رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن
ابن سعد کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ نے فرمایا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو میرے جسم سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محل روشن ہو گئے۔ امام احمد نے حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی مضمون کی ایک روایت نقل فرمائی ہے ۔ بیہقی کی روایت میں ہے کہ ولادت کے وقت بعض واقعات نبوت کے پیش خیمے کے طور پر ظہور پذیر ہوئے، یعنی ایوان کسریٰ کے14 کنگورے گرگئے، مجوس کا آتش کدہ ٹھنڈا ہوگیا، بحیرہ ٔ سادہ خشک ہوگیا اور اس کےگرجے منہدم ہوگئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بے سروسامانی میں آنکھ کھولی اور جس ماحول میں تربیت پائی، قرآن کریم کی آیت ’’الم یجدک یتیماً فاوٰی‘‘ اس پر شاہد ہے۔ پیدائش سے قبل ہی والد کی شفقت سے محروم ہو جانا اور چھ سال کی کم عمری میں بہ حالت سفر والدہ محترمہ کا فوت ہو جانا اور پھر آٹھ سال کی عمر میں شفیق دادا کا بھی انتقال کر جانا، لمحہ بہ لمحہ اسی طرح دنیاوی آسروں کی جدائی نے ایک نوزائیدہ قلب پر کیا اثرات چھوڑے، ان کا مطالعہ بصیرت افروز ہوگا۔
سیکڑوں یتیم بچے ماں باپ کے سائے سے محرومی کی بناء پر نامکمل تربیت پاتے ہیں اور ہزاروں ماں باپ کے بےجا لاڈپیار سے ہی خراب ہو جاتے ہیں۔ اچھی تربیت کے لئے ماں باپ کا وجود اس قدر اہم نہیں جس قدر خود بچے کی فطری ذکاوت اور سعادت اہم ہے۔ خارجی ماحول اپنے اثرات ڈالے بغیر نہیں رہ سکتے۔ لیکن یہ اثرات کیا رنگ پکڑتےہیں؟ اور ماحول کی کون سی تعبیر قبول کرتے ہیں، اس کا دارومدار بڑی حد تک بچے کی جبلّی فطرت پر ہوتا ہے یا اس رہبری پر جو انسانی فطرت کو لمحہ بہ لمحہ قدرت سے حاصل ہوتی رہتی ہے۔ آیتِ مبارکہ میں مادی پشت پناہی سے قطع نظر، تربیت کی اس رہبری کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جو رب کائنات نے اس دُرّیتیم کے متعلق اپنی ذات خاص سے وابستہ فرمائی۔
ولادت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ نے عبدالمطلب کے پاس پوتے کی خوشخبری بھجوائی۔ وہ شاداں و فرحاں تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ ٔ کعبہ میں لے جا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی، اس کا شکر ادا کیا اور آپ کا نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تجویز کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ نے تین دن تک دودھ پلایا۔ پھر چچا ابولہب نے اپنی لونڈی ثوبیہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلانے کے لئے بھیج دیا۔ ثوبیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی مہینے دودھ پلاتی رہی۔ دو سال قبل اسی ثوبیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہٗ کو بھی دودھ پلایا۔
عرب کے شہری باشندوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کو شہری امراض سے دور رکھنے کے لئے دودھ پلانے والی دیہاتی عورتوں کے حوالے کر دیا کرتے تھے تاکہ ان کے جسم طاقتور اور اعصاب مضبوط ہوں اور اپنے گہوارہ ہی سے خالص اور ٹھوس عربی زبان سیکھ لیں۔ اسی دستور کے مطابق عبدالمطلب نے دودھ پلانے والی دایہ تلاش کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کیا۔ یہ قبیلہ بنی سعد بن بکر کی ایک خاتون تھیں۔ ان کے شوہر کا نام حارث بن عبدالعزیٰ اور کنیت ابو کبشہ تھی اور وہ بھی قبیلہ بنی سعد ہی سے تعلق رکھتے تھے۔
