اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک-678ع

اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک اسلام میں پہلے حکمران خاندان کا ساتواں اموی خلیفہ، سلمان بن عبد الملک بن مروان بن حکم بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب تھا۔ وہ (678ء) کو دمشق میں پیدا ہوا۔ اپنے بڑے بھائی ولید بن عبدالملک کی وفات کے بعد ولیعہد بنا اور ولید کے دور میں سلمان اس کا مشیر اور وزیر تھا۔ 

ولید کی موت کے وقت سلیمان رملہ میں تعینات تھا۔ سلیمان نے

اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک تخت نشینی

اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک تخت نشینی

فلسطین میں اپنے دور حکومت میں رملہ میں ایک نیا شہر بسایا اور یہاں رہائش اختیار کی۔ اس کے محلات کے آثار پہلی جنگ عظیم تک موجود تھے۔ (ولید نے فلسطین کی حکومت اس کے سپرد کی تھی، وہ “لد” Lod (فلسطینی شہر) میں آباد ہوا، پھر اس نے رملہ شہر کی بنیاد رکھی)۔ رملہ کو اس کے حکم سے 716ء میں فلسطین کا انتظامی دارالحکومت بنایا گیا، رملہ اس کی خلافت کا گڑھ بنا۔:اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک

اگرچہ ولید نے اپنی زندگی میں سلیمان کو ولی عہدی سے خارج کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ سلیمان کے بجائے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنائے۔ لیکن اچانک موت کی بنا پر وہ اپنے ارادوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکا۔ حجاج بن یوسف اور قیتبہ بن مسلم اس معاملہ میں ولید کے ہمنوا تھے۔ سلیمان

(23 فروری 715ء) کو تخت نشین ہوا۔ ولیعہد بنتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ اپنے چچا زاد حضرت عمر بن عبدالعزیز بن مروان جیسے با کمال شخص کو اپنا مشیر و وزیر نامزد کیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے دمشق میں سلیمان سے بیعت کی اس وقت سلیمان کی عمر 37 برس تھی۔

اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک بن عبد الملک کی انتقامی کاروائیاں اور ملکی پالیسی

سلیمان بن عبد المک نے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کی عمومی دلچسپی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے چند اقدامات کیے تھے۔

1۔ بعض گورنروں کی برطرفی۔

سلیمان نے انتقامی جذبہ سے کام لیتے ہوئے اسلام کی نامور شخصیات کو اپنے عہدوں سے برخاست کیا۔ حجاج کے زمانہ میں مقرر کیے گئے عاملوں کو ہٹا کر ان کی جگہ دوسرے حاکم مقرر کیے گئے۔ برطرف ہونے والوں کی جائیدادیں ضبط کر لیں اور انہیں زندان میں ڈال دیا۔ اس نے اپنے پیشروؤں کے حکام پر سخت تشدد کیا۔

اسلام کے نامور سپہ سالاروں کو قتل کروایا اور زندان میں ڈالا۔

محمد بن قاسم کو بڑے ظالمانہ طریقے سے صالح بن عبدالرحمٰن کے ہاتھوں عراق میں  قتل کروا دیا گیا۔

 قیتبہ بن مسلم بھی اسی انجام سے دوچار ہوا۔ سلیمان نے قتیبہ بن مسلم کو، جو عظیم ترین اسلامی فاتحین میں سے ایک تھے اور جنہوں نے ماوراء النہر کے علاقے میں بہت سی شاندار فتوحات حاصل کی تھیں، کو برطرف کیا اور پھر انہیں مروا ڈالا۔

(ماوراء النہر کا علاقہ آمو دریا (جیحون) اور سر دریا (سیحون) دریاؤں کے درمیان کی زمین ہے۔ یہ وسط ایشیاء کا ایک حصہ جس میں آج ازبکستان، تاجکستان، قازقستان اور کرغزستان کے تمام حصے شامل ہیں)۔

بعض مورخین نے اس کی وجہ قتیبہ کی ولید بن عبدالملک کی حمایت بتائی ہے (جب وہ (ولید) سلیمان کے بجائے اپنے بیٹے عبدالعزیز کو ولی عہد بنانا چاہتے تھے)۔ بعض محققین نے، عوام کا اعتماد حاصل کرنا اور حکومت پر لوگوں کی رضامندی کو اس کی وجہ قرار دیا ہے کیونکہ محمد بن قاسم اور قتیبہ، حجاج بن یوسف ثقفی کے مرتکب افراد میں سے تھے۔ 

