سہاگ رات کی سفید چادر کی حقیقت
Table of Contents
حلیمہ، باپ کی لاڈلی ہونے کے باوجود ایک سیدھی سادھی لیکن پراعتماد لڑکی تھی، جو حسن و خوبصورتی کے اعلیٰ پیمانوں پر بھی پوری اترتی تھی۔ اچھی سے اچھی تعلیم حاصل کرنا، اس کے خاندان میں ایسے ہی ضروری تھا، جیسے روز کپڑے پہننا اور کھانا پینا اس نے بھی ایم اے، ایم ایڈ کیا اور ایک اچھے سکول میں ٹیچنگ کرنے لگی شادی کے لئے رشتے آنے لگے تو اس کی صرف ایک ہی شرط تھی کہ وہ شادی کے بعد بھی اسی سکول میں اپنی ملازمت جاری رکھے گی اس لئے ضروری ہے، لڑکا اسی شہر کا ہو باقی سب کچھ اس نے ماں باپ کی مرضی پر چھوڑ دیا تھا،
ادھر ولید احمد کی والدہ بیگم خیر النساء بھی ایک ایسی چاند سی بہو لانے کے خواب دیکھ رہی تھیں، جو تعلیم یافتہ اور برسر روزگار بھی ہو اور نیک و پارسا بھی ان کی تلاش ایک ایسی لڑکی تھی کہ جس کے خیالوں میں بھی کوئی دوسرا مرد نہ آیا ہو کیونکہ ان کے بیٹے نے اس ضمن میں صرف یہی ایک شرط رکھی تھی
انہیں کہیں سے خبر ملی اور وہ حلیمہ کے گھر آ دھمکیں ادھر ادھر سے جتنی چھان پھٹک ممکن تھی وہ انہوں نے کر لی تھی ملاقات ہوئی تو حلیمہ اور اور اس کا پورا خاندان بیگم خیر النساء کو بہت پسند آیا اور جلد ہی ملاقاتوں کی بات چیت شادی کے نتیجے پر پہنچ گئی،
ولید احمد بھی نہ صرف یہ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوش شکل جوان تھا بلکہ ایک سرکاری محکمے میں کلیدی عہدے پر فائز بھی تھا۔ البتہ ماں کے لاڈ کی زیادتی نے اسے ماماز بوائے بنا دیا تھا لڑکیوں سے دوستیاں نہ اس کی تعلیم کے دوران تھیں نہ ہی کبھی بعد میں ہوئیں نا ہی اس نے کسی اور طریقے سے کسی عورت سے جنسی تعلق قائم کرنے کی کوشش کی۔
عورتوں کے بارے میں اس کی تمام معلومات اپنے چند شادی شدہ دوستوں کی فراہم کردہ تھیں ولید احمد کو کچھ خبر نہ تھی کہ ان معلومات میں کتنی صداقت تھی اور کتنی مبالغہ آرائی؟ اس نے انہیں سچ ہی مان لیا تھا۔ انٹرنیٹ سے ایسی کوئی معلومات حاصل کرنا اس کے نزدیک گناہ کبیرہ تھا،
بیگم خیرالنساء بھی اپنی مرحلہ وار تحقیقات سے ولید احمد کو آگاہ کرتی چلی آ رہی تھیں یوں یہ رشتہ بیگم خیرالنساء کی کوششوں سے لیکن ولید احمد کی مکمل رضامندی سے انجام پایا تھا ولید کے والد صاحب نے بھی تمام معلومات کو تسلی بخش پا کر ماں بیٹے کی ہاں میں ہاں ملائی تھی شادی کی تیاریاں خوب زور و شور سے ہوئیں اور بہت دھوم دھام سے شادی انجام پا گئی حجلۂ عروسی میں حلیمہ اور ولید احمد کو بند کرنے تک ہر طرف خوشیوں کا راج تھا،
اور حجلۂ عروسی، یوں تو پورا کمرہ ہی خوب محنت سے سجایا گیا تھا لیکن دلہا دلہن کی مسہری پر خاص توجہ دی گئی تھی پورا ماحول رنگا رنگ سج دھج سے آراستہ تھا کمرے کی ہوا پھولوں کی مہک سے معطر تھی کمرے میں ہلکی ہلکی روشنی نے عجیب طلسمی فضا قائم کر دی تھی ولید احمد نے حلیمہ کا گھونگٹ اٹھایا
، اسے سلامی دی اور پھر ایک سنجیدہ شخص کی طرح اس کے پاس بیٹھ گیا اس نے پہلے بہت آہستہ آہستہ حلیمہ کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ شروع کیا تو حلیمہ کو بھی یہ محسوس کر کے خوشی ہوئی کہ ولید ایک مہذب اور خوش اطوار شخص ہے وہ بھی دھیمے دھیمے انداز میں اس کی باتوں کا جواب دینے لگی
