ماں کی پیار بھری لوریاں
Table of Contents
ماں کولی، بے بے کولی،ماں صدقے جائے،بسم اللہ کراں بیبا بچہ۔۔۔ یہ وہ محبت بھرے الفاظ تھے جو ہماری مائیں ہمیں بچپن میں پیار سے کہتی تھیں۔صبح سویرے اٹھانے کا انداز ہی بڑا پیارا ہوتا تھا۔ علی الصبح اٹھ جاتیں تھیں،خوائج ضروریہ اور گھر کے ضروری کاموں سے فارغ ہوکر، بچوں کو نماز اور قرآن شریف پڑھنے کے لئیے اٹھاتیں۔سرھانے آکر بیٹھ جاتیں
،سر کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرکر سہلاتیں اور ساتھ ساتھ کہتی جاتی۔۔اٹھ ماں کولی،دن چڑھ گیا ہے،اللہ محمد کا نام لو،سردیوں میں چادر یا کھیسی میں لپیٹ کر مسجد میں بیجھتی۔واپس آتے تو گرم گرم ناشتہ تیار ہوتا،پھر سکول بیجھتے ہوئے سر پر پیار دیتی اور اللہ دے حوالے کے الفاظ بول کر کہتی۔۔۔اللہ دا مال ،اللہ دی امانت۔پورے بچپن اور جوانی میں اس بات کا پتا نہ چلا کہ اماں کب جاگیں اور کب سوئیں۔
ماں کی پیار بھری لوریاں
کبھی کسی چیز کے لئیے ضد کرتے تو بڑے پوپلے الفاظ میں کہتیں۔۔۔ماں کولی ،اینج نہی کری دا،گولے بچے نہی بن دے بیبے بچے بنی دا اے۔ان کے محبت بھرے الفاظ سن کر ساری ضد رفو چکر ہو جاتی۔کبھی بخار چڑھتا یا طبعیت خراب ہوتی تو کہتیں۔۔۔ماں صدقے جاوے،ماں واری جائے،پالیا تیری نانی مرے،میرے پتر نوں بیمار کر دتا ای،اللہ تیرا مال،تیری امانت،میرے پتر نون تتی وا وی نہ لگے۔
کبھی گھر میں یا گھر سے باہر گر جاتے تو بسم اللہ کراں، کہہ کر اٹھا لیتیں اور کپڑے جھاڑ کر کہتیں۔۔۔پتر کج نہی ہویا،اٹھ جا، میرا پتر بڑا بہادر اے، کیڑی دا آٹا ڈھل گیا اے۔ان کے یہ الفاظ سن کر بڑے سے بڑی چوٹ اور درد ختم ہوکر بھول جاتا۔
کچھ دن پہلے ایک پنجابی نظم پڑھی تو آنکھوں سےآنسو رواں ہوگئے،ان دنوں ماں کے بولے ہوئےالفاظ کی مکمل عکاسی تھی۔۔۔
تیرے باہجوں ماں نی
دنیا تلکن ویہڑے
اپی ڈگیا اپی اٹھیا
نہ بسم اللہ دی واج آئی
نہ کیڑی دا آٹا ڈھلیا
کبھی گھر میں پکا ہوا کھانا پسند نہ آتا تو اماں پوچھتی ۔۔۔بے بے کولی نے کہیہ کھانا اے کہہ کر ڈوپٹہ سر پر لے کر گلی میں نکل جاتی اور جس گھر میں میری پسند کا کھانا یا چاول پکے ہوتے وہ جھٹ سے لے آتیں۔۔۔۔ان دنوں آن لائن آرڈر کرنے کا یہ ہی محبت بھرا طریقہ تھا۔
سکول سے واپس آنے پر ماں کا پیار
سکول سے واپسی پر بسم اللہ کراں کہہ کر استقبال کرتیں اور بٹھا لیتیں۔اگر اس وقت کچھ بھی نہ پکا ہوتا تو کہتیں اج میں اپنے پتر نوں لہسن پلا کھلاواں گی ۔۔۔لہسن پلا کیا ہوتا،کنڈی میں ہری مرچ اور دھنیا کوٹ کر اس میں دودھ یا دہی ملا کر بڑی مزیدار چٹنی سے دیسی گھی سے چوپڑی ہوئی روٹی کھلا دیتیں۔گرمیاں ہوتی تو ساتھ ساتھ پنکھا بھی جھلتی۔
کھانا کھاتے ہوئے کھانسی آجاتی یا اتھو لگ جاتا تو فوراً کہتیں ۔۔۔کھرے،کھرے اور کمر کو ہلکا ہلکا تھپتھپا دیتیں۔