سلیمان نے محمد بن حنفیہ کے بیٹے ابو ہاشم کو بھی زہر دے کر قتل کروایا۔

[محمد بن حنفیہ یا محمد بن علی یا محمد اکبر ابو القاسم (پیدائش: 636ء— وفات: 25 فروری 700ء) علی بن ابی طالب اور خولہ بنت جعفر بن قیس کے فرزند تھے اور جلیل القدر تابعین میں سے تھے۔]

بدقسمتی سے موسٰی بن نصیر کا انجام بھی نہایت اندوہ ناک ہوا۔

موسی بن نصیر، تیونس (افریقہ) کے عظیم اموی گورنر اور سپہ سالار تھے۔ انہوں نے اندلس کو فتح کیا تھا، ان کے آخری ایام تنگ دستی اور پریشان حالی میں گزرے۔ 

اندلس فتح ہو چکا تھا۔ موسیٰ بن نصیر کے ہاتھ بہت سا مال غنیمت لگا تھا۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے موسیٰ کو دمشق واپس طلب کیا۔ موسیٰ بہت سا مال غنیمت دمشق لا رہے تھے، جن میں ایک سونے کا میز بھی شامل تھا جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ میز حضرت سلیمان ؑ کی ملکیت تھا۔

 جونہی یہ آبنائے جبرالٹر عبور کر کے دمشق کی طرف روانہ ہوئے، اس دوران خلیفہ ولید مرض الموت میں مبتلا ہو گیا۔ لہٰذا سلیمان بن عبدالملک جو حکمرانی کے خواب دیکھ رہا تھا نے موسیٰ بن نصیر کے پاس ایک قاصد بھیجا کہ مال غنیمت خلیفہ ولید کے حوالے نہ کیا جائے اور چند دن صبر کرے۔ (یعنی ولید کی موت کے بعد اور اس کی اپنی تخت نشینی کے وقت اسے پیش کیا جائے)۔ لیکن موسیٰ نے اسے اپنے خلیفہ ولید سے غداری سمجھا۔

 وہ خلیفہ کی خدمت میں جلد از جلد حاضر ہو کر تحائف اور مال غنیمت پیش کرنا چاہتا تھا۔ لہذا سلیمان بن عبدالمالک کی خواہش کے برخلاف نہایت سرعت سے پایہ تخت دمشق پہنچا اور سارا مال غنیمت ولید کے حوالے کر دیا۔ ولید نے موسیٰ کی بے حد عزت افزائی کی۔خلیفہ ولید چند دنوں بعد فوت ہو گیا۔ مرنے سے قبل وہ اپنے بیٹے کو اپنی جگہ ولیعہد نامزد کرنا چاہتا تھا مگر بیماری نے انہیں ایسا کرنے کی فرصت ہی نہ دی۔ سلمان نے فوری طور پر اقتدار سنبھال لیا۔ 

انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے سلیمان نے موسیٰ کو تمام اعزازات اور مناصب سے معزول کر دیا۔ علاوہ اس کی تمام جائداد ضبط کر کے زندان میں ڈال دیا۔ اسے قید میں سخت اذیتیں دیں۔ جب سلیمان نے موسیٰ بن نصیر کو قید کیا تو اس کے بیٹے عبدالعزیز کو (جسے موسیٰ افریقہ میں اپنا نائب بنا کر آئے تھے) افریقہ میں قتل کرا دیا۔

موسٰی کو جیل میں ان کے جواں بیٹے کا سر طشتری میں رکھ کر پیش کیا گیا۔ جس پر 80 سالہ بزرگ منتظم و جرنیل کا تبصرہ صرف یہ تھا: “سلیمان تو نے ایک ایسے جوان کو مارا ہے جو رات کو اللہ کی عبادت کرتا تھا اور دن کو روزہ رکھتا تھا”۔ یہ صدمہ بظاہر انہوں نے صبر سے برداشت کیا لیکن پیرانہ سالی میں ایک نیک اور باصلاحیت بیٹے کی موت ان کے لیے ناقابل برداشت ثابت ہوئی۔

جب کسی صاحب اثر شخصیت کے ایماء پر موسی کو قید سے نکالا گیا تو سلیمان نے اس پر کئی لاکھ کا جرمانہ عائد کر دیا۔ موسی اس قدر کثیر رقم بطور جرمانہ ادا کرنے کے قابل نہ تھا۔

