Freedom from Antichrist and Satanic Civilization

دجالی و شیطانی تہذیب (Antichrist and Satanic Civilization)

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

صلی اللہ علیہ وسلم

Antichrist and Satanic Civilization

دجالی و شیطانی تہذیب (Antichrist and Satanic Civilization)

صبغة الله و من أحسن من الله صبغه . ( البقرة 138 )

ہم نے قبول کر لیا رنگ اللہ کا اور کس کا رنگ بہتر ہے اللہ کے رنگ سے ۔

کہتے ہیں موجودہ دور میں کسی کو اپنا غلام بنانا ہو تو اس کو جسمانی غلام بنانے سے کہیں بہتر ہے ذہنی غلام بنانا ۔ کیونکہ جسمانی غلام بنانے کا دور تو گیا کیونکہ اس میں جسمانی طور پر تو انسان کو مجبور کیا جا سکتا ہے اپنے احکام بجا لانے کیلئے لیکن ذہنی اور فکری طور پر نہیں اور ۔ کیونکہ ایسی غلامی وہ کبھی بھی نہ تو ذہنی طور پر قبول ہوتی ہے اور نہ ہی فکری معاشرتی ۔

 سماجی یا معاشی طور پر قابل قبول ہوتی ہے اور ایسی غلامی بغاوت کے لاوے کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے جو موقع ملنے کیساتھ ہی مانند اتش فشان پھٹتی ہے اور آقاوں سمیت پورے کے پورے معاشرے کو تنکے کیطرح بہا کر لے جاتی ہے ۔ لیکن ذہنی غلام بنانے کیلئے ضرورت ہوتی دل اور دماغ پر چھاپ چھوڑنے کی ۔ اپنی ثقافت اپنے رسم و رواج اور اپنے طور طریقوں کا عادی بنانے اور مرعوب کرنے کی ۔ اور اس کے تمام وسائل قابو کر کے بروئے کار لانے پڑتے ہیں مادی اور روحانی ۔

دجالی اور شیطانی طاقتوں نے بھی جب اس دنیا کو اپنا غلام بنانے کی سوچی تو سب سے پہلے دنیا کے تمام مادی وسائل کو مختلف طریقوں سے قابو میں کیا اور اپنی ان حیوانیت کی سطح سے بھی نیچے گری ہوئی باتوں کو منوانے کیلیے کبھی تو جنگوں کا سہارا لیا اور کبھی ذرائع ابلاغ یعنی میڈیا اور کبھی گمراہ کن تعلیم کا ۔

 اور کبھی مادیت پرستی کا اور کبھی ایسی این جی اوز اور تنظیمیں جن کو انسانی حقوق کا نعرہ اور فنڈنگ کر کے ۔اور اس معاشرتی بگاڑ میں سب سے زیادہ مہلک بگاڑ اس تعلیم اور ذرائع ابلاغ نے ادا کیا ۔ اس تعلیم اور میڈیا کا وار اتنا مہلک ٹھہرا کہ روشن خیالی اور جدت پرستی کے نام پر انسانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت اپنے رب کی ہی منکر ہو گئی ۔ اور الحاد ۔ ارتداد ۔ جیسی بیماریوں نے جنم لیا ۔ 

اسکے ساتھ ہر وہ بیماری جیسے کے بے حیائی ۔ فحاشی ۔ ہم جنس پرستی ۔ سود ۔ ماں باپ سے لا تعلقی ۔ اور اسی طرح اولاد کا ماں باپ سے جدا ہونا ۔ جوا ہر قسم کا ۔ ہر قسم کا نشہ ۔ جن کا خصوصا مسلم معاشروں میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا عام ہو گئیں یا کر دی گئیں ۔

پوری دنیا اور بالخصوص مسلم معاشروں کے اس بگاڑ میں ہمارے معاشرے کے منافقین نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے ڈالروں کی چمک دمک کے بدلے مغربی تعلیم کو اپنے نصاب اور میڈیا کو ہر قسم کا اختیار دے کر خوب بے راہ روی پھیلائی گئی ۔ اور انگلش میڈیم سکولوں سے لیکر کالجز اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبا آج رب کے وجود کے ہونے نہ ہونے پر سوال اٹھا رہے ہیں ۔ 

