آخری ادھار
Table of Contents
وہ بڑلجاحت سے کہہ رہا تھا:”بھائی! مجھےاخری بارادھار دےدو!”رحیموکاکا نے دوٹوک انداز میں جواب دیا:”تمھاراتین مہینےکا حساب باقی ہے-جب تک وہ ادا نہیں ہوتا،میں تمھیں مزید ادھارنہیں دےسکتا”-وہ تقریبارودینےکےقریب تھا-بھرائی ہوئی آواز میں بولا:”آج کے بعدتم کبھی مجھےادھار مانگتے ہوئے نہیں دیکھوگے-بس آخری بار-“رحیموکاکا نےہاتھ اتھایااوربولا:” بس ایک بار کہہ دیاتوکہہ دیا-“
اس کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگےتھے-کہنے لگا:”اچھابھائی تمہاری مرضی-آج تیسرےدن بھی بھوکے رہ لیں گے-“اس کے لہجےمیں اتنادردتھا کہ رحیموکاکاکےدل کوکچھ ہوا-وہ فوراہی بول پڑا:”اچھاٹھرو-میں کچھ کرتاہوں،مگریہ آخری بارہوگا-اس نےجواباسکرگزاری کے اظہار کے طور پر دونوں ہاتھ جوڑدیے-رحیموکاکا اسےسود اسلف لےکرجاتے ہوئے دیکھتارہا-
عبدالرحیم کی شہر میں ایک چھوٹی سی کریانہ کی دوکان تھی-اسےسب رحیموکاکا کہہ کربلاتےتھے-اس کےزیادہ تر گاہک سامان ادھار لیتےتھےاور مہینے کے شروع پچھلے مہینے کا حساب برابرکرلیتےتھے-اکثرتو کئی کئی مہینے رقم ادانہ کرپاتے- وہ بھی ان میں سے ایک تھا-دریاپوری طرح بپھرا ہواتھا-زندگی میں کوئی امید باقی نہ رہی تھی،اس لیے وہ دریا کے پر آیاتھا-
اس پل پردوردور تک کوئی نہیں تھا،لیکن نہیں، کچھ فاصلے پرکوئی تھا-کچھ سوچ کروہ اس کی طرف بڑھا-وہ ایک نوجوان تھا،جس کی ایک ٹانگ دریا کے پل کے نیچے لٹک رہی تھی-جس کی ایک ٹانگ نیچے لٹک رہی تھی-اس نے تیزی سےبڑھ کر نوجوان کوجکڑلیا-وہ نوجوان چلایا:”مجھےمت روکو،ایسی زندگی کاکیافائدہ!”وہ لڑکے کومضبوطی سےتھامتے ہوئے بولا:”نہیں بھائی!ایسانہ کریں-آپ نوجوان ہیں-زندگی بہت قیمتی چیزہے-
“نوجوان نےپوچھا:”اگر زندگی قیمتی چیزہےتو رات کےوقت تم یہاں کیاکررہےہو؟”وہ منھ ہی منھ میں بڑبڑایا “میں……یہ مت پوچھیں-“نوجوان نےکہا:”کیوں نہ پوچھوں؟تم نےمجھے روک کر اچھانہیں کیا-“وہ نوجوان کوپل کی ریلنگ سے دور کھینچتے ہوئےبولا:”اچھا ادھر آئیں-میں آپ کو ساری بات بتاتاہون-“نوجوان اس کےساتھ کھنچاچلا آیا-نوجوان کی کارایک طرف کھڑی تھی-وہ دونوں کارمیں بیٹھ گئےتواس نے نوجوان سے کہا:”میں تعلیم یافتہ انسان ہوں، مگرمیری تعلیم کی قدرکسی نے نہیں کی-بس چھوٹی موتی نوکریاں کرکےاپنااوراپنےبچوں کاپیت پالتاہوں-پچھلے مہینے سےبےروزگارہوں-آج میں نےاپنے مھلےکےدکانداررحیمو کاکا سے آخری بارادھارمانگاتھا،جواس نےبڑی مشکل سےدیا-“
