حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ  کا اسلام

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ  کا اسلام

سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفا کے دامن میں تشریف فرما تھے۔ ابو جہل وہاں پہنچا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے لگا اور بد زبانی کرنے لگا۔سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم بہت صبر اور تحمل سے سنتے رہے۔ بد بخت ابو جہل کے منہ میں جو آیا بکتا گیا اور اس بار تو اس نے حد کر دی اور آقاﷺ پر ڈنڈے سے حملہ کر دیا ۔ 

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ  کا اسلام

ایک روایت میں تو یہ بھی ہے کہ بد بخت ابو جہل نے پتھر پھینک ماراجو سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو لگا اور خون بہنے لگا۔ جب ابو جہل نے خون بہتا دیکھا تو بکتا جھکتا ہوا خانہ کعبہ کے پاس چوپال میں جا بیٹھا۔ جہاں دوسرے سردار بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے جانے کے بعد کچھ دیر تک سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم وہاں رکے اور پھر اپنے گھر چلے گئے۔ قریب ہی عبداللہ بن جدعان کا گھر تھا اور اس کی لونڈی یہ سب دیکھ اور سن رہی تھی۔

      حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شکار پر گئے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد آپ رضی اللہ عنہ اپنا شکار اور تیر کمان لئے ہوئے ادھر سے گزرے تو عبداللہ بن جدعان کی لونڈی نے کہا:’’ آج تو بہت برا ہوا۔ کیا آپ لوگوں نے اپنے بھتیجے کو تنہا چھور دیا ہے؟‘‘ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا:’’ کیا ہوا؟ ‘‘ اُس نے تمام واقعہ تفصیل سے بیان کر دیا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پیارے بھتیجے صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ محبت تھی۔

 تمام واقعہ سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غصہ سے بے قابو ہو گئے اور اپنے شکار کو وہیں پھینکا اور سیدھے چوپال میں پہنچے۔ ابو جہل وہاں بیٹھا اپنی بڑائی ہانک رہا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پہنچتے ہی اپنی کمان ابو جہل کے سر پر دے ماری۔ اس کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا۔

آپ رضی اللہ عنہ نے جلا ل بھر ی آواز میں کہا:’’ تُو میرے بھتیجے کے ساتھ بد تمیزی کرتا ہے اور اُ س پر حملہ کرتا ہے، میں کہتا ہوں۔ میں بھی اُ س کے دین پر ہوں، اب بول کیا کرے گا؟ لوگ ابو جہل کی مدد کے لیے کھڑے ہوئے تو ابو جہل نے کہا:’’رُک جائوغلطی میری ہی تھی، میں نے آج ان کے بھتیجے کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔

لوگ اس واقعہ کا ایک پہلو بیان کرتے ہیں جہاں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ  کی حمیت اور غیرت و شجاعت و بہادری نظر آتی ہے۔۔ میں اسے کسی اور نظر سے دیکھتا ہوں۔۔ 

جب فرعون کے کہنے پر حضرت موسی علیہ السلام  اور جادوگروں  میں مقابلہ ہوا تو جادوگروں نے صرف حضرت موسی علیہ السلام  کی تکریم کرتے ہوئے مقابلہ شروع کرنے سے قبل ان سے عزت سے پو چھا کہ “آپ پہلے مقابلہ شروع کرتے ہیں یا ہم شروع کریں” اللہ کو اپنے نبی سے عزت اور ان کو مدمقابل جادوگروں کا عزت دینا اتنا پسند آیا کہ ان تمام جادوگروں کو اسی محفل میں ایمان نصیب کر کے حضرت موسی علیہ السلام  کے صحابہ کا درجہ عطا کر دیا۔۔ 

بس یہ جو غیرت حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ  کو نبی کریمﷺکی تکلیف پر آئی اسے آسمان میں اللہ کریم نے پسند کر لیا۔۔ اور اس شام سورج  ڈھلنے سے پہلے حضرت حمزہ صحابی کے درجہ پر فائز ہو چکے تھے۔۔ 

یہ ایک تکوینی بات ہے۔۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ  مکہ کے ماحول میں جو ہو رہا تھا ۔۔ اس سے لاتعلق رہتے تھے۔۔ اور لطف و شکار و تجارت میں مشغول تھے۔۔ کسی بہادر کو متوجہ کرنے کا طریقہ اس کی غیرت کو للکارنا ہوتا ہے۔۔ جیسا حضرت عمر کے ساتھ بھی ہوا۔۔۔

نبی کریمﷺ سے وفاداری اللہ کی رضا کا باعث ہے۔۔ اللہ کے پاس گنہگار کی بخشش ہے نبی کریمﷺ سےغداری کی نہیں۔۔جسے نبی کریمﷺکے نام پاک کی گستاخی پر غیرت نہیں آتی خدا کو اس کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 

سلیم زمان خان 

مارچ 2024

Leave a Comment