کبھی کسی اسلامی کتاب میں پڑھا تھا کے اس قسم کے اداروں میں اسلامی شعائر کا کھل کر مذاق اڑایا جاتا ہے اور اللہ کے وجود کے ہونے اور نہ ہونے پر سوالیہ نشانات لگائے جاتے ہیں ۔ اور وہ تعلیم جس سے مستفید ہونے کے بعد اس ملک یا قوم کیلئے جنہوں نے ترقیاتی کردار ادا کرنا تھا آج وہی ترقی کر گئے الحاد اور ارتداد میں اور ترقی چلی گئی کسی بھاڑ میں ۔

اور یہ اس پڑھائی کے ہی اثرات ہیں کہ انسانیت کا نعرہ لگانے والے یہ ہونہاران وطن اندر سے کس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ کوئی انکے سامنے بے بسی کی موت ہی کیوں نہ مر رہا ہو چاہے دجالی مغربی طاقتوں کے ہاتھوں مرنے والے انکے اپنے مسلمان ہی کیوں نہ ہوں لیکن یہ اسکو بھی اسی طاغوتی نظروں سے ہی دیکھتے ہیں جو انکو مغربی تعلیم نے سجھائی ہے ۔

دجالی و شیطانی تہذیب (Antichrist and Satanic Civilization) میں میڈیا کا کردار

میڈیا نام ہے ذرائع ابلاغ کا چاہے وہ الیکٹرونک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا یا پھر زبانی میڈیا ۔

دجالی قوتوں کا یہ ہتھیار جب سے یہ قوتیں حرکت میں آئی ہیں ڈالروں کی چمک دمک دکھا کر سچ کو جھوٹ اور حق کو باطل بنا کر پیش کرنا انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ کہتے ہیں کہ پہلے وقتوں میں یہ کام بادشاہوں کے خاص لوگ لوگوں کو رب سے ڈرانے کی بجائے بادشاہ سے ڈرانے کیلئے کیا کرتے تھے ۔ وہ بادشاہ کی بات کو گلی گلی اور قریہ قریہ پہنچاتے تھے ۔ کہ ایک تھا بادشاہ تیرا میرا اللہ بادشاہ ۔ اور اگے خبر شروع ہو جاتی تھی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ میں اسلام نافذ کر کے اور جہاں سارے غلط چلن ختم کیئے وہاں خبر رسانی کا کام درست کیا ۔ مسجد نبوی کے ممبر سے تمام احکامات جاری ہوتے تھے ۔ تمام مسلمان کوئی بات بغیر تصدیق کے آگے بیان نہیں کرتے تھے ۔ اسی سے ایک معاشرہ قائم ہوا تھا خطیب مساجد میں اللہ کی کبریائی جو سب سے بڑی خبر ہے کیساتھ

دوسروں کے اخلاق سدھارنے اور ایک مضبوط مسلم معاشرے کی اصلاح کیلئے بھی کردار ادا کیا کرتے سارا مسلم معاشرہ ایک مسلم قومیت میں زعم ہو گیا تھا ۔

خلافت راشدہ تک یہی سلسلہ قائم رہا ۔ لیکن جیسے ہی ملوکیت نے ڈیرے جمائے آہستہ آہستہ قومی خزانے کیساتھ خبر رسانی کا اداراہ بھی حکمرانوں کی ذاتی ملکیت میں چلا گیا ۔

 خلافت عام مسلمانوں کی رائے کی بجائے حکمرانوں کے خاندانوں میں قائم ہونے لگی ۔ مسجد جو میڈیا کا سب سے بڑا ذریعہ تھی حکمرانوں کے کنٹرول میں چلا گیا ۔ وفاداری اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حکمرانوں کیساتھ وابستہ ہو گئیں ۔ بات وہی سچ مانی گئی جو حکمرانوں نے کہی ۔ جس نے سچ بیان کرنے کی کوشش کی ان کے گلے کاٹے گئے یا زندان میں ڈالے گئے ۔