رضاعت کے دوران حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات کے ایسے ایسے مناظر دیکھے کہ وہ سراپا حیرت زدہ رہ گئیں۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنا ایک چھوٹا سا دودھ پیتا بچہ لے کر بنی سعد کی کچھ عورتوں کے قافلے میں اپنے شہر سے باہر دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں نکلیں۔ یہ قحط سالی کے دن تھے اور قحط نے کچھ باقی نہ چھوڑا تھا۔ میں اپنی ایک سفید گدھی پر سوار تھی اور ہمارے پاس ایک اونٹنی بھی تھی لیکن بخدا اس سے ایک قطرہ دودھ نہ نکلتا تھا۔
ادھر بھوک سے بچہ اس قدر بلک رہا تھا کہ ہم رات بھر سو نہیں سکے تھے اور نہ میرے سینے میں بچے کے لئے کچھ تھا اور نہ اونٹنی اس کی خوراک دے سکتی تھی۔ بس ہم بارش اور خوشحالی کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ میں اپنی گدھی پر سوار ہوکر چلی تو وہ کمزوری اور دبلے پن کے سبب اتنی سست رفتار نکلی کہ پورا قافلہ تنگ آگیا۔ خیر کسی نہ کسی طرح دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ پہنچ گئے۔ پھر ہم میں سے کوئی عورت ایسی نہ تھی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش نہ کیا گیا ہو، مگر جب اسے بتایا جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتیم ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لینے سے انکار کر دیتی، کیونکہ ہم بچے کے والد سے داد و انعام کی امید رکھتے تھے۔ ہم کہتے کہ یہ تو یتیم ہے، بھلا اس کی بیوہ ماں اور اس کے دادا کیا دے سکتے ہیں۔ بس یہی وجہ تھی کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لینا نہیں چاہتے تھے۔
ادھر جتنی عورتیں میرے ہمراہ آئی تھیں، سب کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیا، صرف مجھ ہی کو نہ مل سکا۔ جب واپسی کی باری آئی تو میں نے اپنے شوہر سے کہا۔ اللہ کی قسم! مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میری تمام سہیلیاں تو بچے لے لے کر جائیں اور تنہا میں کوئی بچہ لئے بغیر واپس جائوں۔ میں جاکر اسی یتیم بچے کو لے لیتی ہوں۔ شوہر نے کہا۔ کوئی حرج نہیں۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اسی میں ہمارے لئے برکت دے۔
اس کے بعد میں نے جا کر بچہ لے لیا اور محض اس بناء پر لیا کہ کوئی اور بچہ نہ مل سکا تھا۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میں بچے کو لے کر اپنے ڈیرے پر واپس آئی اور اسے اپنی آغوش میں رکھا تو اس نے جس قدر چاہا، دودھ پیا اور اس کے ساتھ اس کے دودھ شریک بھائی نے بھی شکم سیر ہو کر دودھ پیا۔ پھر دونوں سو گئے حالانکہ اس سے پہلے ہم اپنے بچے کے ساتھ سو نہیں سکتے تھے۔ ادھر میرے شوہر اونٹنی دوہنے گئے تو دیکھا کہ اس کے تھن دودھ سے لبریز ہیں۔ انہوں نے اتنا دودھ دوہا کہ ہم دونوں نے نہایت آسودہ ہو کر پیا اور بڑے آرام سے رات گزاری۔ صبح ہوئی تو میرے شوہر نے کہا۔ حلیمہ (رضی اللہ عنہا)! اللہ کی قسم، تم نے ایک بابرکت روح حاصل کی ہے۔ میں نے کہا، مجھے بھی یہی توقع ہے۔
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد ہمارا قافلہ واپس روانہ ہوا تو میں اپنی اس خستہ حال گدھی پر سوار ہوئی اور اس بچے کو بھی اپنے ساتھ لیا لیکن اللہ کی قسم، اب وہی گدھی پورے قافلے کو کاٹ کر اس طرح آگے نکل گئی کہ کوئی گدھا اس کا ساتھ نہ دےسکا۔ یہاں تک کہ میری سہیلیاں کہنے لگیں۔ اے ابوذویب کی بیٹی! ذرا ہم پر مہربانی کر، آخر یہ تیری وہی گدھی تو ہے جس پر سوار ہو کر تو آئی تھی؟ میں نے کہا۔ ہاں ہاں! اللہ کی قسم یہ وہی ہے۔ انہوں نے کہا یقیناً اس بچے کا کوئی خاص معاملہ ہے۔
پھر ہم بنو سعد میں اپنے گھروں کو واپس آگئے۔ ہمارا علاقہ روئےزمین کا سب سے زیادہ قحط زدہ علاقہ تھا لیکن ہماری واپسی کے بعد میری بکریاں چَرنے جاتیں تو آسودہ حال اور دودھ سے بھرپور واپس آتیں، ہم دودھ دوہتے اور پیتے جب کہ کسی انسان کو دودھ کا ایک قطرہ بھی نصیب نہ ہوتا اور ان کے جانوروں کے تھنوں میں دودھ سرے سے رہا ہی نہ تھا۔
