قریش مکہ کی بد حواسیاں
Table of Contents
آقا ﷺ کے پیغام حق پہ لبیک کہنے والے صرف مکہ کے پسے ہوئے مسکین اور غلام ہی نہ تھے،بلکہ قریش مکہ کے تقریباً سبھی قبیلوں کے سلیم الفطرت اور سچے کھرے لوگ بھی تھے۔زیادہ تر ان کا تعلق نوجوانوں یا کم بوڑھوں سے تھا۔
آقا ﷺ کے سب سے متکبر دشمن ابو سفیان بن حرب کی بیٹی ام حبیبہ ؓ اور اس کا خاوند بھی مسلمان ہو چکا تھا۔مشرکوں میں سب سے معزز بنا ہوا اسی قبیلے کا عتبہ بن ربیعہ بھی پریشان تھا کیونکہ اس کا بیٹا ابو حذیفہ ؓ اور اس کی بیوی سہلہ ؓ بھی مسلمان ہو چکی تھی۔سہلہ ؓ اسلام کے ایک اور بد ترین دشمن سہیل بن عمرو کی بیٹی تھی۔
اسی قبیلے کی بنی امیہ کی مغرور شاخ سے عثمان ؓ بن عفان،خالد بن سعید بن العاص ؓ بھی مسلمان ہو چکے تھے۔عاص بن سعید،خالد کا باپ آقا ﷺ کا پڑوسی بھی تھا اور انتہائی برا پڑوسی تھا۔بنو عدی سے سعید ؓ بن زید (عمر بن طاب کے بہنوئی)، فاطمہ بنت خطاب (عمر بن خطاب کی ہمشیرہ) زید ؓ بن الخطاب (عمر بن خطاب کا بھائی)،عامر ؓ بن ربیعہ،لیلی ؓ بنت ابی حشمہ اور بہت سے دوسرے مرد و زن آقا ﷺ کے پیغام کی حقانیت پہ ایمان لے آئے تھے
۔بنی تیم سے سیدنا ابو بکر ؓ کا پورا خاندان،اسماء ؓعائشہ ؓ اور ام رومان ؓ کلمہ گو تھے۔طلحہ ؓ بن عبداللّٰہ،صبعہ ؓ بنت حضرمی،حارث ؓ بن خالد کے علاوہ بنی تیم کے ہی خلیف حسیب ؓ بن سنان رومی بھی ایمان والوں میں سے تھے۔
آقا ﷺ کے ننھیال بنو زہرہ سے عبدالرحمن بن عوف ؓ،شفا بنت عوف ؓ،سعد بن ابی وقاص ؓ،عمیر بن ابی وقاص ؓعامر بن ابی وقاص ؓ، مطلب بن ازھر ؓ،رملہ بن ابی عوف ؓ،طیب بن ازہر ؓ اور عبداللّٰہ بن سیاب ؓ بھی آقا ﷺ کے پیروکار ہو چکے تھے۔
اسی خاندان کے حلیفوں میں سے عبداللّٰہ بن مسعود ؓ، عتبہ بن مسعود ؓ،مقداد بن عمرو الکندی ؓ،خباب بن الارت ؓ ،شرجیل بن حسنہ ؓ،جابر بن حسنہ ؓ، اور جنادہ بن حسنہ ؓ بھی تھے۔قریش کے علم بردار قبیلے سے قریش کا سب سے حسین خوبرو نوجوان مصعب ؓ بن عمیر بھی آقا ﷺ کے پیغام کی سچائی کو ماننے والوں میں سے تھا۔اسی قبیلے کے ابو الروم بن عمیر ؓ،فراس بن النضر ؓاور جہم بن قیس ؓ بھی مسلمان ہو چکے تھے
۔بنی جمح کے درویش صفت عثمان بن مظعون ؓ اور عبداللّٰہ بن مظعون ؓ بھی آقا ﷺ کے در رسالت پہ جھکے بیٹھے تھے،سائب ؓبن عثمان بن مظعون بھی انہی کی اولاد تھے۔معمر بن حارث بن معمر ؓ،خاطب بن حارث ؓ فاطمہ ؓ بن طلل،فکہیہ ؓ بن معمر اور فہبہ ؓ بن عثمان کا تعلق بھی بنی جمح سے ہی تھا۔
ان کا اٹھنا بیٹھنا،چلنا پھرنا سب آقا ﷺ کے بتائے ہوئے خدائی احکامات کے طریقے پہ تھا۔بنی سہم کے عبداللّٰہ بن خزافہ ؓ،خنیس بن خزافہ ؓ(ام حبیبہ کے پہلے شوہر)ہشام بن عاص ؓ جو قریش کے رئیس اسلام کے دشمن عاص بن وائل کا بیٹا تھا،وہ بھی مسلمان تھا۔
اسی خاندان کے حارث کے سبھی بیٹے مسلمان ہو چکے تھے۔
