حضرت سلمان ؓفارسی نسبی تعلق اصفہان کے آب الملک کے خاندان سے تھا، مجوسی نام مابہ تھا، اسلام کے بعد سلمان رکھا گیا اور بارگاہِ نبوت سے سلمان الخیرلقب ملا، ابوعبداللہ، کنیت ہے، سلسلۂ نسب یہ ہے: مابہ ابن بوذخشان بن مورسلان بن یہوذان بن فیروز ابن سر کے بال گھنے، کان لمبے اور دراز قامت تھے
حضرت سلمانؓ کے والد اصفہان کے جی نامی قریہ کے باشندہ اور وہاں کے زمیندار وکاشتکار تھے، ان کوحضرت سلمانؓ سے اس قدر محبت تھی کہ ان کولڑکیوں کی طرح گھر کی چاردیواری سے نکلنے نہ دیتے تھے، آتشکدہ کی دیکھ بھال ان ہی کے متعلق رکھی تھی؛
چونکہ مذہبی جذبہ سلمانؓ میں ابتدا سے تھا، اس لیے جب تک آتش پرست رہے اس وقت تک آتش پرستی میں سخت غلورہا اور نہایت سخت مجاہدات کیے، شب وروز آگ کی نگرانی میں مشغول رہتے تھے؛ حتی کہ ان کا شمار ان پجاریوں میں ہو گیا تھا جوکسی وقت آگ کوبجھنے نہ دیتے تھے۔
کی نگرانی وہ بذاتِ خود کرتا تھا، ایک دن وہ گھر کی مرمت میں مشغولیت کی وجہ سے کھیت پرخود نہ جاسکا اور اس کی دیکھ بھال کے لیے سلمان کوبھیج دیا، ان کورستہ میں ایک گرجا ملا، اس وقت اس میں عبادت ہورہی تھی،
نماز کی آوازیں سن کر دیکھنے کے لیے گرجے میں چلے گئے، نماز کے نظارہ سے ان کے دل پرخاص اثر ہوا اور مزید حالات کی جستجو ہوئی، عیسائیوں کا طریقہ عبادت اس قدر بھایا کہ بے ساختہ زبان سے نکل آیا کہ یہ مذہب ہمارے مذہب سے بہتر ہے؛ چنانچہ کھیتوں کا خیال چھوڑ کے اسی میں محو ہو گئے، عبادت ختم ہونے کے بعد عیسائیوں سے پوچھا کہ اس مذہب کا سرچشمہ کہاں ہے؛
انہوں نے کہاکہ شام میں، پتہ پوچھ کرگھرواپس آئے، باپ نے پوچھا کہ اب تک کہاں رہے؟ جواب دیا کہ کچھ لوگ گرجے میں عبادت کر رہے تھے، مجھ کوان کا طریقہ ایسا بھلا معلوم ہوا کہ غروب آفتاب تک وہیں رہا، باپ نے کہا: وہ مذہب تمہارے مذہب کا پاسنگ بھی نہیں، جواب دیا، بخدا! وہ مذہب ہمارے مذہب سے کہیں برتر ہے،
اس جواب سے ان کے باپ کوخطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں یہ خیال تبدیل مذہب کی صورت میں نہ ظاہر ہو، اس لیے بیڑیاں پہناکر مقید کر دیا؛ مگران کے دل میں تلاشِ حق کی تڑپ تھی، اس لیے عیسائیوں کے پاس کہلا بھیجا کہ جب شام کے تاجر آئیں تومجھ کواطلاع دینا؛ چنانچہ جب وہ آئے تواُن کوخبر کردی؛ انھوں نے کہا کہ جب وہ واپس ہوں تومجھے بتلانا؛
چنانچہ جب کاروانِ تجارت واپس لوٹنے لگا، ان کوخبر کی گئی، یہ بیڑیوں کی قید سے نکل کران کے ساتھ ہو گئے، شام پہنچ کردریافت کیا کہ یہاں سب سے بڑا مذہبی شخص کون ہے؟ لوگوں نے وہاں کے پادری کا پتہ دیا، اس سے جاکر کہا کہ مجھ کوتمہارا مذہب بہت پسند ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس رہ کرمذہبی تعلیم حاصل کروں اور مجھ کواس مذہب میں داخل کرو۔
آپ اس کے پاس رہنے لگے آپکو احساس ہوا کہ یہ شخص بدکردار اور حریص ہے حتیٰ کہ سونے اور چاندی کے سات مٹکے اس پادری کے پاس جمع ہو گئے، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اس کی حرص اور آزکودیکھ کرپیچ وتاب کھاتے تھے؛ مگرزبان سے کچھ نہ کہہ سکتے تھے،
