Waqia Hazrat Ayoub As in Beautiful Words

سیدنا حضرت ایوب علیہ السلام (Waqia Hazrat Ayoub As in Urdu)

اللہ کے برگزیدہ رسول اور خلیل ابراہیم کی نسل میں ایک پیغمبر بڑے صابر و شاکر ہو گزرے ہیں، جن کا صبر ضرب المثل ہے۔ ان کا نام ایوب تھا۔ ایوب علیہ السلام نہایت دولت مند، صاحب ثروت اور بڑے زمیندار تھے۔ 

دمشق (شام) کے نواحی علاقے بُثینہ میں ان کی وسیع زرعی اراضی تھی۔ وافر مال و متاع اور مویشیوں کی کثرت نے انہیں علاقے کا سب سے بڑا اور بااثر زمیندار بنا دیا تھا۔ بڑے مالدار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بہت سخی اور دریا دل بھی تھے۔ غریبوں، مسکینوں اور بیوائوں پر خوب دل کھول کر خرچ کرتے۔ کوئی سوالی ان کے دروازے سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا۔

Waqia Hazrat Ayoub As in Urdu

ایوب علیہ السلام بہت شاکر بھی تھے۔ وہ ان نعمتوں پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنے برگزیدہ بندوں کو امتحان میں ڈالتا اور ان کے ایمان کو آزماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایوب کو بھی آزمائش میں ڈالا۔ ان کی اولاد جن مکانوں میں رہتی تھی وہ گر پڑے اور تمام اولاد مکانوں کے ملبے تلے آ کر دب گئی۔

 لٹیروں کے ایک بڑے گروہ نے ان پر دھاوا بول دیا۔ وہ ان کے تمام مویشی ہانک کر لے گئے۔ زرعی اراضی کو آگ نے خاکستر کر ڈالا۔ خود ایوب کو کوڑھ کی بیماری لاحق ہوگئی۔ پھوڑے خراب ہو گئے اور صورت حال سخت پریشان کن ہوگئی۔ ایسی حالت میں بھلا کون ساتھ رہتا ہے۔ تمام دوست احباب چھوڑ چھاڑ کر چلتے بنے۔

سوائے ایک بیوی اَلیَّا کے اورکوئی ڈھارس بندھانے کو باقی نہ رہا۔ دو ایک پرانے دوست البتہ کبھی کبھار دیکھنے آ جاتے۔

اَلِیا بڑی اچھی خاتون تھی۔ وہ ایوب کے اچھے دنوں کی ساتھی تھی۔ اس نے کہا: آسودہ حالی میں ان کے ساتھ رہی ہوں، اب ان پر کڑا وقت آیا ہے تو بھی ساتھ نبھائوں گی۔ بستی کے لوگوں نے حضرت ایوب کو بستی سے نکال دیا۔ الیا انہیں بستی کے باہر ایک خیمے میں لے آئی۔ وہ ان کے نیچے راکھ بچھاتی اور انہیں ہر طرح سے آرام پہنچانے کی کوشش کرتی۔

رہائش کامسئلہ تو کسی نہ کسی طرح حل ہو گیا لیکن کھانے پینے کا بندوبست کیسے ہوتا۔ سیدنا ایوب تو کام کاج کے قابل نہیں رہے تھے۔ بستی کے لوگ قریب نہیں پھٹکتے تھے، مدد کیا کرتے۔ اَلِیا نے ہی کمر ہمت باندھی اور لوگوں کے گھر میں کام کاج کرنے لگی۔ وہ لوگوں کے لیے روٹیاں پکاتی، ان کے برتن مانجھتی۔ دن ڈھلے جو روکھی سوکھی ملتی وہ لاکر سیدنا ایوب کو پیش کردیتی۔

 غرض آزمائش کے اٹھارہ برس اس نے سیدنا ایوب کی بڑی خدمت کی اور کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائی۔

خود سیدنا ایوب کا صبر و شکر بھی دیدنی تھا۔ زبان مبارک ہمیشہ ذکر الٰہی سے تر رہتی۔ اٹھارہ برس کہنے کو تو اٹھارہ برس ہیں لیکن جب جھیلنے پڑیں تو یہ بہت لمبی مدت بن جاتی ہے۔ آدمی بیمار ہو، بستر پر پڑا ہو تو چند گھڑیاں بھی کاٹے نہیں کٹتیں۔ ایک مرتبہ اَلِیا کہہ بیٹھی: میرے سرتاج! رب تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں کرتے کہ وہ تکلیفیں دور کر دے۔ آپ قدرے ناراض ہوئے اور بولے: ’’آسودہ حالی میں ستر برس گزارے، اب ستر برس اسی حالت میں گزاروں تو حساب برابر ہوجائے گا۔‘‘