اور آج جب میڈیا اتنا ایڈوانس ہو چکا ہے ۔ کہ اس کےفاصلے سمٹتے سمٹتے یہاں تک آ چکے ہیں ۔ کہ ٹی وی اور موبائل فون جیسے آلوں سے بندہ اس قابل ہو گیا کہ اپنی بات لمحوں میں دنیا کے کونے کونے تک پہنچا سکے تو ان سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب دجالی قوتوں نے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے شروع کر دئیے ۔

 ہمارے نام نہاد حکمران جن ملکوں سے امداد کی شکل میں جو پیسہ کھاتےہیں تو بدلے میں وہ اپنی شیطانی تہذیب بھی مسلط کرتے ہین اور اس بات کیلئے میڈیا سب سے اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ یہی میڈیا کبھی فلمی اداکاروں کو ہیرو بنا کر پیش کر رہا ہے تو کبھی انکی زندگیوں پر ڈوکومینٹری بنا رہا ہے ۔ 

اور کبھی مرے ہوئے اداکاروں اور گلوکاروں کو خراج تحسین پیش کر رہا ہے ۔ کبھی کرکٹروں کو ملک و قوم کے رہنما اور انکے اللے تللوں کو قوم کی میراث بنایا جا رہا ہے ۔ تو کبھی بے ہودہ موسیقی کے شور و غل کو مسلسل ٹی وی پر چلا کر اور عورتوں کے ڈانس دکھا کر ملک و قوم کی ثقافت کا درجہ دیا جا رہا ہے ۔

 دین کے خلاف کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے ہوئے اسلامی قدروں کو آہستہ آہستہ ختم کیا جا رہا ہے ۔ اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے یہی میڈیا مختلف اقسام کے ڈیز کو منوانے کیلیے پوری طرح اپنا مکروہ کردار ادا کر رہا ہے ۔ کبھی ویلنٹائن ڈے تو کبھی فادر ڈے اور کبھی مدر ڈے کبھی لیبر ڈے کبھی کوئی ڈے تو کبھی کوئی ڈے اور المیہ تو یہ ہے کہ جن کے کیلئے یہ ڈے منائے جاتے ہیں انکے حقوق کیلئے آج تک کوئی عملی کام نہیں کیا گیا۔

دجالی و شیطانی تہذیب (Antichrist and Satanic Civilization)میں بے حیائی کا فروغ

جن مغرربی اداروں کی سر پرستی میں یہ سب کام کیئے جا رہے ہیں ان میں بے حیائی سر فہرست ہے ۔ عورت جسے اسلام ماں ۔ بہن ۔ بیٹی ۔ اور بیوی جیسے مقدس رشتوں میں استوار کرتا ہے مغرب کی دجالی اور شیطانی تہذیب میں اسی عورت کے کردار کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اسے نہ صرف شمع محفل کے طور پر نیم عریاں کر کے پیش کیا جاتا ہے ۔ بلکہ سرمایہ داروں کا کوئی ایسا پروڈکٹ نہیں بکتا جب تک وہ عورت کا حسین و جمیل چہرہ پیش نہ کریں ۔ نائٹ کلبوں میں یہی عورتیں مادرزاد برہنہ ہو کر بیلے ڈانس کرتی پھرتی ہیں ۔  

قوم لوط جسے ہم جنس پرستی کہا جاتا ہے عام ہو کر رہ گئی پے ۔ بلکہ اسکو آئین کا حصہ بنا دیا گیا ہے ۔ اور اس میں ترقی یہ ہوئی ہے کہ قوم لوط تو صرف مساق یا امساق نامی مرض کا شکار ہوئی تھی اور آج کے دور میں عورت عورت کیساتھ جنسی تعلق قائم کرتی ہھرتی ہے یہ اضافی شیطانی ترقی ہے جو آج کے دور میں سامنے آئی ہے اور ہمارے یہاں امریکہ کے سفارت خانے میں ہم جنسوں کا اجتماع پاکستانی معاشرے لیئے لمحہ فکریہ ہے ۔