اتفاق سے وہ مرگیا، عیسائی شان وشوکت سے اس کی تجہیز وتکفین کرنے کوجمع ہو گئے، اس وقت انھوں نے سارا اعمالنامہ ان لوگوں کے سامنے کھول کررکھ دیا؛ انھوں نے ان کولے جاکر اس کے اندوختہ کے پاس کھڑا کر دیا، تلاشی لی گئی توواقعی سات مٹکے سونے چاندی سے بھرے ہوئے برآمد ہوئے،
عیسائیوں نے اس کی سزا میں دفن کرنے کی بجائے اس کی نعش کوصلیب پرلٹکاکر سنگ سار کیا، اس کی جگہ دوسرا پادری مقرر ہوا، یہ بڑا عابد وزاہد اور تارک الدنیا تھا، شب وروز عبادتِ الہٰی میں مشغول رہتا، سلمان اس سے بہت مانوس ہو گئے اور دلی محبت کرنے لگے اور آخرتک اس کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے،
جب اُس کی موت کا وقت قریب آیا تواس سے کہا کہ میں آپ کے پاس عرصہ تک نہایت لطف ومحبت کے ساتھ رہا، اب آپ کا وقت آخر ہے، اس لیے آئندہ کے لیے مجھ کوکیا ہدایت ہوتی ہے، اس نے کہا کہ میرے علم میں کوئی ایسا عیسائی نہیں ہے جومذہب عیسوی کا سچا پیروہو، سچے لوگ مرکھپ گئے اور موجودہ عیسائیوں نے مذہب کوبہت کچھ بدل دیا ہے؛
بلکہ بہت سے اصول توسرے سے چھوڑ ہی دیے ہیں، ہاں موصل میں فلاں شخص ہے جودین حق کا سچا پیرو ہے تم جاکر اس سے ملاقات کرنا۔
اس پادری کی موت کے بعد حق کی جستجو میں وہ موصل پہنچے اور تلاش کرکے اس سے ملے اور اپنا واقعہ بیان کیا کہ فلاں پادری نے مجھ کوہدایت کی تھی کہ آپ کے یہاں ابھی تک حق کا سرچشمہ اُبلتا ہے اور میں آپ سے مل کراپنی تشنگی فرو کرنا چاہتا ہوں، اس نے ان کوٹھہرالیا پہلے پادری کی رائے کے مطابق یہ پادری درحقیقت بڑا متقی اور پاکباز تھا،
اس لیے انھوں نے اس کے پاس مستقل قیام کر لیا؛ مگرتھوڑے دنوں کے بعد اس کا وقت بھی آگیا، آئندہ کے متعلق حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اس سے بھی وصیت کی خواہش کی، اس نے نصیبین میں ایک شخص کا پتہ بتایا
چنانچہ اس کی موت کے بعد آپ نصیبین پہنچے اور اس پادری سے ملکر دوسرے پادری کی وصیت بتلائی، یہ اسقف بھی پہلے دونوں اسقفوں کی طرح بڑا عابد اور زاہد تھا، سلمان یہاں مقیم ہوکر اس سے روحانی تسکین حاصل کرنے لگے، ابھی کچھ ہی دن اس کی صحبت سے فیض اُٹھایا تھا کہ اس کا وقت بھی آخر ہو گیا،
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نےگذشتہ اسقفوں کی طرح اس سے بھی آئندہ کے متعلق مشورہ طلب کیا، اس نے عموریہ میں گوہرمقصود کا پتہ دیا ۔چنانچہ اس کی موت کے بعد انھوں نے عموریہ کا سفر کیا اور وہاں کے اسقف سے مل کرپیام سنایا اور اس کے پاس مقیم ہو گئے،
کچھ بکریاں خریدلیں، اس سے مادی غذا حاصل کرتے تھے اور صبر و شکر کے ساتھ روحانی غذا اسقف سے حاصل کرنے لگے، جب اس کا پیمانۂ حیات بھی لبریز ہو گیا توحضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنی سرگزشت سنائی کہ اتنے مراتب طے کرتا ہوا آپ کے پاس پہنچا تھا، آپ بھی آخرت کا سفر کرنے کوآمادہ ہیں،
