وراثت ميں خواتين كا حق ۔مولانا عمار خان ناصر
وراثت ميں خواتين كا حق۔ ہمارے ہاں خواتین کے معاملے میں عملاً یہ مان لیا گیا ہے اور بہت سے جذباتی ہتھکنڈے اور دباؤ استعمال کر کے خواتین کو بھی اس پر قائل کر لیا گیا ہے کہ وہ باپ یا ماں کے مرنے کے بعد وراثت میں اپنے حصے کا مطالبہ نہ کریں۔ کوئی بہن اگر حصہ مانگ لے تو یہ ناقابل معافی جرم ہے کہ وہ بھائیوں سے حصہ مانگتی ہے۔
دین دار لوگ ہیں تو انھوں نے بھی اس کے جواز کے لیے یہ راستہ نکالا ہوا ہے کہ بہنوں سے معاف کروا لیتے ہیں۔ بہت سے دین دار ہیں جو ایسا کروا لیتے ہیں تاکہ یہ کہہ سکیں کہ ہم نے بہنوں کی حق تلفی نہیں کی۔ بھئی، اگر بہن کو یہ منظر نظر آ رہا ہو کہ آج میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے لے لوں گی اور اس کے بعد باقی ساری زندگی کے لیے میرے ساتھ تعلق ختم ہوجائے گا اور اگر رہے گا بھی تو بس برائے نام رہے گا تو اس نے تو معاف کرنا ہی ہے۔
ہمارے استاذ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر فرمایا کرتے تھے کہ ایسی زبانی کلامی معافی کا کوئی اعتبار نہیں، چاہے بہن دس دفعہ منہ سے کہہ دے یا لکھ کر دے دے کہ میں نے اپنا حق معاف کیا، کوئی اعتبار نہیں، کیونکہ یہ حقیقت میں طیب خاطر سے معاف نہیں کیا گیا۔ وہ کہتے تھے کہ معافی وہ معتبر ہے کہ آپ بہن کو اس کا جو حصہ بنتا ہے، وہ الگ کر کے اس کے سپرد کریں۔
وہ بالفعل اس کی مالک بن جائے، اس کو اس میں تصرف کا حق حاصل ہو جائے اور پھر اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے، کسی دباؤ کے بغیر اور کسی طعن وتشنیع یا قطع تعلق کے خوف کے بغیر یہ کہے کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں، میں اپنے بھائی کو دیتی ہوں تو وہ ایک الگ مسئلہ ہے۔
لیکن جہاں کسی قسم کا کوئی دباؤ، کوئی خوف یا قطع تعلق کا کوئی اندیشہ شامل ہوگا تو اس معافی کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں، بلکہ بعض اکابر صحابہ وتابعین کے ایسے فیصلے موجود ہیں کہ اگر عورت شادی ہونے اور بچے کو جنم دینے سے پہلے اس طرح کا کوئی فیصلہ کرے تو وہ اسے قانوناً نافذ ہی نہیں کرتے تھے۔
چنانچہ جلیل القدر تابعی عامر شعبی کہتے ہیں کہ قریش کی ایک لڑکی سے اس کے بھائی نے کہا کہ تم اپنے شوہر کے پاس جانے سے پہلے اپنی وہ میراث جو تمھیں والد کی طرف سے ملی ہے، مجھے ہبہ کر دو۔
لڑکی نے اس کی بات مان لی، لیکن پھر شادی ہو جانے کے بعد اس نے اپنی میراث دوبارہ مانگی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہ اسے واپس دلوا دی اور قاضی شریح کو تاکید کی کہ جب تک عورت اپنے شوہر کے گھر میں جا کر ایک سال نہ گزار لے یا ایک بچے کو جنم نہ دے دے، اس وقت تک اس کی طرف سے ہبہ کے فیصلے کو نافذ نہ مانا جائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ۲۱۹۱۴، ۲۱۹۱۶) (وراثت ميں خواتين كا حق)
اس فیصلے کے پیچھے بھی یہی حکمت دکھائی دیتی ہے کہ شادی سے پہلے لڑکی اپنے مال کے متعلق بہتر فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی اور مال کی اہمیت کا احساس اسے دراصل شوہر اور بچوں والی زندگی سے واسطہ پیش آنے کے بعد ہی ہوتا ہے، اس لیے وراثت میں اپنا حق معاف کرنے یا نہ کرنے کے ضمن میں اس کا فیصلہ بھی وہی معتبر ہوگا جو وہ اس صورت حال سے سابقہ پیش آنے کے بعد کرے گی۔