تھوڑی بے تکلفی کی فضا قائم ہو گئی تو ولید نے جنسی وظیفہ کی طرف رجوع کیا حلیمہ تو اب اس کی بیوی تھی اس لئے کسی مزاحمت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا البتہ حلیمہ نے جیسا سن رکھا تھا اسے ولید کی طرف سے ویسا جوش و خروش محسوس نہ ہوا سنی سنائی باتوں کے سوا اس کے پاس بھی کوئی علم نہیں تھا اس لئے موازنہ کا بھی سوال نہیں اٹھتا تھا،
خیر جونہی ولید فارغ ہو کر بستر پر لیٹا، حلیمہ اٹھ کر واش روم میں چلی گئی وہ واش روم سے واپس آئی تو ولید نے کمرے کی بڑی لائٹ آن کی ہوئی تھی اور وہ اپنے کپڑے ہاتھ میں پکڑے پاس ہی صوفے پر بیٹھا تھا اس کے چہرے سے کچھ دیر پہلے والی خوشگواریت بھی غائب تھی بلکہ اب اس کی آنکھوں میں ایک خوفناک قسم کی اجنبیت امڈ آئی تھی ماتھے پر کچھ شکنوں نے بھی ڈیرے ڈال لئے تھے حلیمہ کے باہر آتے ہی وہ واش روم میں داخل ہو گیا اور حلیمہ واپس آ کر بستر پر بیٹھ گئی،
کچھ دیر بعد ولید واش روم سے باہر نکلا تو اس نے پورے کپڑے پہنے ہوئے تھے حلیمہ کا خیال بھی تھا اور خواہش بھی کہ ولید پھر سے ان کے بستر پر آ جائے لیکن وہ واش روم سے نکلتے ہی دروازہ کھول کر باہر چلا گیا اب تو حلیمہ کو سخت حیرت ہوئی وہ سوچ رہی تھی کہ یہ کیسی سہاگ رات ہے؟ مگر پھر اس خیال سے خود کو ڈھارس بندھائی کہ شاید اسے کسی چیز کی ضرورت پڑ گئی ہو گی جسے لینے وہ باہر گیا ہے
بہرحال وہ دس پندرہ منٹ بعد واپس آ گیا اب اس کے ہاتھ میں ایک کمبل اور ایک تکیہ بھی تھا اس نے تکیہ اور کمبل صوفے پر رکھے اور خود وہاں لیٹ گیا اب مزید خاموش رہنا حلیمہ کے بس کی بات نہ تھی وہ تو چاہ رہی تھی کہ ولید پھر سے بستر میں آئے اور اسے اپنے بدن کی گرمی سے مستفید ہونے کا موقع دے سو اس نے ولید سے پوچھ لیا ”کیا ہوا؟“ ”نہیں، کچھ نہیں ہوا تم سو جاؤ دراصل مجھے کسی کے ساتھ سونے کی عادت نہیں ہے“ولید نے جواب دیا اور کمبل اوپر کھینچ لیا،
حلیمہ نے کہا ”اگر ایسی بات ہے تو آپ بیڈ پر آ جائیں میں صوفے پر لیٹ جاتی ہوں“ مگر ولید نہیں مانا اور لائٹ آف کر کے صوفے پر لیٹ گیا حلیمہ عجیب مخمصے میں گم بہت دیر تک جاگتی رہی پھر کہیں رات کے پچھلے پہر اسے بھی نیند آ گئی جب اس کی آنکھ کھلی تو کمرہ عجیب کھسر پھسر سے بھرا ہوا تھا حلیمہ نے دیکھا تو ولید اپنی ماں اور دو بڑی بہنوں کے ساتھ سرگوشیوں میں باتیں کر رہا تھا
بیگم خیر النساء اسے کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں حلیمہ بس ان کا اتنا ہی جملہ صحیح طرح سے سمجھ سکی ”کم از کم ولیمے تک تو رک جاؤ پھر کر لینا تم جو بھی کرنا چاہتے ہو“ لیکن جواب میں ولید اپنے موقف پر بضد تھا پھر وہ تینوں خواتین تو سر جھکا کر باہر نکل گئیں اور ولید دوبارہ سے ویسے ہی صوفے پر بیٹھ گیا،
حلیمہ نے سخت تشویش کے عالم میں پوچھا ”کیا بات ہے؟ کیا ہو رہا ہے یہ سب؟“
ولید جواب میں خاموش رہا تو وہ دوبارہ بولی ”آپ کچھ بتا کیوں نہیں رہے؟“
ولید وہیں سے سر جھکائے جھکائے بولا ”تمہارے ماں باپ کو بلانا پڑے گا“