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس بچے کے آنے کے بعد سے ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلسل اضافے اور خیر کا مشاہدہ کرتے رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی عمر کے چار سال حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کی گود میں، ان کے خاوند حارث کے کندھوں پر اور ان کی بیٹی شیما کے ساتھ کھیل کود میں گزارے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کی بکریوں کے بچوں کے ساتھ کھیلتے اور بڑے ہونے کے بعد شیما کے ساتھ انہیں جنگل سے واپس لے آتے۔
اہل عرب میں بنو ہوازن اور خصوصاً بنو سعد کی زبان فصاحت میں مشہور تھی۔ آمنہ کے لال (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسی فضا میں باتیں کرنا سیکھا۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب واپس اپنی والدہ کے گھر لوٹے تو کنیز برکہ لئے لئے پھرتی تھی۔ اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بےحد محبت تھی۔ والدہ محترمہ خاوند کی جدائی میں مغموم و سوگوار رہتی تھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب 6سال کے ہوئے تو حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کا ارادہ ہوا کہ وہ اپنے متوفی شوہر کی یاد وفا میں یثرب (مدینہ منورۂ کا پرانا نام) جا کر ان کی قبر کی زیارت کریں۔ چنانچہ وہ اپنے یتیم بچے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اپنی خادمہ اُم ایمن اور اپنے سرپرست عبدالمطلب کے ہمراہ کوئی چار سو کلومیٹر کی مسافت طے کرکے مدینہ تشریف لے گئیں اور وہاں ایک ماہ تک قیام کرکے واپس ہوئیں، لیکن ابھی اثنائے راہ میں تھیں کہ بیماری نے آلیا۔
پھر یہ بیماری شدت اختیار کرتی گئی، یہاں تک کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام ابوا پہنچ کر رحلت کرگئیں۔ کمسن محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ پھر دنیاوی اعتبار سے بے یارومددگار رہ گئے۔ بوڑھے عبدالمطلب اپنے پوتے کو لے کر مکہ پہنچے۔ ان کا دل اپنے اس یتیم پوتے کی محبت و شفقت کے جذبات سے لبریز تھا کیونکہ اب اسے ایک نیا زخم لگا تھا جس نے پرانے زخموں کو کرید دیا تھا۔ عبدالمطلب کے جذبات میں پوتے کے لئے ایسی رقت تھی کہ ان کی اپنی حقیقی اولاد میں سے بھی کسی کے لئے ایسی رقت نہ تھی۔
چنانچہ قسمت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی کے جس صحرا میں لا کھڑا کیا تھا، عبدالمطلب اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اولاد سے بھی بڑھ کر چاہتے اور بڑوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام کرتے تھے۔
دادا عبدالمطلب کا انتقال
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ابھی 8سال دو مہینے دس دن کی ہوئی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نازک دل کو ایک اور ٹھیس لگی اور دادا عبدالمطلب کا 82 سال کی عمر میں مکہ میں انتقال ہوگیا۔ دادا وفات کے وقت اپنے یتیم پوتے کو اپنے بیٹے ابوطالب کے حوالے کرگئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کے سگے بھائی تھے۔ ابو طالب پختہ عمر کے تھے۔ ان کی شادی عرصہ ہوا فاطمہ اسدیہ سے ہوچکی تھی لیکن اس وقت ان کا صرف ایک ہی کم سن بچہ طالب تھا۔ بعد میں انہی سے دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ بالترتیب حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی پیدا ہوئے۔ دونوں میاں بیوی نے بھتیجے کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور حقیقی بیٹے کی طرح پرورش کرنے لگے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ماں کی لُٹی ہوئی مامتا ہی نہیں، باپ کا پیار بھی مل گیا اور کھیلنے کے لئے ایک چھوٹا سا بھائی بھی۔ کم سن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا نیا دور شروع ہوچکا تھا۔ اس کی حدود نہایت واضح تھیں۔ متوسط الحال ابو طالب کا مختصر گھرانہ، چچا کا محبت بھرا سلوک، چچی کا ماں کا سا پیار اور اپنے سے چند سال کم عمر ننھا طالب کھیلنے، دن بھر بکریوں کی رکھوالی، جنگل میں انہیں چَراتے رہنا، جھڑبیری کے بیر کھانا اور اونٹوں کی مہار پکڑنا، بکری کے بچوں سے پیار کرنا، گھر کے چھوٹے موٹے کام کر دینا، اس عمر میں اور اس ماحول میں اس کے سوا اور کیا مشاغل ہوسکتے تھے۔
روئے مبار ک سے فیضانِ باراں کی طلب
ابن عسا کرنے جہینیہ بن عرفطہ سے روایت کی ہے کہ جب وہ مکہ آئے تو قریش کے لوگ ابو طالب سے کہہ رہے تھے کہ وادی قحط کا شکار ہے۔ بال بچے فاقے کی زد میں ہیں۔ چلئے بارش کی دعا کیجیے۔ ابو طالب ایک بچہ ساتھ لے کر باہر تشریف لائے۔ بچہ انتہائی پُرنور معلوم ہوتا تھا۔ اس کے اردگرد اور بھی بچے تھے۔ ابو طالب نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر ان کی پیٹھ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگا دی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی انگلی پکڑ رکھی تھی۔ اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہ تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اِدھر اُدھر سے بادلوں کی آمد شروع ہوگئی اور ایسی دھواں دھار بارش ہوئی کہ وادی میں سیلاب آگیا اور شہر و بیاباں شاداب ہوگئے۔ بعد میں ابو طالب نے اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں کہا تھا۔
’’وہ خوبصورت ہیں۔ ان کے چہرے سے بارش کا فیضان طلب کیا جاتا ہے۔ یتیموں کے ماویٰ اور بیوائوں کے محافظ ہیں۔‘‘
سادہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کم عمری ہی میں اثر ڈالا ہوگا اور زندگی کو خوش باشی اور لااُبالی کی نظر سے دیکھنے کی بجائے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے پر مائل کیا ہوگا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم 12سال کی عمر ہی میں چچا کے ساتھ تجارتی قافلوں میں جانے کے مشتاق نظر آتے ہیں اور ساتھ چلنے کیلئے اصرار کرتے ہیں۔
حلیم چچا، محبوب بھتیجے کی فرمائش کیسے ٹالتے؟ کم عمری کے باوجود طویل سفر پر لے جانے کیلئے تیار ہوگئے۔ ابو طالب، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر ملک شام کے سفر پر نکلے اور بصریٰ پہنچے۔ بصریٰ شام کا ایک مقام اور حوران کا مرکزی شہر ہے۔ اس وقت یہ جزیرۃ العرب کے رومی مقبوضات کا دارالحکومت تھا۔ اس شہر میں جرجیس نامی ایک راہب رہتا تھا۔ جب قافلے نے وہاں پڑائو ڈالا تو یہ راہب اپنے گرجے سے نکل کر قافلے کے اندر آیا اور اس کی میزبانی کی، حالانکہ اس سے پہلے وہ کبھی اپنے گرجے سے نہیں نکلا تھا۔
اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کی بناء پر پہچان لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ یہ سیّدالعالمین (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں رحمتہ للعالمین (صلی اللہ علیہ وسلم) بنا کر بھیجا ہے۔ ابو طالب نے کہا۔ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ اس راہب نے کہا۔ تم لوگ جب گھاٹی کے اس جانب نمودار ہوئے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو سجدہ کیلئے جھک نہ گیا ہو اور یہ چیزیں انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کسی انسان کو سجدہ نہیں کرتیں۔
پھر میں انہیں مہرنبوت سے پہچانتا ہوں جو کندھے کے نیچے نرم ہڈی کے پاس سیب کی طرح ہے اور ہم انہیں اپنی کتابوں میں بھی پاتے ہیں۔ اس کے بعد اس راہب نے ابو طالب سے کہا کہ انہیں ملک شام نہ لے جائو کیونکہ یہود سے خطرہ ہے کہ کہیں وہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔ اس پر ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ واپس بھیج دیا۔