اس لیے میرا کوئی سامان کرتے جائیے، اس نے کہا: بیٹا میں تمہارے لیے کیا سامان کروں؟ آج دنیا میں کوئی شخص ایسا باقی نہیں ہے جس سے ملنے کا میں تمھیں مشورہ دوں؛ البتہ اب اس نبی کے ظہور کا زمانہ قریب ہے، جوریگستانِ عرب سے اُٹھ کردینِ ابراہیم علیہ السلام کوزندہ کرے گا اور کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کریگا، اس کے علامات یہ ہیں کہ وہ ہدیہ قبول کریگا؛
لیکن صدقہ کواپنے لیے حرام سمجھے گا، اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہرِنبوت ہوگی؛ اگرتم اس سے مل سکوتوضرور ملنا۔
اس پادری کے مرنے کے بعد کچھ عرصہ تک عموریہ میں رہے، کچھ دنوں بعد بنوکلب کے تاجر ادھر سے گذرے، آپ نے ان سے کہا کہ اگرتم مجھ کوعرب پہنچادو تومیں اپنی گائیں اور بکریاں تمھاری نذر کردوں گا، وہ لوگ تیار ہو گئے اور زبانِ حال سے یہ شعر ؎
چلتا ہوں تھوڑی دُور ہراک راہرو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کومیں پڑھتے ہوئے ساتھ ہولیے۔
لیکن ان عربوں نے وادی القریٰ میں پہنچ کران کودھوکا دیا اور ایک یہودی کے ہاتھ غلام بناکر فروخت کرڈالا، کھجور کے درخت نظر آئے توآس بندھی کہ شاید یہی وہ منزلِ مقصود ہے جس کا اسقف نے پتہ دیا تھا، تھوڑے دن قیام کیا تویہ اُمید بھی منقطع ہو گئی، آقا کا چچازاد بھائی مدینہ سے ملنے آیا، اس نے سلمان رضی اللہ عنہ کواس کے ہاتھ بیچ دیا۔
وہ اپنے ساتھ ان کومدینہ لے چلا اور سلمان غلامی درغلامی کی رسوائی سہتے ہوئے مدینہ پہنچے؛ مگرہاتفِ غیب تسکین دے رہا تھا کہ یہ غلامی نہیں ہے ؎
اسی سے ہوگی تیرے غمکدہ کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
درحقیقت اس غلامی پرجومقصود دوعالم کے آستانے تک پہنچانے کا ذریعہ بن جائے ہزاروں آزادیاں قربان ہیں، جوں جوں محبوب کی منزل قریب آتی جاتی تھی کشش بڑھتی جاتی تھی اور آثار وعلامات بتاتے تھے کہ شاہد مقصود کی جلوہ گاہ یہی ہے، اب ان کوپورا یقین ہو گیا اور دیدار جمال کی آرزو میں یہاں دن کاٹنے لگے؛
اس وقت آفتاب رسالت مکہ پرتوافگن ہوچکا تھا؛ لیکن جوروستم کے بادلوں میں چھپا تھا، سلمان رضی اللہ عنہ کوآقا (مالک) کی خدمت سے اتنا وقت نہ ملتا کہ خود اس کا پتہ لگاتے، آخر انتظار کرتے کرتے وہ روزِ مسعود بھی آگیا کہ مکہ کا آفتاب عالم تاب مدینہ کے افق پرطلوع ہوا،
حرمان نصیب سلمان کی شب ہجر تمام ہوئی اور صبح اُمید کا اُجالا پھیلا، یعنی سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے، سلمانؓ کھجور کے درخت پرچڑھے ہوئے کچھ درست کر رہے تھےاور آقا(مالک) نیچے بیٹھا تھا کہ اس کے چچازاد بھائی نے آکر کہا کہ خدا بنی قیلہ کوغارت کرے، سب کے سب قبا میں ایک شخص کے پاس جمع ہیں، جومکہ سے آیا ہے
، یہ لوگ اس کونبی سمجھتے ہیں، سلمان کے کانوں تک اس خبرکا پہنچنا تھا کہ یارائے ضبط باقی نہ رہا، صبروشکیب کا دامن چھوٹ گیا، بدن میں سنسناہٹ پیدا ہو گئی اور قریب تھا کہ کھجور کے درخت سے فرشِ زمین پرآجائیں؛ اسی مدہوشی کے عالم میں جلد ازجلد درخت سے نیچے اُترے اور بدحواسی میں بے تحاشا پوچھنے لگے،