”میرے ماں باپ کو ؟ وہ تو شام کو ولیمے پر آئیں گے ہی پھر ابھی بلانے کی کیا ضرورت ہے؟“
”ضرورت ہے، اسی لئے تو بلانا پڑے گا“ ولید نے بڑے روکھے لہجے میں جواب دیا اب معاملہ حلیمہ کی برداشت سے باہر ہو رہا تھا ” آپ پہلے مجھے بتائیں جو بھی بات ہے۔ پھر ضرورت ہوئی تو میرے ماں باپ کو بھی بلا لیجیے گا“ ”بات تو بہت سیدھی ہے، لیکن ہو سکتا ہے تمہیں سمجھ نہ آ سکے“ ”کیوں؟ میں کوئی جاہل ہوں گونگی بہری ہوں یا پاگل ہوں؟ آپ مجھے بتائیں جو بھی آپ کا مسئلہ ہے میں سننے کو تیار ہوں“ اب حلیمہ کے لہجے میں بھی سختی آ چکی تھی،
ولید نے چہرہ اوپر اٹھایا تو اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اس کی گردن کی رگیں تک تنی ہوئی تھیں اور کانوں کی لوئیں بھی تپ رہی تھیں وہ بولا ”میں نے اپنی والدہ کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ میں ایسی لڑکی سے کسی صورت بھی شادی نہیں کر سکتا جو پہلے ہی کسی اور مرد کے استعمال میں رہی ہو، مگر وہ پھر بھی ٹھیک طریقے سے جانچ پڑتال نہیں کر سکیں“
”آپ کو معلوم تو ہے نا، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟“ حلیمہ کے سوال میں بھی اب کرختگی در آئی تھی ”میں اچھی طرح جانتا ہوں، میں کیا کہہ رہا ہوں اور میرے پاس اپنے دعوے کا مکمل ثبوت موجود ہے“ ”اچھا؟ تو مجھے بھی بتائیے ذرا، کیا ثبوت ہے آپ کے پاس اس بے ہودہ دعوے کا ؟“ ”میں نے تو رات ہی دیکھ لیا تھا مگر میں نے مناسب سمجھا کہ رات گزر جائے تم جس چادر پر بیٹھی ہو، یہی ثبوت ہے میرے دعوے کا کیونکہ یہ اب بھی اسی طرح سفید ہے جیسے کہ یہ رات ہمارے بستر پر بچھائی گئی تھی
اس پر خون کا ایک چھوٹا سا دھبہ بھی نہیں یہی ظاہر کرتا ہے کہ تم میرے ساتھ سونے سے پہلے کنواری نہیں تھیں میری ماں اور بہنوں کا خیال ہے کہ میں کم از کم ولیمے تک خاموش رہوں کسی کو کوئی خبر نہ ہونے دوں لیکن میں کوئی منافق نہیں ہوں کہ یہ سب برداشت کروں نا ہی میں کوئی ایکٹر ہوں
کہ لوگوں کے سامنے اداکاری کروں اس لئے میں تمہیں ابھی اور اسی وقت طلاق دیتا ہوں میں تمہیں طلاق دیتا ہوں میں تمہیں طلاق دیتا ہوں اب تمہارے لئے اچھا ہے کہ اپنے ماں باپ کو فون کرو تاکہ وہ آ کر اپنی اس گناہ کی گٹھڑی کو لے جائیں“ اور خود کمرے سے باہر نکل گیا،
حلیمہ کو پہلے تو کچھ دیر سمجھ ہی نہیں آئی کہ ہوا کیا ہے؟ لیکن جیسے ہی اس کے اوسان بحال ہوئے اس نے پولیس کو فون ملایا اور انہیں اپنا تعارف کرانے کے بعد فوراً آنے کے لئے کہا دوسری طرف سے سوال کے جواب میں حلیمہ نے بتایا کہ یہاں ریپ اور دھوکہ دہی کی واردات ہوئی ہے اس لئے وہ ذرا بھی دیر نہ لگائیں ورنہ ہو سکتا ہے کہ شواہد مٹانے کی کوشش کی جائے لیکن جب حلیمہ نے محسوس کیا کہ دوسری جانب سے اس کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا
تو اس نے فوراً اپنے سکول کا حوالہ دیتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر پولیس آدھے گھنٹے میں اس کے پاس نہیں پہنچی تو پورے ایک گھنٹے کے بعد اس کے سکول کی تمام استانیاں، باقی عملہ اور سکول کے سارے بچے ان کے تھانے پہنچ جائیں گے دھمکی کارگر ہوئی اور پولیس والوں نے فوراً آنے کی ہامی بھر لی، پولیس کے بعد حلیمہ نے ماں کو کال ملائی اور تمام حالات سے آگاہ کر دیا مگر ساتھ ہی یہ تاکید بھی کر دی کہ وہ روتے دھوتے ہوئے نہ آئیں اور نہ ہی اس کے سسرال والوں کی منت سماجت کی کوشش کریں پولیس والی کال کا بھی ان کو بتا دیا،
