جہل) نے گالیاں دیں۔جو منہ میں آیا بکتا رہا،تمہارے بھتیجے نے اف تک نہ کی۔کوئی جواب نہ دیا۔سب مغلضات سن کے بھی صبر کرتا رہا۔

کیا تم بنو ہاشم کی یہ عزت رہ گئی ہے کہ جو ایرا غیرا تمہارے معزز ترین فرد کے لیے بکواس کرتا پھرے اور تم جنگل سے ہرن مار کے،پرندوں کو لٹکائے پھرتے رستم قریش ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھے رہو؟

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے چہرے پہ ببر شیر کا چہرہ آ گیا۔

سر سے پاؤں تک جسم جیسے کسی بجلی کے کوندے سے لرزا۔اس نے گھوڑے کی لگام زور سے کھینچی،ایک طرف موڑی اور گھوڑے کی پسلیوں میں پاؤں مارنے سے پہلے بولا،

کہاں ہے وہ اس وقت،ابو جہل؟

حرم کی طرف گیا ہے وہیں بیٹھا ہو گا۔

گھوڑا حرم کی طرف بجلی کی سرعت سے مڑا۔راہ کے پتھروں سے گھوڑے کے سموں سے چنگاریاں نکلیں،پلک جھپکنے میں حمزہ صحن کعبہ میں تھا۔دیکھا،کعبے کے صحن میں،خانہ خدا کی دیوار کے ساتھ سائے میں حطیم کے پاس منڈلی لگائے ابو جہل بیٹھا ہوا ہے

۔منڈلی میں بیٹھے سبھی قریشیوں نے سر پٹ بھاگے چلے آئے گھوڑے پہ حمزہ کو دیکھا اور حیرانی سے اپنی گردنیں لمبی کر کے اس کی طرف تکنے لگے۔کسی اندرونی خوف سے ابو جہل بیٹھا بیٹھا اٹھ کھڑا ہوا،اگلے ہی لمحے حمزہ گھوڑے پہ سوار ابو جہل کے سر پہ پہنچ گیا۔کمر پہ ہاتھ بڑھا کے کمان اتاری اور ابو جہل کو للکار کے قریب بلایا۔ابو جہل ڈگمگاتے قدموں سے ہونق چہرہ لیے حمزہ کی طرف آیا تو حمزہ نے دائیں ہاتھ میں پکڑی کمان پورے زور سے گھما کے ابو جہل کے سر پہ ماری۔

ابو جہل کی گول پگڑی اتر کے دور جا گری۔

کمان کی انی اس کی کنپٹی سے ٹکرا کے لہو کی لکیر بناتی اس کی داڑھی کو رنگتی ہوئی اس کی گردن تک آ گئی۔

ابو جہل گر گیا۔

سیّدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اچھل کے گھوڑے سے اترے اور بولے۔

تیری یہ مجال تو میرے بھتیجے الامین کو گالیاں دیتا ہے۔میں تیری گردن اڑا دوں گا۔سیّدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے کمان کندھے پہ ڈالی اور سینے پہ حمائل نیام میں سے تلوار کے دستے پہ ہاتھ رکھ دیا۔ابو جہل کے قبیلے مخزوم کے پاس بیٹھے، کھڑے کچھ لوگ سیّدنا حمزہ کی طرف بڑھے تو سیّدنا نے نیام سے تلوار نکال لی۔سب اپنی اپنی جگہ پہ رک گئے ان کے قدموں میں گرا،بکھری پگڑی اور خون میں لت پت داڑھی والا ابو جہل  لیٹے لیٹے ہاتھ ہلا کے بولا،

ابو عمارا سچا ہے۔

غلطی میری ہی تھی۔

آج میں نے کچھ زیادہ ہی اوٹ پٹانگ باتیں کہہ دی تھیں۔

سیّدنا حمزہ نے تلوار ہاتھ میں لے کر ابو جہل کے سامنے اس طرح دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہوا کو کاٹ کے لہرائی،جیسے اس کی گردن کاٹ رہا ہو اور پھر تلوار کی انی اور اپنی آنکھوں کی پتلیاں ابو جہل کی دونوں تھرتھراتی سہمی آنکھوں کے عین درمیان میں نشانہ لے کر روکیں اور کہا

آئندہ احتیاط کرنا

یہ تمہاری آخری غلطی ہے

اب وہ صرف میر بھتیجا ہی نہیں

میرا آقا ﷺ بھی ہے

ان پہ آسمان سے اترے پیغام کو آج سے میں بھی ماننے والا ہوں۔

سمجھ گئے؟

ابو جہل تھرتھراتی سہمی آنکھوں میں اب اس کے ماتھے سے بہتے خون کی بوندوں کے ساتھ ساتھ جیسے اس کے ناپاک حسد سے بھرے خوابوں کا بھی خون ہو گیا تھا۔وہ جو تھوڑی دیر پہلے اپنی گری ہوئی پگڑی کو سنبھالتا ہوا اٹھنے کی کوشش میں لگا تھا،

تھپ سے پھٹی ہوئی بوری کی طرح گر گیا،

اسی دن صفا کے پاس ارقم بن ابی ارقم ؓ کے گھر جا کے سیّدنا حمزہ ؓ نے آقا ﷺ کے ہاتھوں کو با آواز بلند پڑھا۔

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ۔

حضرت حمزہ کا واقعہ 
حضرت حمزہ کا واقعہ 

Leave a Comment