کبھی نظر لگ جاتی یا بخار چڑھ جانا تو سات سرخ مرچیں لے کر سر سے وار کر چولہے میں جلا کر کہتیں۔۔۔۔در در کتیا،جنگل وچ سٹیا،جنگل وچ کانے،جیون تیرے مامے۔سخت جاڑے میں کبھی نہلانا تو سردی سے دانت بجنے شروع ہوجاتے تو فوراً کہتیں۔۔۔ہائے پالیا تیری نانی مر جائے۔۔۔میرے پتر نوں نہ لگیں۔رات کو اپنے سینے سے بھینچ کر سلاتیں اور مزے مزے کی کہانیاں اور لوریاں سناتی جن میں سے کچھ اب بھی یاد ہیں۔۔۔
اللہ ھو۔۔لوا دے کھو
کھو تے بہہ کے نماز پڑھئے
اللہ سوہنے نوں یاد کریاں
اللہ جی میں کلی آں
شہر مدینے چلی آں
شہر مدینہ دور اے
جانا وی ضرور اے
کوٹھے تے تنور اے
روٹیاں دا پور اے
تالی اے وج۔۔۔ماما آئے اج
پنجابی شاعر دائم اقبال دائم کی لکھی ہوئی کتاب اکرام محمدی کے شعر بھی بڑے ترنم سے پڑھتیں۔
باپ جب بچوں کو مارتا ہے تو بچے بھاگ جاتے ہیں،لیکن جب ماں مارتی ہے تو وہ جم کر مار کھاتے ہیں اور وہیں بیٹھے رہتے ہیں۔پھر تھوڑی دیر بعد ماں آتی ہے تو پیار سے سر پر ہاتھ پھیرتی، جسم کی چوٹوں کو سہلاتی اور کہتیں۔۔۔ماں کولی،کیوں تنگ کرکے مار کھانا اے تے ماں نو تڑپاناایں۔
آج کل کی مائیں
آج کل بھی ماؤں میں اولاد کے لئیے وہی پیار اور محبت کا عنصر موجود ہے۔زمانے اور وقت بدلتے ہیں لیکن ماں اور اولاد کے رشتے میں وہی محبت اور چاشنی برقرار ہے جو ہمارے وقت میں تھی۔بس اظہار محبت و پیار کے الفاظ بدل گئے ہیں۔
پنجابی کی جگہ اردو اور انگریزی نے لے لی ہے۔اب بے تکلفی بڑھ گئ ہے۔ماں ہائے بے بی اور بچے ہائے مام کہتے ہیں،اب بچوں کو سینے سے لگانے کو ہگ کرنا کہتے ہیں۔کہانیاں اور لوریاں سنانے کا دور لدھ گیا۔انواع و اقسام کے کھانے میسر ہیں ،نہ کسی کے گھر سے کوئی کھانا لیتا اور نہ دیتا ہے۔اب نہ نظر اتاری جاتی ہے نہ کیڑی کا آٹا گرتا ہے اور نہ ہی بسم اللہ ،ماں واری صدقے کی آوازیں آتی ہیں۔
ماں کے بارے مرزا ادیب کی کتاب
مرزا ادیب کی خود نوشت “مٹی کا دیا ” کے ایک اقتباس کو کئ بار پڑھا ہے اور ہر بار آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں،لیکن اس میں بیان کی گئ ماں کی محبت کی چاشنی کم نہیں ہوتی ہے۔
“اباجی مجھے مارتے امی بچا لیتی تھیں۔ایک دن سوچا اگر امی پٹائی کریں گی تو ابا جی کیا کریں گے ۔ یہ دیکھنے کے لئے کیا ہوتا ہے میں نے امی کا کہنا نہ مانا ، انہوں نے کہا بازار سے دہی لادو میں نہ لایا انہوں نے سالن کم دیا تو میں نے زیادہ پر اصرار کیا انہوں نے کہا پیڑھی پر بیٹھ کر روٹی کھاؤ میں نے دری بچھالی اور اس پر بیٹھ گیا ،
کپڑے میلے کر لئے میر الہجہ بھی گستاخانہ تھا مجھے سے پورا یقین تھا امی مجھے ماریں گی مگر انہوں نے یہ کیا مجھے سینے سے لگا کر کہا ” کیوں دلاور پترا میں صدقے توں بیمار تے نئیں۔اس وقت میرے آنسو تھے کہ رکتے نہیں تھے۔”
مٹی کا دیا۔۔۔مرزا ادیب کا اصل نام دلاور تھا۔
و قل رب الرھما کما ربینی صغیرا