امریکہ و یورپ میں ایک ہی پانی کے عوض دو ٹکڑے کپڑوں میں فیملی کے تمام افراد ایک دوسرے کے سامنے نہاتے ہیں ۔ جس سے بے حیائی پھیلتی ہے ۔ عورت کو سیکس ورکر کا کارڈ جاری کر دیا جانا جسم فروشی کی لعنت کو قانونی طور پر نافذ کرنا مغرب کی سیکس سوسائٹی بن چکا ہے بیٹی باپ اور بھائیوں کے سامنے کہتی ہے کہ میں اپنے بوائے فرینڈ کیساتھ جا رہی ہوں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ 

ماں باپ کا سترہ سال کی عمر کے بعد اولاد کے اخراجات سے دستبردار ہونا اور اولاد کا خصوصا لڑکیوں کا کہیں بھی جانا اور کسی کیساتھ رہنا اور اپنے اخراجات کیلئے کچھ بھی کرنا روشن خیالی کہلاتا ہے چاہے اس کیلئے اسے اپنی عزت کی بار بار دھجیاں ہی کیوں نہ اڑوانی پڑیں ۔

 لوگوں کے ازدواجی تعلقات کا حال یہ ہے کہ مرد سارے دن کا تھکا کام سے واپس آتا ہے تو اگے سے بیوی کی طرف سے نوٹس ملتا ہے میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی کل فیصلے کیلئے کورٹ میں آ جانا ۔ ایک سروے کے مطابق صرف امریکہ میں چالیس فیصد حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں جبکہ صدر کلنٹن کے سابقہ بیان کے مطابق امریکہ میں پیدا ہونے والے 90 فیصد سے زیادہ بچے باسٹرڈ یعنی حرامی ہیں ۔

اور یہی خدا بیزاری بے دینی دجالی اور شیطانی تہذیب کو پوری اسلامی دنیا بلکہ بالخصوص پاکستان میں بھی زبردستی رائج کیا جا رہا ہے جنسی تعلیم بھی نصاب میں خاموشی سے شامل کر دی گئی ہے اور میڈیا کے ذریعے ہونے والی اینٹی اسلامی وار اسی سیکولر و لبرل تہذیب کو آج کی انسانیت کیلئے رہنماء اور نجات دہندہ قرا دے رہی ہے

 خود سوچیں جب ہمارے بچے ٹی وی دیکھیں یا نیٹ استعمال کریں اور آگے سے ناچتی گاتی لڑکیوں کو دیکھیں اور قابل اعتراض مواد انکی نظروں سے گزرتا ہو تو انکی ذہنوں پر وہ کیا اثر چھوڑتا ہو گا اور سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کو جب مخلوط کر کے انہی علتوں کو قومی ثقافت اور ورثہ قرار دیا جائے گا تو کس قسم کا معاشرتی بگاڑ پیدا ہو گا کچھ ہو چکا اور کچھ ہو رہا ہے اورکچھ ہو جائے گا ۔

اسکا علاج جب تک ہم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کیمطابق نہیں کریں گے ۔ ہمیشہ اندھیرے میں رہیں گے ۔

مسلمانوں سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کیلیے دینی تعلیم اور اصلاحی تربیت کو لازم و ملزوم قرار دیں انکے نصاب اور معمولات پر کڑی نظر رکھتے ہوئے خود بھی اپنے اور انکے دلوں میں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور تقوی کو اجاگر کریں اور دینی شعائر اسلام کے نا صرف خود بھی پابند بنیں بلکہ انکو بھی بنائیں علماء سے بھی رابطے میں رہیں تاکہ دینی شعائر اور اونچ نیچ سے واقفیت ملتی رہے ۔ اور ہم اور ہماری نسلیں ان دجالی و شیطانی فتنوں سے بچی رہیں ۔

اللہ ہم سب کا خاتمہ بالایمان کرے اور دجال اس کے فتنوں سے اپنی پناہ میں رکھے اورموت کے وقت آسانیاں پیدا کرے اور قبر اور جہنم کے عذاب سے بچائے آمین ۔

و أخر الدعونا أن الحمد لله رب العالمين .

Antichrist and Satanic Civilization

Antichrist and Satanic Civilization

Antichrist and Satanic Civilization

Antichrist and Satanic Civilization

Antichrist and Satanic Civilization

Antichrist and Satanic Civilization

Antichrist and Satanic Civilization

Leave a Comment