قریش تمام تر تجارت پیشہ تھے۔ بنو فہر کا نام قریش اسی پیشے کی وجہ سے ہی پڑا تھا۔ قریش کا ہر گھر تجارت میں مصروف تھا۔ مقامی پیداوار برآمد کرنا اور اس کے معاوضے میں غلہ، کپڑا، برتن، اسلحہ، سونا، چاندی وغیرہ درآمد کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ سال میں دو مرتبہ اپنا اپنا سامان لے کر قافلوں کی شکل میں نکلتے۔ کبھی شام کا رخ کرتے اور کبھی یمن کا، اپنا سامان بیچتے، ضرورت کی چیزیں خریدتے اور دو تین ماہ کے عرصے میں گھروں کو واپس لوٹ آتے۔ دنیا کے نشیب و فراز سے واقف ہونے کا اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوعمری ہی میں اس میں شرکت فرمائی۔
جنگ فجار
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب پندرہ سال کے تھے، قریش اور بنوہوازن میں جنگ چھڑ گئی جو حرب فجار کے نام سے مشہور ہے، جس کا آغاز بنو کنانہ اور بنو ہوازن کے ایک جھگڑے سے ہوا۔ عکاظ کے بازار میں ماہ حرام میں بنو کنانہ کے ایک شخص البراض نے بنو ہوازن کے ایک شخص کو قتل کردیا۔ بنو ہوازن، بنو کنانہ پر حملہ آور ہوئے۔ بنو کنانہ نے اپنے حلیف قریش کو مدد کے لئے پکارا۔ قریش بنو کنانہ کی مدد کیلئے پہنچے تو بنو ہوازن نے قریش کو مار بھگایا اور خانۂ کعبہ تک ان کا پیچھا کیا۔
قریش کے تمام گھرانوں کے اکابر اس جنگ میں شریک تھے۔ بنی مخزوم ہشام بن مغیرہ کی سرکردگی میں اور آل ہاشم زبیر بن عبدالمطلب کی ماتحتی میں لڑ رہے تھے۔ قریش اور کنانہ کا سالار اعظم حرب بن امیہ بن عبدالشمس تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام چچا زبیر، عباس، حمزہ (رضی اللہ عنہم) ابو طالب اس جنگ میں حصہ لے رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی موجود تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی حصہ کیا تھا؟ خود فرماتے ہیں کہ میں اپنے چچائوں کو وہ تیر دیتا جاتا تھا جو دشمنوں کی جانب سے آتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنگ میں عملی حصہ لینے کا موقع اس وقت آیا جب حرب فجار کے تباہ کن اثرات دیکھ کر عمائدین مکہ نے جنگ حلف الفضول کی بنیاد ڈالی۔ ہاشم زہرہ اور تیم کے خاندان، عبداللہ بن جدعان کے گھر جمع ہوئے جو سب سے معمر تھے۔ زبیر بن عبدالمطلب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کی تحریک پر سب نے مل کر معاہدہ کیا کہ ہم میں سے ہر شخص مظلوم کی حمایت کرے گا اور مکہ میں کسی ظالم کا ظلم برداشت نہیں کیا جائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کم عمری کے باوجود اس معاہدے میں پیش پیش تھے اور بعد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ مجھے اس کے عوض سرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر دور اسلام میں اس عہد و پیمان کے لئے مجھے بلایا جاتا تو میں لبیک کہتا۔
اس معاہدےکی روح عصبیت کی تہہ سے اٹھنے والی جاہلی حمیت کے منافی تھی۔ اس معاہدے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ زبید کا ایک آدمی سامان لے کر مکہ آیا اور عاص بن وائل نے اس سے سامان خریدا، لیکن اس کا حق روک لیا۔ اس نے حلیف قبائل سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے توجہ نہ دی۔ اس کے بعد اس نے ابو قبیس پہاڑ پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے جن میں اپنی داستانِ مظلومیت بیان کی تھی۔ اس پر زبیر بن عبدالمطلب نے کہا کہ یہ شخص بے یارومددگار کیوں ہے؟ ان کی کوشش سے اس معاہدے کے لئے قبائل جمع ہوگئے اور پہلے معاہدہ کیا۔ اس کے بعد عاص بن وائل سے اس زبیدی کا حق دلایا۔