لیکن پولیس پہلے آ گئی ولید اور اس کے گھر والے اس کے لئے بالکل تیار نہیں تھے بارہ تیرہ بندوق بردار پولیس والوں نے شادی والے گھر کو گھیر لیا ولید نے پہلے مزاحمت کی کوشش میں انہیں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی پھر کہیں ٹیلی فون کرنے کے لئے اپنا موبائل اٹھایا ہی تھا کہ پولیس کی کچھ خواتین نے گھر کے ہر فرد سے ان کے موبائل چھین لئے لینڈ لائن پر بھی قبضہ کر لیا ولید کو ہدایت کی کہ پولیس کو اپنا کام سہولت سے کرنے دے،
اسی میں سب کی بہتری ہے پولیس ٹیم کی سربراہی پچاس پچپن سال کا ایک باریش انسپکٹر اکبر خان کر رہا تھا اس کے کہنے پر ولید، انسپکٹر اکبر خان اور دو لیڈی کانسٹیبلز کو لے کر حلیمہ کے پاس آ گیا حلیمہ نے بغیر کسی جھجک کے انسپکٹر کو سارا ماجرا پوری تفصیل سے سنا دیا اور مطالبہ کیا کہ اس کی رپورٹ لکھی جائے،
اکبر خان پولیس کی عام شہرت سے ہٹ کر ایک نہایت دھیمے مزاج کا پولیس انسپکٹر تھا پوری بات سننے کے بعد وہ حلیمہ سے یوں گویا ہوا ” دیکھو بیٹی، میں خود دو شادی شدہ بیٹیوں کا باپ ہوں اور معاشرے کے جبر سے اچھی طرح واقف ہوں صرف ہمارا یہاں آ جانا ہی تمہارے لئے کافی بدنامی کا باعث بن چکا ہے اب اگر بات آگے بڑھے گی تو اس رسوائی کے چھینٹے تمہارے ساتھ ساتھ تمہارے پورے خاندان پر پڑیں گے یہ لوگ تو لڑکے والے ہیں، یہ تو تمہی پر الزام لگائیں گے اور تھوڑی سی گرد اٹھنے کے بعد ہر تہمت سے بری بھی ہو جائیں گے۔
البتہ تمہاری زندگی تباہ ہو جائے گی تم کہو تو میں انہیں صلح صفائی پر مجبور کر سکتا ہوں یہاں پولیس پارٹی کے آنے کو بھی میں کوئی اور نام دے دوں گا“ مگر اکبر خان کی اتنی ہمدردانہ گفتگو بھی حلیمہ کو اپنا موقف تبدیل کرنے پر راضی نہ کر سکی وہ بولی ”انسپکٹر صاحب! طلاق تو ہو چکی ہے اور یہ شخص، جس کے نزدیک عورت کے کردار کی پاکیزگی صرف خون کے دھبوں سے ہو کر گزرتی ہے
، اس سے مجھے کوئی رشتہ رکھنا بھی نہیں اگر اب یہ میرے پیروں میں گر کر معافی بھی مانگے تو میں اسے معاف نہ کروں گی رہی بات بدنامی کی، تو کسی کو تو یہ قربانی دینی ہی پڑے گی عورت رسوائی سے ڈر کر سب سہتی رہتی ہے اور ہمارا معاشرہ اس کا استحصال کرتا رہتا ہے،
جب میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ گزشتہ رات سے پہلے میرا کسی مرد سے تو کیا کسی عورت سے بھی جنسی تعلق نہیں رہا خدا کا شکر ہے کہ میں کبھی جنسی زیادتی کا شکار بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی میں کبھی خود لذتی کی علت میں مبتلا ہو کر اپنی دوشیزگی سے محروم ہوئی تو پھر میں ایسا الزام لے کر کیوں جیوں؟ مجھے انصاف چاہیے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گا تو ہی میں زندہ رہ سکوں گی وجوہات سامنے آئیں گی تو شاید دوسری مظلوم عورتوں کو بھی ہمت مل سکے“ جاری ہے۔۔۔!