حضرت اُمّ معبد کا قبول اسلام کا واقعہ

حضرت اُمّ معبد کا قبول اسلام کا واقعہ 

حضرت اُمّ معبد

دورانِ سفرِ ہجرت مدینہ رسول اللہﷺ کو ایک خیمہ نظر آیا۔ خیمے کے باہر ایک عورت بیٹھی تھی۔ یہ ام معبد رضی الله عنہا تھیں۔ جو اس وقت تک اسلام کی دعوت سے محروم تھیں۔ ان کا نام عاتکہ تھا۔ یہ ایک بہادر اور شریف خاتون تھیں۔ انہوں نے بھی آنے والوں کو دیکھ لیا۔ اس وقت ام معبد رضی الله عنہا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ چھوٹا سا قافلہ کن ہستیوں کا ہے۔

 نزدیک آنے پر حضور صلی الله علیہ وسلم کو ام معبد رضی الله عنہا کے پاس ایک بکری کھڑی نظر آئی. وہ بہت ہی کمزور اور دبلی پتلی سی بکری تھی۔

  آپ صلی الله علیہ وسلم نے ام معبد رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: ” کیا اس کے تھنوں میں دودھ ہے؟ ” اُمّ معبد رضی اللہ عنہہ نے بولیں؛ ” اس کمزور اور مریل بکری کے تھنوں میں دودھ کہا سے آئے گا۔” آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” کیا تم مجھے اس کو دوہنے کی اجازت دوگی۔” اس پر اُمّ معبد رضی الله عنہا بولیں: ” لیکن یہ تو ابھی ویسے بھی دودھ دینے والی نہیں ہوئی. آپ خود سوچیئے، یہ دودھ کس طرح دے سکتی ہے. 

میری طرف سے اجازت ہے، اگر اس سے آپ دودھ نکال سکتے ہیں تو نکال لیجئے۔”حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ اس بکری کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس لے ائے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس کی کمر اور تھنوں پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی: ” اے الله! اس بکری میں ہمارے لیے برکت عطا فرما۔”جونہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی‌. بکری کے تھن دودھ سے بھر گئےاور ان سے دودھ ٹپکنے لگا۔ یہ نظارہ دیکھ کر اُمّ معبد رضی الله عنہا حیرت زردہ رہ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

“ایک برتن لاؤ” حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا ایک برتن اٹھا لائیں. وہ اتنا بڑا تھا کہ اس سے آٹھ دس آدمی سیراب ہوسکتے تھے۔ غرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کا دودھ نکالا – اس کے تھنوں میں دودھ بہت بھر گیا تھا – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دودھ پہلے اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کو دیا – انہوں نے خوب سیر ہو کر پیا، اس کے بعد ان کے گھر والوں نے پیا – 

آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خود دودھ نوش فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا: “قوم کو پلانے والا خود سب سے بعد میں پیتا ہے” سب کے دودھ پی لینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بکری کا دودھ نکال کر اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کو دے دیا اور وہاں سے آگے روانہ ہوئے – شام کے وقت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کے شوہر ابو معبد رضی اللہ عنہ لوٹے، وہ اپنی بکریوں کو چرانے کے لیے گئے ہوئے تھے – خیمے پر پہنچے تو وہاں بہت سا دودھ نظر آیا – دودھ دیکھ کر حیران ہوگئے، بیوی سے بولے: “اے آُمّ معبد! یہ یہاں دودھ کیسا رکھا ہے.

گھر میں تو کوئی دودھ دینے والی بکری نہیں ہے؟” مطلب یہ تھا کہ یہاں جو بکری تھی، وہ تو دودھ دے ہی نہیں سکتی تھی – پھر یہ دودھ کہاں سے آیا؟ حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا بولیں: “آج یہاں سے ایک بہت مبارک شخص کا گزر ہوا تھا” یہ سن کر حضرت ابو معبد رضی اللہ عنہ اور حیران ہوئے، پھر بولے: “ان کا حلیہ تو بتاؤ” جواب میں اُمّ معبد رضی اللہ عنہا نے کہا:

“ان کا چہرہ نورانی تھا، ان کی آنکھیں ان کی لمبی پلکوں کے نیچے چمکتی تھیں، وہ گہری سیاہ تھیں، ان کی آواز میں نرمی تھی، وہ درمیانے قد کے تھے – (یعنی چھوٹے قد کے نہیں تھے) – نہ بہت زیادہ لمبے تھے، ان کا کلام ایسا تھا جیسے کسی لڑی میں موتی پرو دئیے گئے ہوں، بات کرنے کے بعد جب خاموش ہوتے تھے تو ان پر باوقار سنجیدگی ہوتی تھی – 

اپنے ساتھیوں کو کسی بات کا حکم دیتے تھے تو وہ جلد از جلد اس کو پورا کرتے تھے، وہ انہیں کسی بات سے روکتے تھے تو فوراً رک جاتے تھے – وہ انتہائی خوش اخلاق تھے، ان کی گردن سے نور کی کرنیں پھوٹتی تھیں، ان کے دونوں ابرو ملے ہوئے تھے – بال نہایت سیاہ تھے – وہ دور سے دیکھنے پر نہایت شاندار اور قریب سے دیکھنے پر نہایت حسین و جمیل لگتے تھے – ان کی طرف نظر پڑتی تو پھر دوسری طرف ہٹ نہیں سکتی تھی۔ اپنے ساتھیوں میں وہ سب سے زیادہ حسین و جمیل اور بارعب تھے – سب سے زیادہ بلند مرتبہ تھے -“

حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کا بیان کردہ حلیہ سن کر ان کے شوہر بولے: “اللہ کی قسم! یہ حلیہ اور صفات تو انہی قریشی بزرگ کی ہے، اگر میں اس وقت یہاں ہوتا تو ضرور ان کی پیروی اختیار کرلیتا اور میں اب اس کی کوشش کروں گا -“

چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ حضرت اُمّ معبد اور حضرت ابومعبد رضی اللہ عنہما ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تھے اور انہوں نے اسلام قبول کیا تھا – حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کی جس بکری کا دودھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوہا تھا، وہ بکری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے تک زندہ رہی –

حضرت اُمّ معبد

حضرت اُمّ معبد

حضرت اُمّ معبد

Leave a Comment