تم کیا کہتے ہو؟ آقا نے اس سوال پرگھونسا مار کرڈانٹا کہ تم کواس سے کیا غرض، تم اپنا کام کرو، اس وقت سلمانؓ خاموش ہو گئے؛ لیکن اب صبر کسے تھا کھانے کی کچھ چیزیں پاس تھیں ان کے لے کردربارِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے سنا ہے کہ آپؐ خدا کے برگزیدہ بندے ہیں اور کچھ غریب الدیار اور اہلِ حاجت آپؐ کے ساتھ ہیں،
میرے پاس یہ چیزیں صدقہ کے لیے رکھی تھیں، آپ لوگوں سے زیادہ ان کے مستحق کون ہوسکتے ہیں؟ اس کوقبول فرمائیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے لوگوں کوکھانے کا حکم دیا؛ مگرخود نوش نہ فرمایا؛ اس طرح سے سلمان رضی اللہ عنہ کونبوت کی ایک علامت کا مشاہدہ ہو گیا کہ نبی صدقہ نہیں قبول کرتا
دوسرے دن پھرہدیہ لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کل آپؐ نے صدقہ کی چیزیں نہیں نوش فرمائی تھیں، آج یہ ہدیہ قبول فرمائیے، آپؐ نے قبول فرمایا، خود بھی نوش کیا اور دوسروں کوبھی دیا، اس طرح سے دوسری نشانی یعنی مہرنبوت کی بھی زیارت کی اور باچشم پرنم آپؐ کی طرف بوسہ دینے کوجھکے،
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سامنے آؤ! وہ سامنے آئے اور اپنی ساری سرگزشت سنائی؛
پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دلچسپ داستان اپنے تمام اصحاب کوسنوائی۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ جب اپنا گوہرمقصود پاچکے تواس دولت کواپنے دل کے خزانے میں رکھ کرآقا کے گھرواپس آئے، اتنے مرحلوں کے بعد وہ دین سے ہم آغوش ہوئے۔
غلامی کی مشغولیت کے باعث فرائضِ مذہبی ادا نہ کرسکتے تھے؛ اسی وجہ سے غزوۂ بدرواُحد میں شریک نہ ہو سکے، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اپنے آقا کومعاوضہ دے کرآزادی حاصل کرلو، تین سوکھجور کے درخت اور چالیس اوقیہ سونے پرمعاملہ طے ہوا،
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عام مسلمانوں سے سفارش فرمائی کہ اپنے بھائی کی مدد کرو، سب نے حسب حیثیت کھجور کے درخت دیے، اس طریقہ سے تین سودرخت ان کومل گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد سے ان کوبٹھایا اور زمین وغیرہ ہموار کرکے ایک شرط پوری کردی، اب سونے کی ادائیگی باقی رہ گئی اس کا سامان بھی خدا نے کر دیا،
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوکسی غزوہ میں مرغی کے بیضہ کے برابر سونا مل گیا، آپؐ نے سلمان کودے دیا، یہ وزن میں ٹھیک چالیس اُوقیہ تھا، اس سے گلوخلاصی حاصل کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنے لگے
ان کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا تو اس کی قوم کے لوگ اس کو ضرور تلاش کر لیں گے غزوہ خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی کے موقع پرسلمانؓ سب سے زیادہ سرگرم تھے۔ اس پر مہاجرین نے کہا کہ ” سلمان ہمارا ہے” انصار نے یہ سنا تو کہا “سلمان ہمارا ہے”۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ” سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہے ” اس لیے سلمان کو مہاجرین یا انصار کی بجائے اہل بیت میں شمار کیا گيا۔