نوجوان نے حیرت سےپوچھا:”آخری بارادھارمانگا تھا،جواس نےبڑی مشکل سےدیا-“نوجوان نے حیرت سےپوچھا:” آخری ادھار…..کیامطلب؟کیاآج کےبعد تم کبھی ادھارنہیں مانگوگے؟”
نوجوان کی حیرت کومحسوس کرکےوہ مسکرایا:”مطلب میں بعد میں سمجھاوں گا-” وہ نوجوان اسےاپنےگھرلےگیا-نوجوان اسےاپنےگھرلےگیاتھا-نوجوان نےاسے بتایا:”میرااس دنیامیں کوئی نہیں ہے.میرے والدکاابھی حال ہی میں انتقال ہواہوگیا-والدہ بھی نہیں تھیں.میں اکیلااورناتجربہ کار تھا،اس لیے رشتےداروں اوردوسرےلوگوں نےمجھےاتنا تھاکہ مجھےاپنی زندگی بےکارلگنےلگی تھی-والدکی جائداد اور رقم میرےنام ہے،لیکن رستےدارمیری ساری دولت چھین لیناچاہتےتھے،
اسی لیے میں دریاپرگیاتھا،تاکہ دنیاوالوں سےجان چھڑاسکوں اس وقت میں زندگی سے مایوس تھاکہ اس دوران تم نے مجھے بچالیا-“اس نےبھی نوجوان کواپنی کہانی سنائی:”میں نے اپنی زندگی کااخری ادھارلیاتھا-میں نے سوچارتھاکہ جب میں ہی نہیں رہوں گاتوادھاربھی نہیں لیناپڑےگا-میں نے آخری بارگھر گھرکاسوداسلف اپنی بیوی اوربچوں کے ھوالےکیااورخود دریامیں کودنےکےلیےآگیاتھا، مجھے احساس ہے کہ میرایہ عمل نامناسب تھا-“نوجوان کانام کاشف تھا-اس کےوالدکی ایک بڑی فیکٹری تھی
-اب خاشف اس کامالک تھا-کاشف نےاسےاپنےساتھ کام کرنے کی دعوت دی تھی-وہ چونکہ تعلیم یافتہ تھا،اس لیےاس نے تین مہینےمیں کاشف کےکاروبار کواتنی اچھی طرح سے سنبھالا تھا کہ اب وہ کاشف کی فیکٹری کاجنرل منیجرتھا-کاشف اس پہ بھروساکرتاتھا-وہ دونوں ایک دوسرےکی مددسےمایوسی اور ناامیدی کی زندگی سے باہرنکل آئے تھےاور…..رحیموکاکا نے آج اسےتین مہینےکےبعددیکھاتھا-دیکھتے ہی طنز کیا:”کیوں پھرآخری بارادھارلینے آئے ہو؟”وہ بڑے آرام سے بولا:نہیں رحیموکاکا!اخری بار کا مطلب آخری بارہی ہوتا ہے-میں ادھارمانگنے نہیں آیا-“
رحیموکاکا نے تیکھالہجہ اختیار کیا:”توکیاتین مہینے کاحساب چکتاکرنے آئے ہو؟”وہ اطمینان سے بولا:ایساہی ہے-میں آج تمھاراساراقرض اتارنے آیا ہوں مجھےبتاوتمہاری کتنی رقم بنتی ہے؟”رھیموکاکافورا ہی حساب جوڑنے لگ گیا-وہ رحیموکاکا کی طرف دیکھتےہوئے کسی اور ہی جہاں میں کھوگیا-
رحیموکاکا کی آواز اسے حال میں واپس لے آئی:”ارے میاں!کہاں کھوگئے؟اتنی دیر سے آوازیں دے رہاہوں-بس رحیموکاکا!ایسے ہی آخری ادھار کےبارے میں سوچ رہاتھا- آج آپ کے سارے پیسے دے کر میں اخری ادھارچکادوں گااور اللہ سے مجھے بڑی امید ہےکہ وہ مجھے آیندہ اس آزمائش میں نہیں ڈالےگا