کہاں فاتح سپین کی حیثیت سے شاہانہ تزک و احتشام اور کہاں اب ایک تنگ دست انسان جو دو لقموں کا بھی محتاج ہو۔ خلیفہ سلیمان موسیٰ کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر حج کے دوران مکہ لے گیا اور اس سے بھیک منگوائی تا کہ جرمانے کی رقم بھیک سے اکٹھی کرے۔ بالآخر 716ء میں نہایت ہی کسمپرسی کے عالم میں ان کی روح قفص عنصری سے پرواز کر کے تمام اذیتوں سے چھٹکارا پا گئی۔

سلیمان نے عبدالعزیز بن موسی بن نصیر کی جگہ قریش کے پیروکار محمد بن یزید کو بٹھایا۔ عبدالعزیز کی جگہ بھیجا گیا محمد بن یزید سلیمان کی زندگی تک وہاں رہا۔

یہ غلط اقدامات مجموعی حیثیت سے سلطنت کے وقار میں کمی کا باعث ہوئے۔

 سلیمان نے یزید بن مہلب کو، جو حجاج کے دشمنوں میں سے تھا، عراق اور خراسان کی حکومت پر مقرر کیا۔ 

(یزید بن مہلب (پیدائش: 673ء – وفات: 720ء) سلیمان بن عبدالمالک کا ایک ممتاز فوجی جرنیل تھا۔ اس نے امویوں کے خلاف بڑی بغاوتیں و شورشیں پیدا کیں تھیں۔ واسط پر قابض ہوا تھا۔ 720ء میں یزید بن مہلب، مسلمہ بن عبدالمالک سے مقابلے میں مارا گیا)۔

 2- ان مسلمانوں کو قید سے رہائی دلوائی جو سابقہ حکومت کے خلاف تھے اور لوگوں کی ماہانہ ادائیگی میں اضافہ کیا۔

ولید کے زمانہ کے تمام قیدیوں کو جنہیں بغیر کسی جرم کے یا محض شک و شبہ کی بنا پر قید خانہ میں ڈال دیا گیا تھا رہائی دلوائی۔ سلیمان نے مجرموں کو جیل سے رہا کیا اور انہیں اسلامی گارڈ میں شامل کرایا۔

ہر شخص کا ماہانہ حصہ بڑھا کر 25 درہم کر دیا۔ 

مشرقی محاذ میں خارجہ پالیسی: 

محمد بن قاسم اور قتیبہ بن مسلم کے قتل کے بعد کوئی نئی اسلامی فتوحات نہیں ہوئیں۔ درحقیقت 98ھ سے اموی دور کے اختتام تک اموی خلافت کے سیاسی حالات نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔

سلیمان نے اپنے بھائی مسلمہ کو رومی جنگ اور قسطنطنیہ پر قبضہ کرنے کے لیے بھیجا۔ بلاشبہ اس نے فتوحات حاصل کیں، جیسے پرگاموس اور سارڈیس کی فتح، لیکن قسطنطنیہ کے محاصرے سے اسے کوئی نتیجہ نہیں ملا اور مسلمہ ناکام واپس چلا گیا۔

قسطنطنیہ کا محاصرہ اور ناکامی: 

رومی محاذ پر پیش آنے والا ایک اہم واقعہ قسطنطنیہ کا محاصرہ تھا۔

سلیمان بن عبد الملک کے زمانہ میں سلطنت روم اندرونی خلفشار سے دوچار تھی۔ سلیمان نے اس موقع کو غنیمت جان کر رومی سلطنت کے دارالحکومت قسطنطنیہ پر حملہ کا منصوبہ بنایا۔ اس کے بعد وہ بازنطینی سلطنت کی سرحد پر بھی حملہ کرنا چاہتا تھا۔

چنانچہ قسطنطنیہ مہم کے لیے 98ھ میں ایک لشکر جرار مسلمہ بن عبدالملک کی ماتحتی میں روانہ کیا گیا۔ اس طرح بری اور بحری دونوں اطراف سے قسطنطنیہ پر حملہ کیا گیا۔ مسلمہ خشکی کے راستہ ایشیائے کوچک سے ہوتا ہوا آگے بڑھا۔ مسلمانوں نے سب سے پہلے “اموریہ” پر قبضہ کیا، پھر کچھ دوسرے شہر قبضہ میں کیے جو رومیوں کے قبضے میں تھے۔ 