غلامی سے آزادی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ مستقل اقامت اختیار کی، اس وقت بالکل غریب الدیار تھے، کوئی شناسا نہ تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی مہاجرین کی طرح ان سے اور ابودرداء سے مواخاۃ (مواخاۃ کے معنی بھائی چارہ کے ہیں)کرادی۔
بدر و اُحد کی لڑائیاں ان کی غلامی کے زمانہ میں ختم ہوچکی تھیں، آزادی کے بعد پہلا غزوۂ خندق پیش آیا، اس میں انھوں نے اپنے حسن تدبیر سے دونوں لڑائیوں کی تلافی کردی
، غزوۂ خندق میں تمام عرب کا ٹڈی دل مسلمانوں کے خلاف امنڈ آیا تھا کہ ان کا کامل استیصال کر دے، حملہ خود مدینہ پرتھا، جس کے چاروں طرف نہ قلعہ تھا، نہ فصیل تھی اور مقابلہ بھی سخت تھا، ایک طفر کفار کی تعداد ریگستانِ عرب کے ذروں کے برابر تھی اور دوسری طرف مٹھی بھرمسلمان تھے،
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں سے مشورہ کیا، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ چونکہ ایران کی صف آرائیاں دیکھے ہوئے تھے، اس لیے جنگی اصولوں سے اچھی طرح واقف تھے؛ چنانچہ انھوں نے مشورہ دیا کہ اس انبوہ کا کھلے میدان مقابلہ کرنا اچھا نہیں ہے؛ بلکہ مدینہ کے چاروں طرف خندقیں کھودکرشہر کومحفوظ کردینا چاہیے، یہ تدبیر مسلمانوں کوبہت پسند آئی اور اسی پرعمل کیا گیا۔ خندق کی کھودائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بہ نفسِ نفیس شریک ہوئے تھے اور مٹی ڈھوتے ڈھوتے شکم مبارک مٹی سے اٹ گیا تھا
ذیقعدہ سنہ5ھ میں طرفین میں جنگ شروع ہوئی، عربوں کواس طریقۂ جنگ سے واقفیت نہ تھی وہ آئے توتھے کہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے؛ مگریہاں آکردیکھا کہ ان کے اور مدینہ کے بیچ میں خندق کی فصیل حائل ہے، وہ 22/دن تک مسلسل محاصرہ کیے پڑے رہے؛ مگرشہر تک پہنچنا ان کونصیب نہ ہوا اور آخرکار ناکام واپس پھرگئے،
غزوۂ خنق کے علاوہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ تمام لڑائیوں میں مسلمانوں کے دوش بدوش شریک رہے اور غزوۂ خندق کے بعد سے کوئی عزوہ ایسا نہیں ہوا جس میں شریک ہوکر دادِ شجاعت نہ دی ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ عرصہ تک مدینہ میں رہے، عہد صدیقی کے آخر یاعہد فاروقی کی ابتدا میں انھوں نے عراق کی اور ان کے اسلامی بھائی ابودرداء رضی اللہ عنہ نے شام کی سکونت اختیار کرلی؛ یہاں کی اقامت کے بعد ابودرداء رضی اللہ عنہ کوخدا نے مال اور اولاد کی حیثیت سے بہت نوازا؛
انھوں نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کوخط لکھا کہ تم سے جدا ہونے کے بعد خدا نے مجھ کومال ودولت اور اہل و عیال سے سرفراز کیا اور ارضِ مقدس کی سکونت کا شرف بخشا، انھوں نے جواب دیا کہ یادرکھو! مال ودولت اور اولاد کی کثرت میں کوئی خیر نہیں ہے؛ بلکہ خیر اس میں ہے کہ تمہارا حلم زیادہ ہو اور تمہارا علم تم کونفع پہنچائے، محض ارضِ مقدس کا قیام کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک کہ تمہارا عمل اس قابل نہ ہو اور عمل بھی اس طرح کا ہو کہ گویا خدا تم کودیکھ رہا ہے اور تم اپنے کومردہ سمجھو۔