بشیر،معمر،ابو قیس،عبداللّٰہ،سائب،حجاج،بشیر اور سعید بن حارث،بنو سہم کے ہی کچھ مسکین حلیف بھی آقا ﷺ کے بتائے کلمہ کو پڑھنے والے تھے۔جن میں عمیر بن رباب ؓا ور محیصہ بن الجزاء ؓ بھی تھے۔بنی عمار بنی لؤی قبیلے سے بھی ابو صبرہ ؓ بن ابی رہم،سہیل بن عمرو کی بیٹی ام کلثوم ؓ،سہیل بن عمرو ہی کا بیٹا عبداللّٰہ ؓ بن سہیل بن عمرو کے علاوہ حاطب ؓ بن عمر۔سلیط ؓ بن عمرو، سکران ؓ بن عمرو،تعیظ ؓ بن علقہ،مالک ؓ بن ترمعہ اور عبداللّٰہ ؓ بن ام مکتوم بھی تھا۔
بنی فہر بن مالک سے ابو عبیدہ ؓ بن الجراح،سہیل ؓ بن بیضا،سعد ؓ بن قیس،عمرو ؓ بن حارث بن زبیر،عثمان ؓ بن عبد غنم بن زبیر،حارث ؓ بن سعید اور طیب ؓ بن عمیر تھے۔
آقا ﷺ کے سب سے بدزبان شرارتی اور بدطینت سردار ابو جہل (عمرو بن ہشام) کے خاندان کے بنی مخزوم سے بھی کئی مرد اور عورتیں اسلام کی حقانیت پہ ایمان چکی تھیں۔
ان میں ابو سلمہ ؓ،ام سلمہ ؓ،ارقم بن ابی ارقم ؓ، عیاش بن ابی ربیعہ ؓ،اسما ؓ بنت سلامہ،ولید بن ولید ؓ بن مغیرہ (خالد بن ولید کا بھائی) ہشام بن ابی حزیفہ ؓ،سلمہ بن ہشام ؓ،ہاشم بن حزیفہ ؓ،ہبار بن سفیان ؓ اور عبداللّٰہ بن سفیان ؓشامل تھے۔اسی قبیلے کے مسکین حلیفوں میں عمار ؓ بن یاسر،یاسر ؓ، عبداللّٰہ بن یاسر کے علاوہ عمار کی والدہ اور یاسر کی بیوی سیدہ سمیہ ؓ جو اس قبیلے کی لونڈی تھی اور جنہیں انتہائی عزاب اور سختیاں دے کر ابو جہل نے عین کعبہ کے سامنے نیزہ مار کے شہید کر دیا تھا۔
ان سب حقیقتوں کا قریش مکہ کے رؤسا کو ادراک تھا۔
اسی خوف سے قریش مکہ کے سرکردہ مغرور رئیس کسی پل بھی چین سے نہ بیٹھتے تھے۔انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ آقا ﷺ کا پیغام کوئی انہونا حسین حقانیت بھرا جادو ہے جس کے آگے ان کے اپنے بیٹے اور بیٹیاں ایک ایک کر کے لبیک کہتے جا رہے ہیں۔
قریش مکہ کے سب رئیس سر جوڑ کے بیٹھے کہ کیا کرنا چاہیے۔
آقا ﷺ کا تعلق قریش مکہ کے ایک معزز ترین قبیلے بنو ہاشم سے تھا۔
بنو عبدالمطلب اور بنو مطلب دونوں سیدنا ابو طالب کے ایک اشارے پہ کٹنے مرنے کے لیے تیار تھے۔قریش مکہ کے کئی رئیس یا رئیس زادے میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ سردار ابو طالب کے ہوتے ہوئے قبیلے کے سب سے بہترین چاند،صادق اور الامین آقا ﷺ ابن عبداللّٰہ کے حضور کوئی گستاخی کر سکے،انہیں منع کر سکے۔
آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ جا کر سردار ابو طالب سے گزارش کرنی چاہیے،ابو سفیان،ابو جہل،ولید بن مغیرہ، عاص بن سعید،عتبہ بن ابی معیط،امیہ بن خلف سب اسلام کے دشمن ایک وفد بنا کر سیّدنا ابو طالب کے پاس پہنچ گئے۔بولے،سردار،ہم سب اہل قریش آپ کو سردار مانتے ہیں
،اپ کے حلم،تدبر اور آپ کی شرافت کے قائل ہیں۔ہماری ایک التجا سن لیں۔پھر انہوں نے سیّدنا ابو طالب سے ایک شکایت کی کہ آپ کا بھتیجہ ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہتا ہے،غلاموں کو ہماری برابری کا درس دیتا ہے۔ہم سب لوگوں کو تقسیم کر رہا ہے،اسے سمجھائیں۔سیّدنا ابو طالب نے ان سب کی بات غور سے سنی اور خرد مند با امن طریقے سے انہیں سمجھا کے لوٹا دیا۔
آقا ﷺ کا پیغام پھیلتا رہا۔