اَلِیا یہ جواب پا کر بے حد پریشان ہوئی تاہم چپکی ہو رہی۔ ایک روز وہی دونوں دوست جو کبھی کبھار بھولے سے آیا کرتے تھے، ملنے کو آئے۔ باتوں باتوں میں ایک نے دوسرے سے کہا کہ معلوم ہوتا ہے، ایوب نے کوئی بڑا گناہ کیا ہے جو اتنی کڑی سزا پا رہا ہے۔ سیدنا ایوب نے اٹھارہ برس نہایت صبر و شکر سے گزارے تھے۔ ہر طرح کی جلی کٹی سنی تھی۔ یہ بات ایسی سخت تھی کہ برداشت نہیں کر پائے اور بے قرار ہو گئے۔

Waqia Hazrat Ayoub As ke Mutalq Qurani Ayat

 رب تعالیٰ کو پکارا، قرآن مجید نے ان کی دعا کا اس طرح ذکر کیا ہے:

’’ وَأَیُّوبَ إِذْ نَادَی رَبَّہُ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ‘‘ (الانبیائ: ۸۳)

’’اور ایوب (علیہ السلام) کی اس حالت کو یاد کرو، جب کہ انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور آپ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی:

’’ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ فَکَشَفْنَا مَا بِہِ مِن ضُرٍّ وَآتَیْنَاہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُم مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِنَا وَذِکْرَی لِلْعَابِدِیْنَ‘‘ (الانبیائ: ۸۴)

’’ہم نے ان کی سن لی اور جو دکھ انہیں تھا اسے دور کر دیا اور انہیں اہل و عیال عطا فرمائے اور ان کے ساتھ ویسے ہی اور بھی، اپنی خاص مہربانی کے ساتھ، تا کہ سچے بندوں کے لیے باعث نصیحت ہو۔‘‘

ہوا یوں کہ ایوب علیہ السلام جب حاجت کو جایا کرتے تو اہلیہ کام کاج سے واپس آ کر انہیں ساتھ لے کر ان کے ٹھکانے پر آجاتیں۔

اب کے ایوب علیہ السلام حاجت کے لیے گئے تو اہلیہ کو آنے میں ذرا دیرہوگئی۔ ادھراللہ تعالیٰ نے ایوب علیہ السلام پر وحی نازل کر دی کہ زمین پر پائوں مارو۔ انہوں نے پائوں مارا تو ٹھنڈے میٹھے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:یہ پانی پیو اور نہائو۔ انہوں نے پیا اور نہائے تو بھلے چنگے ہوگئے۔

اس طرح ایوب علیہ السلام پہلے سے زیادہ خوبصورت ہوگئے، بدن دمکنے لگا، فرشتوں کے ذریعے پوشاک پہنائی گئی۔ سونے کی ٹڈیوں کی بارش ہوئی۔ پھر وہ ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے۔ اہلیہ آئیں اور پہچان نہ پائیں، انہی سے پوچھنے لگیں: اے اللہ کے بندے! یہاں میرا شوہر ایوب نبی تھا… وہی بیمار سا… تم نے تو نہیں دیکھا؟‘‘

سیدنا ایوب علیہ السلام نے مسکرا کر کہا: ’’اللہ کی بندی! میں ہی ایوب ہوں۔‘‘

وہ حیران ہو کر بولیں: ’’مجھ دکھی عورت سے مذاق نہ کرو۔‘‘

بولے: ’’بھلا میں کیوں مذاق کرنے لگا۔ اری بھلی مانس! میں ایوب ہی ہوں۔ آزمائش ختم ہوئی۔ اللہ نے مجھے بھلا چنگا کر دیا ہے۔‘‘

تب اہلیہ اَلِیا نے بے ساختہ اللہ کا شکر ادا کیا.

ادھر دو بادلوں نے سیدنا ایوب علیہ السلام کے دونوں کھلیانوں پر سونا اور چاندی برسایا۔ مال، متاع، اولاد، اراضی، مال مویشی، نوکر چاکر، سب کچھ واپس مل گیا، وہ بھی دگنا ہو کر۔ اس کے بعد سیدنا ایوب علیہ السلام مزید ستر برس زندہ رہے اور دین ابراہیمی کی تبلیغ کرتے رہے اور صبر ایوب علیہ السلام رہتی دنیا تک ضرب المثل بن گیا۔ (تفسیر ابن کثیر، تفسیر القرطبی، تفسیر سورۃ الانبیائ)Waqia Hazrat Ayoub As

Waqia Hazrat Ayoub As

Waqia Hazrat Ayoub As

Waqia Hazrat Ayoub As

Leave a Comment