ایک ایرانی قصر کے محاصرہ کے وقت جارحانہ حملے کے پہلے محصورین کوسمجھادیا کہ میں بھی تمہارا ہم قوم تھا؛ لیکن خدا نے مجھ کواسلام سے نوازا، تم لوگ عربوں کی اطاعت گزاری سے کسی طرح نہیں بچ سکتے، تم کوسمجھائے دیتا ہوں کہ اگرتم اسلام لاکر ہجرت کرکے ہم میں مل جاؤ توتم کواہلِ عرب کے حقوق دیے جائیں گے
اور جوقانون ان کے لیے ہے وہی تم پرجاری کیا جائے گا اور اگراسلام نہیں قبول کرتے اور صرف جزیہ منظور کرتے ہوتوذمیوں کے حقوق تم کوملیں گے اور ان کا قانون تم پرنافذ کیا جائے گا، تین دن تک برابر تبلیغ کا فرض ادا کرتے رہے، جب کوئی اثر نہ ہوا توحملہ کا حکم دے دیا اور مسلمانوں نے قصرِ مذکور بزورِ شمشیر فتح کر لیا۔ فتح جلولا میں بھی شریک تھے اور وہاں مشک کی ایک تھیلی ان کے ہاتھ آئی تھی جس کواپنی زندگی کے آخری لمحات میں کام میں لائے۔
حضرت عمر کے عہد خلافت میں مدائن کی گورنری پرسرفراز ہوئے، چونکہ سلمان فارسی مقربین بارگاہِ نبوی میں سے تھے؛ اسی لیے عمر ان کا بہت احترام کرتے تھے، ایک دفعہ یہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے، اس وقت آپ ایک گدے پرٹیک لگائے بیٹھے تھے، سلمانؓ کودیکھ کر گدا ان کی طرف بڑھادیا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بیمار پڑے، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عیادت کوگئے تورونے لگے، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوعبداللہ رونے کا کون سامقام ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تم سے خوش خوش دنیا سے اُٹھے،
تم ان سے خوضِ کوثر پرملوگے، بچھڑے ہوئے ساتھیوں سے ملاقات ہوگی، کہا: خدا کی قسم میں موت سے نہیں گھبراتا اور نہ دنیا کی حرض باقی ہے، رونا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے عہد کیا تھا کہ ہمارا دنیاوی سازوسامان ایک مسافر کے زادِ راہ سے زیادہ نہ ہو؛ حالانکہ میرے گرد اس قدر سانپ (اسباب) جمع ہیں،
سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کل سامان جس کوسانپ سے تعبیر کیا تھا، ایک بڑے پیالے، ایک لگن اور ایک تسلہ سے زیادہ نہ تھا، اس کے بعد سعد رضی اللہ عنہ نے خواہش کی کہ مجھ کوکچھ نصیحت کیجئے،
فرمایا:کسی کام کا قصد کرتے وقت، فیصلہ کرتے وقت اور تقسیم کرتے وقت خدا کویاد رکھاکرو اس بیماری کے دوران میں اور احباب نے بھی نصیحت اور وصیت کی خواہش کی، فرمایا: تم میں سے جس سے ہو سکے اس کی کوشش کرے کہ وہ حج، عمرہ، جہاد، یاقرآن پڑھتے ہوئے جان دے دے اور فسق وفجور اور خیانت کی حالت میں نہ مرے۔
وقت آخر آیا تواپنی بیوی سے وہی مشک کی تھیلی منگائی اور اپنے ہاتھ سے پانی میں گھول کراپنے چاروں طرف چھڑکوایا اور سب کواپنے پاس سے ہٹادیا، لوگ تنہا چھوڑ کرہٹ گئے، تھوڑی دیر کے بعد پھرگئے تودیکھا کہ روح قفسِ خاکی سے پرواز کرچکی تھی آپ کی تاریخ وفات 10 رجب المرجب33ھ ہے۔ ان کا روضہ مدائن ہی میں ہے۔
حضرت سلمان ؓفارسی
حضرت سلمان ؓفارسی
حضرت سلمان ؓفارسی
حضرت سلمان ؓفارسی
حضرت سلمان ؓفارسی