ملیتا کے علاقے میں ثقلابیان اور حسن میراہ کو بھی قبضے میں لے لیا گیا۔ قسطنطنیہ کا شہر خشکی اور سمندر سے گھرا ہوا تھا۔ مسلمہ نے خشکی کے راستے قسطنطنیہ پہنچتے ہی شہر کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ کئی ماہ جاری رہا۔ ناکہ بندی سے تنگ آ کر شہر والوں نے صلح کی درخواست کی جسے مسلمہ نے رد کر دیا۔ لیو ایسوریائی چونکہ مسلمانوں کی تمام کمزوریوں اور منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ تھا، اس نے بڑی پامردی سے مدافعت کی

۔ موسم سرما تھا اور شدت کی برفباری تھی جس کے باعث اشیائے ضرورت میں شدید کمی ہو گئی۔ مسلمان بھوکوں مرنے لگے۔ دوسری طرف اگرچہ سلیمان سرحد روم پر خیمہ زن تھا لیکن خراب موسم کی وجہ سے بروقت امدادی فوج اور سامان رسد نہ بھیج سکا۔ اس تک فوج کی بے چینی، خوراک کی کمی اور قیمتی جانوں کے ضیاع کی خبریں پہنچ رہی تھیں۔ لیکن وہ اس قدر تباہی کے باوجود فوج کی واپسی کے احکامات صادر کرنے پر رضا مند نہ تھا۔

مگر صفر 99ھ (دسمبر 717ء) میں سلیمان دابق کے مقام پر اچانک وفات پا گیا تو اس کے جانشین حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فوج کی تباہی دیکھ کر مسلمہ کو فوری واپسی کے احکامات صادر کر دیے۔

اس طرح یہ مہم ناکام ہوئی۔

قسطنطنیہ مہم کی ناکامی کے اسباب :

  رومیوں کا زبردست دفاعی سازوسامان تھا۔ برف کے طوفان کے باعث مسلمانوں کے متعدد جہاز ٹوٹ گئے تھے اوپر سے رومیوں نے مسلمانوں کے مواصلاتی راستوں کو کاٹ ڈالا تھا۔ محاصرہ کو کئی ماہ تک طول دیا گیا۔ شدید درد موسم اور برفباری کی وجہ سے رسد کی کمی ہوئی اور آخر میں سلیمان کی اچانک موت اس شہر کا محاصرہ کرنے میں ناکامی کا سبب بنا۔

 بلاشبہ، اس علاقے میں کئی ماہ قیام کے بعد، وہ بالآخر بہت سی جانیں ضائع ہونے کی وجہ سے واپس جانے پر مجبور ہو گئے۔ 

اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی وفات:

سلیمان 24 ستمبر 717ء میں روم کی سرحد پر واقع فوجی مرکز دابق کے مقام پر اچانک وفات پا گیا۔ وفات کے وقت اس کی عمر 39 سال تھی، اور مدت خلافت دو سال سات ماہ تھی۔ اس نے اپنی زندگی ہی میں بالترتیب عمر بن عبد العزیز اور یزید بن عبدالملک کو اپنا جانشین نامزد کر کے بیعت حاصل کر لی تھی۔

کردار و شخصیت:اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک

سلیمان کا کردار مجموعہ اضداد تھا۔ اس کے حوالے سے خدا ترسی، نیک نفسی اور رعایا پروری کی ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جن کی وجہ سے اسے بالعموم ایک اصلاح پسند شخصیت مانا جاتا ہے۔ اس نے حجاج کے مقرر کردہ ظالم عاملین سے عوام کو نجات دلائی، پینے کے لیے میٹھے پانی کا بندوبست کیا، ولید کے زمانہ کے قیدی رہا کر دیے گئے اور جیل خانوں کے دروازے کھول دیے گئے لیکن ان کار ہائے خیر کے باوجود وہ بے حد کینہ پرور تھا۔ اس نے محض اپنے انتقام کی آگ بجھانے کے لیے دنیائے اسلام کے نامور سپہ سالاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اور کچھ کو ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔ 

سلیمان بہت خوبصورت اور مردانا وجاہت سے بھر پور شخص تھا۔

وہ بہت خوش خوراک بھی تھا۔ وہ اور اس کے درباری ہمیشہ زیبائش کے کپڑے پہنتے تھے۔

اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کا دور حکومت

(23 فروری 715ء – 24 ستمبر 717ء) تک تھا۔

مورخین نے اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دو اہم اور قابل قدر کاموں کی تعریف کی ہے: 

ایک نماز کو وقت پر بحال کرنا اور دوسرا کارنامہ حضرت عمر بن عبد العزیز کا بطور خلیفہ تقرر کرنا۔ اسی بناء پر مورخین اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کو مفتاح الخیر کا لقب دیتے ہیں۔

اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک

اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک

Leave a Comment